شہیدِ کربلا،حضرت امام حسینؓ بزمِ انسانیت کے روشن چراغ ہیں۔ آپ نے دم توڑتی ہوئی انسانیت کو حیاتِ جاواں بخشی۔ سیّد الشہداء کا صبر، آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔ امام عالی مقام ؓکی عظیم قربانی قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی، آپ کی قربانی ناقابل فراموش خدمت اسلام ہے، آپ نے بچپن سے شہادت تک علم کے جوہر دکھائے۔
آپ روشنی کا چراغ ہیں۔ 14 صدیاں گزر جانے کے باوجود کربلا کی داستان آج بھی زندہ وجاوید ہے۔ شہدائے کربلا نے اپنے خون سے کربلا کے میدان میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ نواسۂ رسولؐ نے کربلا میں ہر قسم کی ترغیب و تحریص کو ٹھکرا کر یزید کے آگے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور یہ انکار آپ ﷺکی تربیت کا نتیجہ تھا، کیونکہ آپ نے نبی کریمﷺ کی سرپرستی اور آغوش فاطمہؓ میں پرورش پائی۔ آپ بچپن ہی سے فضائل و کمالات کے مرکزشمار ہوتے تھے۔
نبی کریمﷺ نے خود آپ کا نام رکھا۔ مدینے کی گلیوں میں اپنے کندھے پر بٹھایا، اپنے نواسے کو سینہ مبارک پر سلاتے۔ سیدنا امام حسینؓ مسجد تشریف لاتے اور آپ کا پائوں الجھ جاتا اور آپ گر جاتے تو آپﷺ اپنا خطبہ روک کر منبر سے اتر جاتے اور آپ کو گود میں اٹھا لیتے۔ ایک دفعہ حالتِ نماز میں آپؓ حضورﷺ کی پشت پر سوار ہوگئے، آپﷺ نے سجدے کو اس قدر طول دیا جب تک آپ اپنی مرضی سے پشت مبارک سے خود نہ اترے۔
نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: بےشک، حسنؓ و حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ’’جس نے مجھے محبوب رکھا اور ان دونوں (حسنؓ و حسینؓ) کو محبوب رکھا اور ان کے ماں باپ کو محبوب رکھا، کل وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا‘‘۔
آپﷺ نے فرمایا ’’اے اللہ، میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما‘‘ (ابن ماجہ، ابو دائود) ایک اور جگہ آپﷺ نے فرمایا ’’میرے اہل بیتؓ کی مثال کشتی نوح ؑ کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا ،اس نے نجات پائی اور جو باہر رہا، وہ غرق ہوا‘‘۔
60 ہجری میں یزید تخت خلاف پر متمکن ہوا، حکومت سنبھاتے ہی اس نے مختلف علاقوں میں اپنے گورنروں اور سرداروں کے نام خطوط ارسال کئے اور انہیں ان کے عہدوں پر باقی رکھنے کی اطلاع دی اور دوسرے انہیں حکم دیا کہ وہ لوگوں سے اس کے لئے بیعت لیں۔ اس ضمن میں مدینے کے گورنر ولید ابن عتبہ کے نام ایک خط لکھا کہ فوراً حسین ابن علیؓ سے بیعت لو اور جب تک وہ بیعت نہ کریں، انہیں کوئی مہلت اور موقع نہ دو۔
جب امام عالی مقامؓ سے بیعت کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ’’مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا‘‘ کیونکہ یہ بیعت خدا کی رضا اور خوشنودی کے لئے نہیں ہے۔ آپ نے ولید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم خاندان نبوتؐ اور معدن رسالت ؐ ہیں، ہمارے گھروں میں فرشتوں کی آمد و رفت رہا کرتی ہے اور ہمارے خاندان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ہمارے گھرانے سے شروع کیا اور آخر تک ہمیشہ ہمارا گھرانہ اسلام کے ہمراہ رہے گا، لیکن یزید جس کی بیعت کی تم مجھ سے توقع کر رہے ہو، اس کا کردار یہ ہے کہ وہ شراب نوشی کرتا ہے، بے گناہ افراد کا قاتل ہے، اس نے احکام خداوندی کو پامال کیا اور برسرعام فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے، لہٰذا مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کرے گا‘‘۔
جب یزید کا مطالبہ بیعت حد درجہ بڑھنے لگا تو آپ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے، لیکن یہاں بھی بیعت کا مطالبہ مسلسل ہوتا رہا تو آپ مجبوراً نانا کا مدینہ چھوڑ کر کربلا میں وارد ہوئے۔ سپاہ یزید آپ سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کی گئی۔ 7 محرم الحرام سے آپ اور آپ کے اہل بیت اطہارؓ پر پانی بند کر دیا گیا، فوجوں نے چاروں طرف سے آپ کو گھیر لیا۔
شب عاشور آپ اپنی ہمشیرہ حضرت زینب ؓسے مخاطب ہوتے ہوئے، کہتے ہیں کہ ’’اے بہن ،صبر و تحمل سے کام لو اور یاد رکھو کہ ایک دن تمام دنیا والوں نے مرنا ہے اور جو آسمان پر ہیں، وہ بھی باقی نہیں رہیں گے۔ وہ خدا جس نے اپنی قدرت سے دنیا کو خلق کیا ہے، اس کے سوا سب نے موت کا ذائقہ چھکنا ہے اور وہی تمام مخلوقات کو ایک بار پھر اٹھائے گا اور وہ یکتا اور بے مثل ہے‘‘۔
10 محرم کی صبح نموار ہوتی ہے، صبح عاشور نماز فجر کے بعد ایک فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہوتا ہے، آپ نے اپنے اصحاب کو دو اہم نکات کی طرف توجہ دلوائی، ایک موت کی، جو امر الہٰی ہے، دوسری دشمن کے مقابلے میں پامردی اور استقامت کے مظاہرے کی۔
تاریخ گواہ ہے کہ امام حسینؓ کے ہر سپاہی نے میدان کربلا میں شجاعت و پامردی کے وہ جوہر دکھائے، جس پر تاریخ اسلام آج بھی ناز کرتی ہے۔ جب تمام اصحاب شہید ہوگئے تو امام عالی مقامؓ دلیری سے لڑتے ہیں، یہاں تک کہ فوجیں دور دور بھاگ جاتی ہیں، حکم یزید آتا ہے کہ سب مل کر حملہ کرو، کہیں سے تیر آتا ہے، کہیں سے پتھر ،اس طرح آپ 10 محرم کو وقت عصر شہید ہوجاتے ہیں۔