اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی آبادی ایک ارب تک ہونے میں ہزاروں سال لگے مگر صرف 200سال کے عرصے میں اس میں سات گنا اضافہ ہوا۔ 2011ء میں پہلی بار دنیا کی آبادی 7 ارب نفوس ہوئی اور اس وقت دنیا کی آبادی 7ارب 95کروڑ نفوس سے زائد ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی آبادی 2030ء میں 8ارب 50کروڑ، 2050ء میں 9ارب 70 کروڑ اور 2100ء میں 10 ارب 9 کروڑ نفوس ہونے کی توقع ہے۔ اعدادشمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے چین دنیا میں پہلے (ایک ارب 45کروڑ)، بھارت دوسرے (ایک ارب40کروڑ)، امریکا تیسرے (33کروڑ)، انڈونیشیا چوتھے (27کروڑ) اور پاکستان 22کروڑ سے زائد افراد کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔
دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر شہروں کی طرف نقل مکانی میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ 2007ء وہ پہلا سال تھا جس میں دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں زیادہ لوگ آباد تھے جبکہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2050ء تک دنیا کی تقریباً 66 فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہوگی۔ اس رجحان کے دور رس مضمرات ہیں۔ یہ معاشی ترقی، روزگار، آمدنی کی تقسیم، غربت اور معاشرتی تحفظات کو متاثر کرتا ہے۔ یہ صحت کی سہولیات، تعلیم، رہائش، صفائی ستھرائی، پانی، خوراک اور توانائی تک عالمی رسائی کو یقینی بنانے کی کوششوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
افراد کی ضروریات کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے پالیسی سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کرہ ارض پر کتنے لوگ رہ رہے ہیں، وہ کہاں ہیں، کتنے بوڑھے ہیں اور ان کے بعد کتنے لوگ آئیں گے۔ یہ قانونِ قدرت ہے، ہر زندہ شے نمو پاتی ہے اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بے چین ومضطرب رہتی ہے۔ اسی لیے آبادی کے مسائل بھی اسی رفتار سے بڑھتے ہیں۔
کووڈ-19اور اس کے نتیجے میں لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے دنیا کے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک معاشی بحران کا سامنا کررہے ہیں۔ عالمی سطح پر سپلائی چین کے مسائل، تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے افراط زر کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ لوگوں کے ماہانہ اخراجات میں 100فیصد سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ رہائش، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر معمولات زندگی میں قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔
ایسے میں دنیا کی ایک بڑی آبادی جو متوسط آمدنی کی حامل سمجھی جاتی تھی، مہنگائی کی وجہ سے کم آمدنی والی آبادی میں شمار ہونے لگی ہے۔ کووڈ-19کے بعد سے خواتین کی نمایاں تعداد نے یا تو نوکری چھوڑ دی یا ان کی اکثر کم تنخواہ والی ملازمتیں ختم کر دی گئیں۔ اس کی ایک وجہ وبائی مرض کے بعد بچوں یا گھر کے بزرگ افراد کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں بڑھ جانا بھی ہے۔
آبادی سے صرف یہی نہیں پتا چلتا کہ کرہ ارض پر زندہ افراد کی تعداد کتنی ہے بلکہ ہمیں لوگوں کے معیار زندگی کو بلند رکھنے کی کوششوں کو از سرِ نو مہمیز کرنے کی ضرورت ہے۔ آبادی اور وسائل میں توازن کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور اس کے ساتھ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے وسائل کی وجہ سے سامنے آنے والی مشکلات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے لوگوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
عوام میں یہ شعور پیدا کرناہے کہ دستیاب وسائل کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں اور اتنے کم وسائل میں دنیا کی آبادی اگر اسی تیز رفتاری سے بڑھتی چلی گئی تو آنے والی نسلوں کی زندگی گزارنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اگر بنیادی سہولتیں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، صحت، مناسب خوراک، رہائش ، ٹرانسپورٹیشن اور نکاسی آب کی موجودہ سہولیات20کروڑ آبادی کے لیے ناکافی ہیں تو آبادی دگنی ہونے پر کیا ہوگا؟ اس صورتحال کا پوری دنیا کو ہی سامنا ہے، جہاں وسائل کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔
آبادی اور وسائل میں توازن نہ رکھنے والے ممالک میں بیروزگاری کا عام ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ 2020ء-2021ء کی لیبر سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں مجموعی لیبر فورس کی تعداد 7کروڑ17لاکھ ہے، جس میں سے 45لاکھ10ہزار افراد بے روزگار ہیں۔ پاکستان میں اوسط ماہانہ تنخواہ 24 ہزار 28 روپے فی کس ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح کو دیکھا جائے تو قیاس ہے کہ 2050ء تک پاکستان کی آبادی 35کروڑ سے تجاوز کرسکتی ہے اور اتنی بڑی آبادی کے لیے بنیادی سہولتوں، خاص طورپر صحت عامہ کی سہولیات اور اس تک رسائی کے لیے حکومتوں کو لازمی سوچنا ہوگا۔
اس ضمن میں سب سے مثبت پہلو یہ ہےکہ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، ان نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں اور تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا جائےتو ملک کی ترقی میں ان کا کردار بہت اہم اور فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور بہتر استعمال سے معیارِ زندگی بلند ہونے کی امیدیں پیدا ہوں گی اور پاکستان کے ہر طبقے کو بنیادی سہولتوں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، صحت، مناسب خوراک، رہائش، ذرائع آمدورفت اور نکاسی آب وغیرہ کی دستیابی ممکن ہوگی۔ تاہم، اس کے لیے ابھی سے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔