• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ؕپرویز مشرف اور آرٹیکل 6...نقش خیال…عرفان صدیقی...

میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اور 12اکتوبر کا سورج ہولے ہولے افق مغرب کی طرف سفر کر رہا ہے۔سرکاری ذرائع ابلاغ اس دن کو ’’یوم سیاہ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ کچھ خصوصی پروگراموں کی نوید بھی دی جا رہی ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ برسوں کی روش کے بعد کچھ خصوصیات ہمارے سرکاری میڈیا کی فطرت ثانیہ بلکہ فطرت اول بن گئی ہیں۔ حکومت کہے نہ کہے ان کی معاملہ فہمی اور مزاج شناسی انہیں بتا دیتی ہے کہ تقاضائے وقت کیا ہے اور انہیں کیا کرنا ہے۔ انہیں کہہ بھی دیا جائے کہ وہ بھونڈے پروپیگنڈے ،بے مغز مدح و ستائش اور منفی ردعمل ابھارنے والے پروگراموں اور خبروں سے ہٹ کر توازن و اعتدال کی راہ پر چلتے ہوئے مثبت، معروضی اور غیر جانبدارانہ اسلوب اپنائیں، تو بھی وہ اسی لکیر کے فقیر رہتے ہیں جو انہوں نے برس ہا برس سے ’’صراط مستقیم‘‘ کے طور پر اپنا رکھی ہے۔ اس پرندے کی طرح جو برسوں پنجرے میں بند رہنے کے باعث پروں کو حرکت میں لانا اور اڑنا بھول جاتا ہے۔ اگرکوئی اس کا پنجرہ کھول بھی دے تو وہ پھدک کر دو قدم دور جا بیٹھتا ہے لیکن اڑنے کی کوشش نہیں کرتا۔ طویل قفس بندی اسے بے بال و پری سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ سرکار کا میڈیا بھی اسی طرح بے بال و پر ہو چکا ہے پرویز رشید ہزار کوشش کرے، ریڈیو اور ٹی وی کے بال و پر میں حرکت نہیں آ سکتی۔ اس کا امکان غالب ہے کہنہ مشق فن کار ایک دن پرویز رشید کو بھی اس لکیر پہ لے آئیں گے جس کی وہ فقیری کر رہے ہیں۔
سو عین ممکن ہے کہ سرکای ذرائع کا ’’یوم سیاہ‘‘ ان کی اپنی خوئے وفا شعاری اور ہنر موسم شناسی سے پھوٹا ہو۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے یوم سیاہ کا کوئی باضابطہ اعلان جاری نہیں ہوا۔ وزیراعظم یا صدر مملکت کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا۔ وزارت اطلاعات بھی مہر بہ لب ہے ۔ سرکار کی سطح پر کسی تقریب کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔ ایک اخبار میں میں نے عزیزی نہال ہاشمی کا ایک مضمون ضرور دیکھا جس میں یوم سیاہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے بعض وابستگان کی طرف سے اکا دکا اشتہارات بھی آئے ہیں جنہیں بعض جنونیوں کی انفرادی کارروائی کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ 12اکتوبر 1999ء کو چونکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا اس لئے کسی دوسری سیاسی جماعت کو کیا پڑی تھی کہ وہ جمہوریت کے لئے دو آنسو بہاتی یا 12اکتوبر کو یوم سیاہ قرار دے کر آمریت پہ دو حرف بھیجی۔ سونہ اسلام کی سربلندی کا دم بھرنے والی کسی جماعت نے جنرل مشرف کی مہم جوئی کا تذکرہ کیا نہ کسی صاف چلی شفاف چلی کو ضرورت محسوس ہوئی کہ جمہوریت سے وابستگی کا عزم تازہ کرتی۔ سو یہ یوم سیاہ، سرکاری میڈیا کی لیپا پوتی کی حدوں سے باہر معمول کے ایک عام سے دن کی طرح گزر جائے گا ۔
پی ٹی وی نے مجھے بھی ایک ایسے ہی ٹاک شو میں دھر لیا تھا۔ میزبان نے بار بار یوم سیاہ کا تذکرہ کیا۔کوئی درجن بھر شرکاء نے آمریت اور جمہوریت کی مدح سرائی کی لیکن بلوچ رہنما اختر مینگل نے ایک کمال کی بات کہہ ڈالی ۔بولے یوم سیاہ توکمزور ،ناتواں اور بے وسیلہ لوگ منایا کرتے ہیں ۔قانون کی طاقت رکھنے والی ریاستیں یوم سیاہ نہیں مناتیں، سیاہ کاروں کو عبرت کا نشان بنایا کرتی ہیں‘‘۔
بلوچ رہنما کی بات میں بڑا وزن ہے۔ اگر اس قوم میں کوئی دم خم موجود ہے اور اگر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے اپنے پیکر خاکی میں جان رکھتے ہیں تو انہیں اس سوال کا جواب ضرور دینا چاہئے جو سردار اختر مینگل کے تبصرے سے پھوٹتا ہے۔ بلاشبہ جنرل پہلا ڈکٹیٹر نہیں،تین فوجی آمر پہلے گزرے ہیں، ان سب نے مروجہ آئین وقانون اور اپنے حلف سے غداری کی۔ تین اب اس دنیا میں موجود نہیں رہے چوتھا زندہ و سلامت ہمارے درمیان کھڑا ہے۔ وہ آئین بھی کارفرما ہے جس کا آرٹیکل6آئین شکنی اور فوجی قبضے کو غداری قرار دیتا ہے وہ قانون بھی موجود ہے جس میں اس غداری کی سزا کا تعین کر دیا گیا ہے۔ وہ عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں جن کی رو سے مشرف کو غاصب قرار دیا گیا ہے۔یہ عدالتی تلقین بھی موجود ہے کہ حکومت مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ دائر کرے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والا میثاق جمہوریت بھی موجود ہے، جس میں مہم جوئی کے خلاف اقدام کا عزم کیا گیا ہے لیکن 12اکتوبر 2013ء کو چودہ برس پہلے کے شب خون کے حوالے سے سرکاری میڈیا کی رسمی سرگوشیوں کے سوا کچھ سنائی یا دکھائی نہیں دے رہا۔
یہ بات اب کسی دلیل کی محتاج نہیں رہی کہ کارگل کے بے ننگ و نام معرکے کا آسیب پرویز مشرف اور اس کے ٹولے کا تعاقب کر رہا تھا۔ 12اکتوبر سے بہت پہلے کہ مہم جوئی کا منصوبہ بنایا جا چکا تھا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم ہائوس کے گارڈز تک تبدیل کئے جا چکے تھے۔ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (DGMO) لیفٹننٹ جنرل (ر)شاہدعزیز نے اپنی کتاب میں چشم کشا انکشافات کئے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ ’’انقلاب‘‘ کی تیاریاں پہلے سے مکمل ہو چکی تھیں۔ اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ کے صفحہ48پہ وہ لکھتے ہیں
’’آپ تینوں میں سے ہر ایک انفرادی طور پر اس بات کا مجاز ہو گا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے احکامات جاری کرے۔ میں آپ تینوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ جنرل محمود، جنرل عزیز اور شاید آپ ‘‘جنرل مشرف نے میٹنگ ختم کرتے ہوئے ہمیں اس سلسلے میں بااختیار کیا اور ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی وجہ سے آپس میں آپ لوگوں کا رابطہ نہ ہو سکے یا کوئی دشواری پیش آ جائے گی تو پھر بھی کارروائی میں رکاوٹ نہ پڑے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ شاید یہ بات اس لئے بھی کہی ہو کہ کوئی ایک شخص آخری وقت پر پیچھے ہٹنا چاہے بھی تو کارروائی نہ رکے۔ ہم سب نے انہیں الوداع کہا اور اپنے گھروں کو لوٹ آئے… پھر ایک شام اور اسی طرح کی ملاقات ہوئی اور تازہ ترین صورتحال جنرل احسان نے پیش کی۔ہم نے اپنی تیاریوں کے بارے میں بتایا۔ کچھ کا خیال ہے کہ فوج میں تختہ الٹنے کا منصوبہ تیار ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے فوج میں کسی بھی غلط کام کا یوںکھل کے حکم نہیں دیا جا سکتا۔ فوج کی نہ ایسی تہذیب ہے اور نہ ہی رواج ہے البتہ کچھ لوگ مل کر سازش کر سکتے ہیں جیسا اب ہو رہا تھا ویسے بھی تختہ الٹنا کوئی ایسا پیچیدہ کام توہے نہیں جس کے لئے کوئی لمبی منصوبہ بندی کی ضرورت ہو‘‘۔
مشرف کے اقدام نے فوج کے اندر ایک زبردست خونریزی کا خطرہ بھی پیدا کر دیا تھا اس کا ذکر جنرل ( ر) ضیاء الدین بٹ نے بھی اپنی تازہ گفتگو میں کیا ہے اور جنرل (ر) شاہد عزیز نے بھی حوالہ دیا ہے اس کا تذکرہ پھر سہی۔لیکن جنرل مشرف کی مہم جوئی کے معاملے کو بہرحال کسی کنارے لگنا چاہئے۔ حکومت پہ لازم ہے کہ وہ اپنا قیمتی موقف پیش کرے۔نواز شریف براہ راست زخم خوردہ ہی نہیں۔ جمہوری اداروں کی بالادستی اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حدوں کے اندر رکھنے کے تصور کے زبردست حامی ہیں۔ اگر ان کے دور میں بھی صرف نظر سے کام لیا گیا اور آئینی بغاوت جیسے گھنائونے جرم کو کسی مصلحت کے تحت زیر قالین چھپا دیا گیا تو یہ جمہوریت کے لئے اچھا شگون نہ ہو گا۔ اگر حکومت نے طے کر لیا ہے کہ کوئی نئی چنگاری سلگا کر پھر سے جمہوری نظام کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہئے تو بھی اسے پارلیمنٹ کو بروئے کار لاتے ہوئے مشرف کی غداری کے حوالے سے ایک موقف ضرور اختیار کرنا چاہئے۔ اگر حکومت میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ آرٹیکل6کو متحرک کر سکے تو اپنی آبرو کے لئے مشرف کو (تمام سابقہ آمروں سمیت) معافی ہی دے دے، کچھ تو کرے۔
تازہ ترین