سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے موقع پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے آرٹیکل 5(1) کے تحت دی گئی رولنگ کے خلاف ازخود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جس سے قبل ازیں دیئے گئے مختصر فیصلے کی وضاحت بھی ہوتی ہے اور ایسے رہنما اصول و نکات بھی سامنے آتے ہیں جو مستقبل میں بعض امور پر رہنمائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں بالخصوص پارلیمانی ایوانوں کی کارروائی چلانے کے حوالے سے ان اصولوں کا ملحوظ رکھنا ضروری ہوگا۔ تفصیلی فیصلے میں جو بات نمایاں ہوکر سامنے آئی وہ نظام انصاف کا یہ کلیدی اصول ہے کہ عدالتیں حقائق پر فیصلہ کرتی ہیں، قیاس آرائیوں پر نہیں۔ یہ پہلو بھی نمایاں ہوئے کہ عدالت عظمیٰ ’’بیرونی مداخلت ‘‘کی دلیل سے مطمئن نہیں،’’ انکوائری کمیشن ‘‘کا قیام اس بات کا غماز ہے کہ سابق حکومت کو اس پر شک تھا۔ فیصلے میں صراحت سے واضح کر دیا گیا کہ قومی سلامتی کے نام پر ڈپٹی اسپیکر نے جو رولنگ دی اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کی بنیاد پر اسے تسلیم کیا جاسکتا جبکہ سفارتی تعلقات کے پیش نظر سفارتی مراسلے سے متعلق کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا۔ یہ نکتہ بھی نمایاں ہوا کہ اپوزیشن پر بیرونی سازش کا الزام لگایا گیا مگر اس کا موقف نہیں لیا گیا۔ سابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد بلاشبہ ایک آئینی معاملہ تھا مگر اس کے ضمن میں جو واقعات پیش آئے انہیں ملکی آئینی تاریخ میں خواہ کیسے بھی الفاظ میں یاد کیا جائے اس واقعہ کے بعد بعض ایسے اصول ضرور وضع ہوئے جنہیں مستقبل میں شاید نظرانداز کرنا ممکن نہ ہو۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے مختصر فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم اور وزیراعظم کی قومی اسمبلی کی تحلیل کے بارے میں صدر کو ایڈوائس اور صدر کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس منظور کرنے کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 862صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا ہے۔ متفقہ فیصلے میں جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے علیحدہ سے بھی اپنے نوٹ قلمبند کئے ہیں۔ یہ تفصیلی فیصلہ اور اضافی نوٹس قانونی ماہرین کیلئے خاص اہمیت رکھتے ہیں اور ان کے باعث بعض گتھیاں پیدا ہونے کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس کی جانب سے مذکورہ رولنگ کے خلاف ازخود نوٹ پر تحریر کردہ اِس تفصیلی فیصلے کا آغاز سورہ الشعرا کی آیت 83اور 84سے کیا گیا ہے۔ اکثریتی فیصلے کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر قانونی اور وزیراعظم کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا گیا۔ عدالتی فیصلہ واضٗح کرتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 95کی شق 2کے تحت اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا پابند ہے جبکہ آرٹیکل 69کی شق ایک سے پارلیمانی کارروائی کو عدالت سے تحفظ دیتی ہے مگر پارلیمانی کارروائی میں آئین کی خلاف ورزی ہو تو اس پر کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ تفصیلی فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ جب اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی آئین کے حوالے سے تشریح غلط ہو تو اس صورت میں عدالت کے پاس دائرہ اختیار موجود ہے، یہ بھی کہا گیا کہ جس وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد موجود ہو وہ صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتاسپریم کورٹ کا کہنا ہے ’’ قانونی عدالت ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ اس کیس کو آئین اور قانون کے مطابق نمٹائیں‘‘۔ عدالت عظمیٰ یقینی طور پر آئین کی کسٹوڈین ہے لیکن اگر ہمارے تمام شعبوں کے لوگ، بالخصوص سیاسی حلقے اپنے قول و فعل میں یہ بات ملحوظ رکھیں کہ انہیں آئین اور قانون کے تقاضے ملحوظ رکھنا ہیں تو ملک و قوم کو کئی مسائل سے بچانا آسان ہوجائے اور امن و ہم آہنگی کی فضا میں ترقی و خوشحالی کا سفر تیز تر محسوس ہو۔