پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ غلطی ہوگئی تو واپس ہو جائیں، جنرل اور لیڈر کے لیے یو ٹرن ضروری ہوتا ہے۔ فوج اور عوام میں فاصلے، فوج اور عوام کے لیے نقصان دہ ہیں۔ موجودہ حکومت کو حاصل اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ملک کے مفاد میں نہیں ۔
اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ملک میں مارشل لاء وغیرہ کا وقت گزر چکا ہے، ملک بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جمہوری رویے اپنانے ہوں گے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ سپریم کورٹ سائفر کی انکوائری کروانے کی بجائے دھمکی دے کہ عمران پر آرٹیکل 6 لگے، اس طرح تو معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
عمران خان نے کہا کہ امریکی سازش کے نتیجے میں ملک میں غیر فطری حکومت آگئی ہے، اس حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ بند کمروں میں پلان اے بنتا ہے اور پھر بند کمروں میں پلان بی بنتا ہے، ان کے بھی فون ٹیپ کیے جارہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جن پر اربوں روپے کے کیسز ہیں ان کو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ مان لیا گیا۔
عمران خان نے کہا کہ انہوں نے لاپتہ افراد کے مسئلے پر آرمی چیف جنرل باجوہ سے کئی مرتبہ بات کی، عسکری قیادت کا موقف تھا کہ عدالتوں میں کیسز ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے، کیسز ثابت نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد چھوٹ جاتے ہیں اور پھر کارروائیاں کرتے ہیں۔
تقریر کے شروع میں عمران خان نے کہا کہ آج سوشل میڈیا آزاد ہے، لوگوں میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ تقریر ختم کرتے ہوئے بولے سوشل میڈیا پر بہت گند آرہی ہے۔ اسے کنٹرول کرنا ہوگا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا کہ میری جدوجہد ایک ہی ہے یہ دو خاندان جو 30 سال سے باریاں لے رہے ہیں، پاکستان میں آدھے وقت آمروں اور آدھا عرصہ ان دو خاندانوں نے حکومت کی ہے، تمام آمروں نے خود کو جمہوری بنایا، اداروں کو کمزور کیا اور خوف کو قانون سے بالاتر رکھا، تمام آمروں کی مجبوری بن جاتی ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرے۔
عمران خان نے کہا کہ جب مشرف اقتدار میں آیا تو وہ پاپولر تھا کیونکہ خوشحالی آنے لگی، عدلیہ آزادی تحریک میں جب میڈیا مشرف کے خلاف جانے لگا تو پابندیاں لگیں، ان دونوں خاندانوں نے کرپشن کی تو ان کی مجبوری بن گئی کہ عدلیہ، میڈیا کو کنٹرول کرے، مجھے کبھی میڈیا سے خطرہ نہیں تھا، میڈیا سے کوئی ڈر نہیں تھا، میں نے میڈیا کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی، میری ہدایت پر کسی بھی صحافی کو نہیں اٹھایا گیا، اظہار رائے کی آزادی کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں فیک نیوز پر عدالتوں میں سزا دی جاتی ہے، کوئی میڈیا پر کسی کی توہین نہیں کرسکتا، میرے ایک وزیر اور پارٹی رہنما نے برطانیہ میں کیس کیا تو ان کو انصاف ملا، پاکستان میں ہمیں کیوں فیک نیوز یا توہین پر عدالت میں انصاف نہیں ملتا، جس وزیر کے خلاف خبر آتی میں اسے دفاع کرنے کا کہتا تھا۔