• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتدار کی دوڑ میں ’’بندر کلّہ‘‘ کا کھیل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہم عوام تماشائی بنے اقتدار کے اس غیر اخلاقی، غیرسیاسی کھیل پر بس زور زور سے تالیاں پیٹتے آئے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ وزیراعظم خان کو لایا گیا، بڑی بہادری، دانش مندی، حکمت و تدبر کے دعوے وعدے کئے گئے ہم پونے چار سال تک یہی اُمید لگائے تماشہ دیکھتے رہے کہ کب دائرے میں پڑی جوتیاں ایک ایک کرکے بکھرنےلگیں، وہ مضبوط کلّہ توڑ کر دائرے سے باہر نکلیں اور ہم ہا ہا کار کرتے ان کے پیچھے بھاگیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ہم عوام نڈر بے باک ، دیانت دار کھلاڑی کی نااہلی، غیر ذمے دارانہ سفارت کاری، غلط معاشی اندازوں اورحکمت عملی کے نتیجے میں اسے دائرے سے نکالنے کے خواہش مند نظر آئے اور دائرے سے باہر مخالف کھلاڑیوں کو طعنے دینے لگے کہ وہ وزیراعظم خان کو دائرے سے باہر کیوں نہیں نکال رہے اور انہیں مہنگائی کے عمرانی سونامی سے نجات کیوں نہیں دلا رہے۔ ایک طرف مخالف کھلاڑیوں کی عزت کا معاملہ تھا تو دوسری طرف عوام کا دباؤ۔ تیسری طرف وزیراعظم، مخالفین کو بے دریغ انتقام کا نشانہ بناتے چلے جارہے تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ کھیل کے آئینی و قانونی اصولوں کے مطابق تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کو دائرے سے نکالاگیا اور شہباز شریف کو ان کی جگہ نئے پُرعزم کھلاڑی کے طور پر لایا گیا۔ کوئی خوش ہوا تو کوئی ناراض، نتیجہ کھیل میں ایک نیا فساد پیدا ہوا۔ خان واقعی پہلے سے بھی زیادہ مخالفین کیلئے خطرناک ثابت ہوئے۔اب صورت یہ ہے کہ وہ اپنی جنگ ایک زخمی شیر کی طرح ہر طرف دھاڑیں مارتے لڑ رہے ہیں، لوگوں کا وہی جم غفیر جو کل تک انہیں دائرے سے نکالنے کے نعرے لگا رہا تھا آج امریکی سازش کے غیر حقیقی بیانیے،غلامی نہیں خودمختاری ، امپورٹڈ حکومت نامنظور کے نعروں کے پیچھے زندہ باد، مردہ باد کررہا ہے۔ آج یہ خود ساختہ بیانیہ ان کی راحت اور امیدوں کا محور بنا سر چڑھ کر بول رہا ہے اور ہم عوام بدھو بنے امریکی غلامی سے نجات کی امید لگائے خود مختاری کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔ عجب تماشہ ہے کہ جس شخص کی ساری زندگی انہی آقاؤں کے ہاں گزری اور مغرب کو اس سے زیادہ کوئی نہ جانتا ، اس نے اس جم غفیر کو امریکی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ جب ہمارا خان پنجاب کے ضمنی انتخاب کے دوران کل کے ’’چوروں، ڈاکوؤں‘‘ اور آج کے امپورٹڈ حکمرانوں کو امریکی سازش کا حصہ قرار دیتا ہے اور عوام امریکہ مردہ باد، امریکہ کا جو یار ہے غدار غدار ہے کے نعرے لگاتے ہیں تو حضور اسی جنونی مجمعے کو منہ پر انگلی رکھ کر ہاتھ کے اشارے سے کہتے ہیں امریکہ مخالف نعرے مت لگاؤ، ایک طرف امریکی سازش کے مرکزی کردار سے معافی مانگنے کے لئے خصوصی ایلچی بھیجا جاتا ہے تو دوسری طرف امریکی سازش کی بنیاد پر یہ چورن بھی برائے فروخت ہے۔ آخر حضور چاہتے کیا ہیں؟ قوم کو کبھی مذہب کے نام پر، کبھی امریکی سازش کی بنیاد پر تو کبھی اداروں کے خلاف منظم مہم چلا کر یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ اوپر بیٹھے لوگو، سری لنکا کے حالات کو دیکھو، ڈرو، عبرت حاصل کرو۔ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ گویا کہ قوم کو ذہنی طور پر سری لنکا جیسی عوامی بغاوت پر اُکسانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ہمیں یہ ارادے نیک نہیں لگتے، اقتدار کی خواہش میں اس حد تک جانا کسی بھی فریق کے حق میں نہیں۔ اگر خان کی یہ سوچ ہے کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن سمیت تمام متعلقہ اداروں نے اس کے حق میں فیصلہ نہ سنایا تو وہ ان نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس کی بنیاد پر پاکستان کو سری لنکا بنانے کی کوشش کی جائے گی تو عوام ابھی سے سوچ لیں کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے پاکستان یا عمران خان؟ پنجاب کے ضمنی انتخابات (ن) لیگ اور تحریک انصاف کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ کوئی فریق بھی اخلاقیات کے دائرے میں رہنے کو تیار نہیں۔ ان دو جماعتوں کی قیادتوں کی باہمی جنگ میں آج پاکستان شدید دباؤ میں ہے اگر فریقین نے ضمنی انتخابات کے نتائج کو دل سے تسلیم نہ کیا تو حالات سری لنکا سے بھی زیادہ بدتر ہوسکتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ دو بڑی جماعتوں کی بقاءکی جنگ ہے۔ جو جیتا وہی سکندر۔ ان انتخابات کے نتائج سے دونوں بڑی جماعتوں کے مستقبل کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے ہوگا کہ موجودہ جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے گا یا نہیں۔ (ن) لیگ کی کامیابی کا مطلب یہ ہوگا کہ اتحادی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی، تحریک انصاف کی کامیابی کی صورت میں یہ پورا عارضی نظام لپیٹا جائے گا۔خدشہ ہے کہ ضمنی انتخابات کے ممکنہ نتائج کسی ایک جماعت کیلئےقابل قبول نہ ہوں گے۔ فرض کریں تحریک انصاف یہ معرکہ سر کرلیتی ہے تو کیا حمزہ شہباز آسانی سے اقتدار چھوڑنے کو تیار ہوں گے ؟یہاں تو صورت حال یہ رہی ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ایوان میں ووٹنگ ہی نہیں ہونے دی اور بجٹ اجلاس بھی اسمبلی عمارت سے باہر ہوٹل میں کروانا پڑا، تو کیا اس صورت حال اقتدار کی منتقلی ممکن ہو گی اور یہ بھی فرض کرلیں کہ (ن) لیگ ضمنی انتخابات کے نتائج کی صورت پنجاب میں اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو کیا خان اعظم ان نتائج کو قبول کرلیں گے، ان کی دھمکیوں سے تو یہی نظر آتا ہے کہ انہیں ہر صورت فتح چاہیے بصورت دیگر وہ نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ اللہ خیر کرے! آنے والے لمحات کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا بس حرم شریف میں سپہ سالار پاکستان کی یہ التجا یاد رکھیئے، پاکستان کی سلامتی کیلئے دعا کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین