آج سترہ جولائی ہے۔ آج ضمنی انتخابات کا دن ہے۔ پنجاب میں بیس نشستوں پر الیکشن کا دن ہے۔ کہنے کو تو یہ تین سو اکہتر میں سے صرف بیس نشستوں کا انتخاب ہے۔ لیکن کئی اعتبار سے یہ عام انتخابات کے برابر اہمیت حاصل کر گیا ہے۔ ان انتخابات کے نتائج ملک کی سیاست اور جمہوریت کی سمت متعین کریں گے۔ ان بیس نشستوں کے فیصلوں سے صرف تخت پنجاب کا فیصلہ نہیں ہو گا بلکہ ان سے ہر دو صورت میں ایک نئے بیانیے کا جنم ہو گا۔ ان انتخابات سے پتہ چلے گا کہ حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ ہیں یا نہیں؟ پنجاب میں پی ڈی ایم کی تحریک کامیاب ہوئی یا نہیں ؟ ان بیس نشستوں سے فیصلہ ہو گا کہ وفاق میں حکومت کتنی مضبوط ہے؟ شہباز شریف کی وزارت عظمی کتنی دیر چلے گے؟ ان بیس نشستوں کے نتائج یہ بھی متعین کریں گے کہ نئے الیکشن ایک سال بعد ہوں گے یا ان کا فوری طور پر اعلان ہو گا؟
پنجاب مسلم لیگ ن کا گڑھ مانا جاتا ہے اگر مسلم لیگ ن کے پاس صرف وفاق میں حکومت رہتی ہے اور وہ تخت پنجاب سے محروم ہو جاتی ہے تو عام انتخابات جلدی بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر ن لیگ پنجاب فتح کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ حکومت اگلے سال تک چلے گی۔ ان بیس نشستوں کے نتائج یہ بھی فیصلہ کریں گے کہ مریم نواز کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟ کیا وہ ن لیگ کیلئے اس دشوار ماحول میں بھی الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں؟ کیا مستقبل قریب میں مسلم لیگ ن کی صدارت مریم نواز کے سپردکی جائے گی یا پھر ناکامی کی صورت میں ان کو پارٹی کی صفوں میں پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔ ان بیس نشستوں کے انتخاب سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ عمران خان کا بیرونی سازش والا بیانیہ کس حد تک عوام کے ذہنوں میں سرایت کر گیا ہے؟ عمران خان جو الزامات الیکشن کمیشن ، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر لگا رہے ہیں ان کو عوام نے کس حد تک قبول کیا ہے؟ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد بھی کیا لوگ اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو آئینی اور جمہوری طریقے سے گرانا ایک امریکی سازش تھی؟ یا پھر لوگ عمران خان کی الزامات کی سیاست کو رد کر چکے ہیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
اب جلسوں جلوسوں کا کھیل ختم ہو ا، نعرے لگانے کا وقت بیت چکا ۔ اب ریلیاں نکالنے اور سیاسی گٹھ جوڑ کی مہلت نہیں رہی۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ اب وہ فیصلہ کریں گے کہ پنجاب میں کون فرماں روا ہو گا۔ وفاق کی حکومت کتنی دیر چلے گی ، انتخابات کب ہوں گے اور کس جماعت کا بیانیہ کتنا پر اثر ہے۔ یہ فیصلہ آج ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے ، الیکشن میں انگوٹھے لگانے کے بعدجن کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔
یہ الیکشن ہر لحاظ سے ن لیگ اور پی ٹی آئی کیلئے مشکل الیکشن ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پی ٹی آئی بغیر بیساکھیوں کے الیکشن لڑ رہی ہے۔ اب نہ آر ٹی ایس کی سہولت موجود ہے نہ کوئی اور سہارا میسر ہے ۔اب پہلی دفعہ اپنے زور بازو پرخان صاحب میدان میں اترے ہیں اب دیکھیں کہ عوام کو کس حد تک اپنے بیانیے کی طاقت سے اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دوسری جانب ن لیگ کیلئے یہ الیکشن اس لئے مشکل ہے کہ ابھی حکومت میں آئےاسے تین ماہ بھی نہیں ہوئے کہ یار لوگوں نے کارکردگی پر سوال اٹھانا شروع کر دیئے ، آئی ایم ایف کے گزشتہ معاہدے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا ۔ عوام پہلے ہی مصائب کا شکار تھے ،اس عالم میں بڑھتی قیمتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس سے بھی بڑی دشواری یہ ہوئی کہ ن لیگ کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے حق میں انتخابی مہم چلانا پڑ رہی ہے۔ ان کے اپنے لوگ ان سے ناراض ہیں۔ ایک اور دشواری یہ رہی کہ نواز شریف وطن سے باہر ہیں اس لئے وہ اس انتخابی مہم کا حصہ نہیں بن سکے۔ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ ہیں اس لئے وہ انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکے۔ شہباز شریف وزیر اعظم ہیں اس لئے وہ جلسوں سے خطاب نہیں کر سکے۔ پوری انتخابی مہم کا بوجھ مریم نواز پر تھا ۔ ووٹ ڈلوانے والے پارٹی میں کچھ زیادہ لوگ نہیں ہیں۔ ان کی یہ پہلی اتنی بڑی انتخابی مہم تھی ۔ مہنگائی کے اس عالم میں عوام کے پاس جانا آسان نہیں تھا ۔ عمران خان کے غداری والے بیانیے کے بعد جلسے کرنا آسان نہیں تھا۔ اسکے باوجود انہوںنے بہت بڑے بڑے جلسے کئے ،انتخاب کا نتیجہ کیا ہو گا ؟ کس کا بیانیےچلے گا اور کس کا بیانیہ پٹے گا ؟ اس سب کا فیصلہ آج شام تک ہو جائے گا۔
ایک بات البتہ وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پنجاب کے لوگوں کی سرشت میں’’وفا‘‘ ہے۔ ہم نے ہمیشہ دیکھا کہ کسی آمر کا دور ہو یا کسی ہائی برڈ نظام کی ابتداء ہو پنجاب نے جب بھی موقع ملا نواز شریف سے’’وفا‘‘ کا ثبوت دیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جب نواز شریف وطن سے باہر ہوںپنجاب کے لوگ اس بیٹی سے وفا نہ کریں۔ ایسا ممکن نہیں کیونکہ پنجاب کے لوگوں کے خمیر میں بے وفائی نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)