چند روز پہلے جماعت اسلامی پاکستان کا کرپشن فری پاکستان ٹرین مارچ اختتام پذیر ہواہے۔بلاشبہ یہ ایک تاریخی ٹرین مارچ تھا کہ جس کا آغاز ٹھنڈی ہوائوں والے ماہ مارچ میں نہیں مئی کے اس مہینہ میں ہوا جس کے بارے میں اسماعیل میرٹھی نے کہاتھا:مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ… بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ۔جناب سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان نے واضح کیا کہ جماعت اسلامی کے اس ٹرین مارچ کا مقصد ملک کے طول و عرض میں کرپشن کے خلاف ایک ایسی تحریک اٹھاناہے کہ جس سے ایوان شاہی کے دروبام ہل جائیں۔ کرپشن ایک طعنہ بن جائے اور پاکستان کو ہمیشہ کےلئے کرپشن سے پاک کر دیا جائے۔ تینوں دن ٹرینوں میں سفر کرتے ہوئے ہزاروں عام مسافر بھی کرپشن کے خلاف مقاصد سے آشنا ہوئے اور ان کے ذریعے یہ پیغام قریہ قریہ گائوں گائوں پھیلا۔ایک محتاط انداز کے مطابق اس دوران کم و بیش پانچ لاکھ افراد تک کرپشن فری پاکستان کا پیغام براہ راست پہنچا۔ پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پہنچنے والے پیغامات کی تفصیل الگ ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پانامہ پیپرزلیکس کے معاملات پارلیمنٹ کی غلام گردشوں اور روایتی سیاست دانوں کی سیاسی پہیلیوںاور کہہ مکرنیوں میں فراموش یا کم از کم سرد ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ سراج الحق کی قیادت میں جماعت اسلامی نے پاکستان کے عوام کو ایک ولولہ ٔ تازہ دیا اب لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ ہمارے مسائل، غربت، مفلوک الحالی، قرضوں کی معیشت، بدامنی اور دہشتگردی کا اصل سبب بارہ ارب روپے روزانہ کے حساب سے ہونے والی کرپشن ہے۔ پاکستان کی قومی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تحریکیں ہوں یا مذہبی،جماعت اسلامی ہمیشہ سرگرم عمل ہوتی ہے۔ مطالبہ اسلامی دستور مہم ہو یا شہری حقوق کی بحالی کی تحریک 1953ء کی تحریک ختم نبوت ؐ ہو یا 1954ء۔ 1956ء 1973ء کی دستوری مہمات۔ 1974ء کی تحریک ختم نبوت ہو، دور آمریت ہو یا انتخابی دھاندلی اور کرپشن کے خلاف مہمات، جماعت اسلامی کی عوامی و قومی تحریکوں میں ایک شاندار تاریخ ہے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ کا ایک روشن باب یہ ہے کہ وطن کو لہو کی ضرورت پڑی، سب سے پہلے ہماری گردن کٹی کے مصداق جماعت اسلامی کے کارکنان نے بھارت کیخلاف جنگوں، جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر میں لہو کے نذرانے دئیے ہیں جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنایا جارہا تھا، اس وقت یہ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے کارکنان ہی تھے کہ جنہوں نے ملک کو متحد رکھنے اور متحدہ پاکستان کو بچانے کی آخری جنگ لڑی تھی۔ یہ ایک طویل داستان ہے لیکن صرف عنوانات کے مطابق مشرقی پاکستان میں فوجی حکومت نے شیخ مجیب الرحمن کو 1970ء کے انتخابات میں فری ہینڈ دیاتھا اس کے مقابلے میں کوئی کھڑاہونے اور انتخابی مہم چلانے کا حوصلہ نہیں کر رہاتھا۔ یہ جماعت اسلامی تھی کہ جس نے ہر سیٹ پر مقابلہ کیا اور یہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی جرأت مندانہ قیادت تھی کہ جس نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے ان کے جلسے پر حملہ کر کے پلٹن میدان ڈھاکہ میں متعدد کارکنان کو شہید کیا۔ جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں کلین سوئپ کیا تو یہ جماعت اسلامی تھی کہ جس نے اس کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی مجلس شوریٰ نے اقتدار شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ یحییٰ خان کی طرف سے قومی اسمبلی کے اجلاس ڈھاکہ کو ملتوی کرنے اور بھٹو کی طرف سے اجلاس ڈھاکہ میں شمولیت کرنے والے مغربی پاکستانی ممبران اسمبلی کی ٹانگیں توڑنے کے اعلانات کی مذمت کی، چٹاگانگ میں پاکستانی فوجیوں اور صوبہ بھر میں غیر بنگالیوں کے قتل عام نے صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا۔ آج کے متعصب تجزیہ نگار اس انتہائی بے دردی سے بہائے ہوئے بے گناہ لہو کے معاملات سے مکمل چشم پوشی کر کے تاریخی بد دیانتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔بھارت نے مکتی باہنی بنائی۔ مغربی پاکستان سے راہ فرار اختیار کر کے کلکتہ پہنچنے والے کرنل شریف الحق ویلم کہ جس نے مکتی باہنی بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور جسے بنگلہ دیش کا سب سے بڑا فوجی اعزاز بیئراتم ملا، اس نے اب اپنی کتاب The Untold Facts میں لکھاہے کہ بھارتی جنرل اوبان سنگھ نے مکتی باہنی بنائی تھی۔ مکتی باہنی میں بھارتی فوج کے حاضر سروس فوجی بھی شامل تھے اس کا اعتراف بھارتی بریگیڈئر رندھیر سنگھ نے اپنی کتاب ’’سولجرنگ ود ڈگنٹی‘‘ میں کیاہے۔
البدر اور الشمس تو اس وقت بنائی گئی کہ جب پاکستانی فوج کو گھیر گھیر کر مارا جارہاتھا وہ راستوں سے واقف تھے نہ زبان سے تو اس موقع پر البدر اور الشمس کے جوانوں نے فوج کی مدد اور رہنمائی کی اور اس بارے میں قومی و ملی جذبے کی شاندار روایات قائم کیں تفصیلات سلیم منصور خالد کی کتاب ’’البدر‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
بنگالیوں کے قتل عام کا افسانہ ایک تاریخی بددیانتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی کل افرادی قوت 25 ہزار کی تھی جبکہ مکتی باہنی، مجیب باہنی کی تعداد ایک لاکھ اور بعد میں بھارتی فوج کے باقاعدہ حملے کے بعد کل پانچ لاکھ ملٹری و پیرا ملٹری فورسز۔ ایسے میں 25 ہزار پاکستانی فوجی کیسے ہزاروں افراد کا قتل عام کر سکتے تھے۔ البدر الشمس کے کارکنان دن رات سخت مشکلات میں بقائے وطن اور حفاظت وطن کے تقاضے پورے کر رہے تھے۔ انہوں نے خود اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھی تھیں ان کے تو گھروں پر مکتی باہنی والے حملہ کر رہے تھے۔ ایسے میں ان کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ایک واقعہ بھی نہیں ہوا۔ کلکتہ سے تعلق رکھنے والی ہندو پروفیسر شرمیلا بوس کی کتاب گواہ ہے کہ قتل عام کے سارے قصے جھوٹے تھے۔ اصل قتل عام تو مغربی پاکستانیوں، بہاریوں اور محب وطن بنگالیوں کا ہوا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سجاد حسین کی کتاب’’شکست آرزو‘‘اس پر گواہ ہے۔