• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے ۔اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے دوپہر کے کھانے پر کھل کر باتیں کرنے کا دن۔ ان کے پاس بھی بہت سے سوالات ہوتے ہیں۔ ہفتے بھر میں بہت سے حادثات، واقعات ان کے سامنے گزرتے ہیں۔ سوشل میڈیا بہت کچھ دکھارہا ہوتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا سے سیاسی بیانات اور محاذ آرائی کا سیل رواں رہتا ہے۔ اخبارات میں طرح طرح کی خبریں۔ تصاویر دیکھنے میں آتی ہیں۔ بزرگ اخبار میں کالم بہآواز بلند پڑھتے ہیں۔ ہفتے بھر کی معلومات کا یہ راشن اتوار کو تبادلۂ خیال کیلئے بڑی مصروفیات عنایت کردیتا ہے۔

ولادی میر لینن یاد آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ بعض اوقات کئی دہائیاں ایسی گزرتی ہیں کہ کچھ بھی خاص واقع نہیں ہوتا۔ لیکن بعض ہفتے ایسے آتے ہیں جن میں دہائیاں واقع ہونے لگتی ہیں۔‘‘ اپریل سے ہم ایسے ہی ہفتے دیکھ رہے ہیں۔ ہر قسم کے منفی مثبت واقعات رُونماہورہے ہیں۔ ایسے ایسے اقدامات جن کا آپ تصوّر بھی نہیں کرتے۔ انہونیاں۔ بالکل خلاف توقع کارروائیاں۔ کبھی سپریم کورٹ توجہ کا مرکز۔ کبھی لاہور ہائی کورٹ اور کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ۔ پھر بارشیں تباہی مچارہی ہیں۔ بلوچستان میں بہت المیے برپا ہوئے ہیں۔ قیمتی انسانی جانیں آبی ریلوں کی نذر ہورہی ہیں۔ ہر صوبے میں 18ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں خود مختار حکومتیں قائم ہیں۔ اسمبلیاں فعال ہیں مگر بارشوں سے ممکنہ بربادی کو کوئی نہیں روک سکا۔ محکمہ موسمیات بہت پہلے سے خبردار کررہا تھا۔ ضروری اقدامات قبل از وقت اور بروقت کئے جاسکتے تھے۔ مگر سیاسی محاذ آرائی زوروں پر ہے، الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا اسے 24گھنٹے مزید ہوا دیتا ہے۔ سب اسی میں الجھے رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر پنجاب کےضمنی انتخابات سے اگلے دن حکومتی اتحادی جماعتوں کے ایک اجلاس کی وڈیو وائرل ہورہی ہے۔ جس میں نہ جانے کس بات پر وزیر اعظم شہباز شریف بے ساختہ قہقہہ بھی بلند کررہے ہیں۔ اس کے بعد اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ بھی مار رہے ہیں ۔سابق صدر مملکت جناب آصف علی زرداری بھی کھل کر ہنس رہے ہیں اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ جمعیت علمائے اسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن کے ہونٹوں پر بھی ہنسی ہے۔ مختلف پارٹیوں کے رہنما بھی محفل میں موجود ہیں۔ لیکن یہ ہنسی کی محرّک بات شاید سب تک نہیں پہنچی ہے۔ اس لئے ان کے چہروں پر معمول کی سنجیدگی ہے۔ بعض کے چہرے سپاٹ ہیں۔

سوشل میڈیا مختلف سرخیوں، عنوانات اور توجیہات کے ساتھ یہ وڈیو بار بار دکھارہاہے۔ ٹی وی چینلوں کی بھی عجیب عادت ہے کہ وہ تازہ خبروں میں باسی وڈیوز دکھاتے ہیں۔ ٹاک شوز میںبھی دہراتے ہیں۔ ہمارے بچے بھی پوچھ رہے ہیں۔ دوست احباب بھی کہ اس سہ فریقی قہقہے کی وجہ کونسی خوشخبری ہے۔ یا یہ مستقبل کا کوئی کارنامہ ہے۔ جو ابھی ہونا ہے۔

ایک روز پہلے تو اس اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی کو سب سے بڑے صوبے میں انتخابی شکست ہوئی ہے۔ اور واہگہ سے گوادر تک عام پاکستانیوں نے مسلم لیگ(ن) کی طرف سے اس شکست کو بخوشی تسلیم کرتے دیکھا تو بہت مطمئن ہوئے کہ ہمارے ہاں یہ خوشگوار روایت بھی قائم ہورہی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب حمزہ شہباز نے بھی بہت اچھا بیان دیا۔ مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز صاحبہ نے بھی با وقار لہجے میں اپنے مخالف کی کامیابی تسلیم کی۔ سب سے پہلے تو مسلم لیگ (ن) کے ترجمان اور پنجاب کے مستعفی وزیر قانون ملک احمد خان نے تحریک انصاف کی اس فتح پر باقاعدہ بیان جاری کیا۔کیا یہ قہقہہ اس انتخابی شکست پر تھا یا بعد از شکست کے واقعات پر۔

پاکستانی کرنسی ہمارا کمزور نحیف روپیہ امریکی ڈالر کے سامنے عجز اور پستی کا شکار ہورہا ہے۔ اس قہقہے کے وقت پاکستانی روپیہ کافی عزت گنوا چکا تھا۔ مارکیٹ میں ایک ڈالر 230روپے کا مل رہا تھا۔ جبکہ آس پاس کے ملکوں کی کرنسیاں اپنے اپنے مقام پر کھڑی تھیں۔جب اپنے ملک کی کرنسی ایسی حالت میں ہو تو ملک کا چیف ایگزیکٹو تو ایسے کھل کر قہقہہ نہیں لگا سکتا۔18جولائی کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی بھی ایسی قابل فخر کارکردگی نہیں تھی۔ وہاں بھی مندی کا رجحان ہی غالب تھا۔ یہ صورت حال بھی موجودہ وزیر اعظم سابق صدر مملکت، سابق چیئرمین کشمیر کمیٹی کے لئے قہقہے کا محرّک نہیں بن سکتی تھی۔

آئی ایم ایف سے ابھی موعودہ ایک ارب ڈالر پاکستان کی جیب میں منتقل نہیں ہوئے تھے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے اب بھی دبائو تھا کہ بجلی کے نرخ مزید بڑھائے جائیں۔ عوام بجلی کے بلوں میں پہلے اضافے سے ہی بلبلارہے تھے۔ ہمارے حکمران اتنے سفاک اور کٹھورتو نہیں ہیں کہ وہ عوام کی مشکلات پر اس طرح کھل کر ہنسیں۔ملک بھر میں بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی تھی۔ 18جولائی کو بھی مختلف علاقوں میں قیمتی جانیں ضائع ہورہی تھیں۔ مکانات گر رہے تھے۔ سڑکیں تالاب بنی ہوئی تھیں۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر۔ کے پی کے۔ پنجاب۔ سندھ۔ بلوچستان سب جگہ باران رحمت زحمت بنی ہوئی تھی۔ لمحہ بہ لمحہ خبریں آرہی تھیں۔ ہمارے وزیر اعظم۔ سابق صدر مملکت اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ بھی سیلابوں کی تباہ کاری سے بے خبر تو نہیں ہوسکتے۔ سیل آب کی وڈیوز اتنی پریشان کن ہیں کہ ہاتھ بے ساختہ آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں کہ اے رحیم و کریم، ابر کرم کو ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ہمارے لئے امتحان نہ بنا۔واہگہ سے گوادر تک بارشیں بھی اس قہقہے کا موجب نہیں بن سکتی تھیں۔

ملک میں محاذ آرائی زوروں پر ہے۔ عمران خان نے اپنا محاذ گرم کر رکھا ہے۔ وہ ابھی تک آزاد ہیں اور ٹھیک ٹھیک نشانے لگارہے ہیں۔ انہیں کسی ہزیمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ جو اس سرخوشی کا سر چشمہ بن سکتی۔ہمارے وزیر اعظم بہت سنجیدہ اور متین ہیں۔ بہت وقار سے قدم بڑھاتے ہیں ۔ ملکی معاملات کو تدبر سے سنبھالتے ہیں۔ پھر آخر ایسی کونسی بات تھی جو اس بے ساختہ قہقہے اور انبساط کا باعث بنی۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ افسر شاہی میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اپنے اپنے گناہ یاد آرہے ہیں۔ آقائوں کے حکم پر غیر قانونی کارروائیاں راتوں کی نیند حرام کررہی ہیں۔ حکومت توبدل سکتی ہے۔ اپنی تعیناتی کہیں اور کروائی جاسکتی ہے۔ لیکن ضمیر کی کسک، دماغ کی خلش کا تبادلہ تو نہیں ہوسکتا۔یہ وڈیو کسی عام شخص کی نہیں۔ سرکاری کیمرہ مین کی بنائی ہوئی تھی۔ اسے وزارتِ اطلاعات نے جاری کیا ہوگا۔ متعلقہ میڈیا منیجرز نے جن مقاصد اور اہداف کےلئے اسے عام کیا۔ کیا مطلوبہ نتائج انہیں مل سکے۔ آپ کے علم میں اگر کچھ ہو تو ضرور آگاہ کیجئے۔

تازہ ترین