• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

عزیز قارئین !کہتے ہیں جب گورنمنٹ کالج لاہور کا بوٹنیکل گارڈن تعمیر کیا گیا تھا تو یہ دنیا کا سب سے بڑا بوٹنیکل گارڈن تھا اور اس میں چودہ سو اقسام کے پودے ہوا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس بوٹنیکل گارڈن کا رقبہ اور پودوں کی اقسام دونوں کو بڑھانا چاہئے تھا، مگر ہم نے انگریز کے جانے کے بعد اس بوٹنیکل گارڈن کا رقبہ 14ایکڑ سے صرف سات 7ایکڑ کر دیا اور پودوں کی اقسام بھی 14سو سے کم کرکے 700کر دیں۔ آگے چل کر پتہ نہیں کس حکمراں کو یہ خوبصورت تاریخی باغ پسند آ جائے اور وہ اس کی بھی نیلامی کر دے۔

یہ بڑا خوبصورت محل ہے اورکنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے گرلز ہوسٹل کے سامنے ہے۔ کیا خوبصورت محل ہے۔ میواسپتال کے دو تین ڈاکٹروں نے رتن باغ جو میو اسپتال کی ملکیت تھا اس کو کچی آبادی قرار دے کر لوگوں سے پیسے لے کر وہاں قبضے کرا دیئے تھے۔ آج بھی وہ جگہ موجود ہے کس کس بات کو روکیں گے؎

ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتائیں

کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں

باغ دیوان رتن چند داڑھی والا ،مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایک قابل منشی تھا۔ اس کی لمبی داڑھی کی وجہ سے اسے’’ داڑھی والا‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ دیوان رتن چند کو عمارتیں بنانے کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ اس نے میواسپتال کے موجودہ آئوٹ ڈور کے قریب سات ایکڑ رقبہ پر باغ، ایک خوبصورت کوٹھی اور ایک بہت خوبصورت تالاب بنوایا تھا،یہ تالاب بانسانوں والے بازار میں تھا ،کبھی اس کے بارے میں بھی بتائیں گے۔ باغ رتن چند کے کچھ آثار صرف ایک کوٹھی کی صورت میںموجود ہیں۔ آج سے پچاس برس قبل جب ہم نے یہ کوٹھی اور جگہ دیکھی تو اس کے حالات خراب ہونا شروع ہو چکے تھے۔ یہ بڑاوسیع علاقہ تھا۔یہاں کبھی ٹریبون اخبار کا دفتر تھا جو 1947 میں لاہور سے انبالہ منتقل ہو گیا، پھر وہاں پاکستان ٹائمز، امروز ، لیل و نہار اور ا سپورٹس ٹائمز کے دفاتر بھی رہے اب وہ بھی ختم ہو چکے ہیں۔ اب وہاں ایک نجی یونیورسٹی کا کیمپس ہے۔رتن چند کی کوٹھی میں کبھی ہائوس جاب کرنے والےڈاکٹرز ، رجسٹرار و سینئر رجسٹرار اور میڈیکل آفیسرز ڈاکٹرز رہا کرتے تھے۔ رتن چند کے باغ میں کبھی شیشم، نیم ، پیپل، جامن اور املی کے بے شمار درخت ہوتے تھے مگر ڈاکٹروں کے ایک قبضہ مافیا نے یہاں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔

رتن چند کے اس باغ اور کوٹھی میں ہندوستان کی کئی ریاستوں کے نواب، راجے اور مہاراجے بھی ٹھہرا کرتے تھے ،قادیانیوں نے قادیان سے آ کر اس تاریخی کوٹھی پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ تاریخی کوٹھی ایک تباہ حا ل کھنڈرکی شکل اختیار کر گئی۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم اپنے کالج کے زمانے میں شوق ِآوارگی میں کئی مرتبہ رتن چند باغ جایا کرتے تھے اور اس کوٹھی کودیکھا کرتے تھے۔ میو اسپتال کی کئی تاریخی اور خوبصورت عمارتوں کو اس کے دو میڈیکل سپرنٹنڈنٹوں نے اپنی کمائی کے چکر میں گرا دیا۔ دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہےکہ ہماری تمام حکومتوں اور قدیم اسپتالوں کی انتظامیہ نے پہلے تو 75برس تک گوروں کے بنائے ہوئے کسی بھی قدیم اسپتال کی دیکھ بھال نہ کی، پھر جب وہ عمارتیں مخدوش اور بہت خراب ہو گئیں تو انہیں خطرناک قرار دے کر گرا کر ہر کسی نے اپنی دیہاڑی لگائی، کبھی آپ کو بتائیں گے کہ اس میواسپتال کے اندر کیا کیا تاریخی عمارتیں اور وارڈز تھے۔ ڈیفنس میں ایسے تو کوٹھیاں نہیں بن جاتیں اور ایک بیس گریڈ کے افسر کی تنخواہ کیا ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے امریکہ اور ولایت میں پڑھا ئے۔؟

لیں جناب اس ہفتے ہم ایک دفعہ پھر فری میسن ہال دیکھنے چلے گئے جس کو لوگ کبھی جادوگھر کہتے تھے اس عمارت میں اتنی بھول بھلیاں ہیں کہ آپ عمارت کے اندر سے باہر نہیں آ سکتے۔ ہم خود طالب علمی کے زمانے میں اس میں راستہ بھول گئے تھے، کبھی کسی سیڑھی سے اوپر تو کبھی بیسمنٹ میں چلے جاتے پھر ہمیں دو افرادنے عمارت سے باہر پہنچایا تھا۔ ویسے تو ہم نے اس خوبصورت تاریخی فن تعمیر کی عمارت کو پہلی مرتبہ 1973میں اندر سے دیکھا تھا جب اس کے سارے فرش انتہائی خوبصورت قیمتی لکڑی کے تھے اور بڑی اچھی حالت میں تھے، باہر سے یہ عمارت تو ہم اپنے اسکول کے زمانے سے دیکھ رہے تھے کیونکہ چڑیا گھر اکثر جاتے تھے پھر وہاں سےبوٹنیکل گارڈن سے ہوتے ہوئے لارنس گارڈن کی پہاڑی پر چلے جاتے تھے۔ لارنس گارڈن میں بھی ایک بہت بڑے بزرگ کا مزار مبارک ہے۔

فری میسن ہال، لاہور کی قدیم عمارتوں میں سب سے خوبصورت عمارت ہے۔ آج بھی پرانی عمارات میں اس کی خوبصورتی قابل تعریف ہے۔ اس تاریخی عمارت کے کنٹرولرآج بھی فری میسن ہال کی دیکھ بھال اور اسے ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ فری میسن ہال دراصل ایک تحریک کا نام ہے اور لاہور کا فری میسن ہال کبھی ایشیا کی اس تحریک کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے۔

عزیز قارئین ! آپ کی دلچسپی کے لئے بتاتے چلیں کہ فری میسن تحریک کا پہلا دفتر لاہور میں1859میں لاج روڈ پر قائم کیا گیا تھا۔ جہاں اب لیڈی میکلیگن ہائی ا سکول ہے۔

(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین