• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملالہ سے نفرت کرنے والوں کے دلائل...محمد بلال غوری

ایک کمسن بچی جو بندوق بردار طالبان کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن گئی‘ اسے پوری دنیا میں پذیرائی مل رہی ہے۔ اقوام عالم اس کی جرأت و بہادری پر نچھاور ہوئے جاتی ہیں‘ اعزازات کی برسات ہو رہی ہے‘ پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہو رہا ہے اور یہ بیمار ذہنیت کا حامل معاشرہ محبتیں سمیٹتی اس بچی سے نفرت کرتا ہے؟ تف ہے ایسی گھٹیا سوچ اور پست خیالات پر۔ یہ تو محض اتفاق تھا کہ اسے نوبل امن ایوارڈ نہیں ملا ورنہ تخریبی سوچ کی حامل پاکستانی قوم اسے بھی یہودی سازش قرار دے ڈالتی اور ملالہ مزید متنازع ہو جاتی۔ ان جنونی انتہا پسندوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ کیا کیا؟ یہ ہے وہ چارج شیٹ جو ان دنوں ہمارے عالی مرتبت دانشوروں کے ذریعے ہمارے خلاف پیش کی جا رہی ہے۔ نہ عدالت کا تکلف‘ نہ وکالت کا تردود‘ شہادتوں اور گواہوں کی نوبت آتی ہے نہ کٹہرے میں کھڑے ملزم کو صفائی کا موقع ملتا ہے بس فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے کہ یہ سب ذہنی مریض ہیں۔ یہ لوگ نہایت سادگی اور معصومیت سے سوال کرتے ہیں‘ اس نہتی لڑکی نے کیا بگاڑا ہے اس قوم کا؟ کیا کتاب اور قلم کی بات کرنا جرم ہے؟ جو اب بہت سیدھا اور سادہ ہے‘ جب تک ملالہ جنگجوؤں کے خلاف آواز بلند کر رہی تھی‘ پورا پاکستان اس کی جرأت و بہادری کا معترف تھا۔ یہاں تک کہ ملالہ پر حملہ ہو گیا تو مجھے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جس نے اس بزدلانہ کارروائی کی بھرپور مذمت نہ کی ہو‘ پورے ملک میں اس کی صحت یابی کے لئے دعائیں کی جا رہی تھیں لیکن جونہی ملالہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا حصہ بنی‘ یہ محبت نفرت میں بدل گئی۔ آج اس کی جھولی میں نہ جانے کتنے ایوارڈ ہیں لیکن اپنے ہم وطنوں کا پیار وہ گنوا چکی۔ اس لئے کہ بعض اعزاز اور ایوارڈ عزت بڑھانے کے بجائے ساکھ گنوانے کا باعث بن جاتے ہیں۔ مجھے خود ذاتی طور پر اس بات کا عملی تجربہ نہ ہوتا تو کبھی نہ سمجھ پاتا۔ 2010ء میں اے پی این ایس نے مجھے بہترین اردوکالم نگار کا ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔ یقیناً یہ میری خوش قسمتی تھی لیکن بدقسمتی سے جس تقریب میں یہ ایوارڈ دیا جانا تھا اس کے مہمان خصوصی صدر مملکت آصف علی زرداری تھے۔ میں نے یہ تصویر فیس بک پر اپ لوڈ کی تو قارئین نے تنقید کی بوچھاڑ کر دی۔ ایک پل میں میری ساکھ خراب ہو گئی اور یہ ایوارڈ میرے لئے رحمت کے بجائے زحمت بن گیا۔ جس دن ملالہ کو یورپی یونین کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’سخاروف ہیومن رائٹس ایوارڈ‘‘ ملا مجھے یوں لگا جیسے ملالہ کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا ہے کیا آپ کو معلوم ہے یہ آندرے سخاروف کون تھا جس کے نام پر یورپی یونین انسانی حقوق کا ایوارڈ دیتی ہے؟ آندرے سخاروف روسی ماہر طبیعات تھا جسے روس کے ایٹمی پروگرام کا بانی کہا جا سکتا ہے اچانک سخاروف نے یوٹرن لیا اور روس کے ایٹمی ہتھیاروں کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دے دیا ۔ جب اس نے اپنی قوم‘ اپنی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو اسے بھی مغرب کی ڈارلنگ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ یکایک اعزازات اور نوازشات کی برسات ہونے لگی یہاں تک کہ 1975ء میں امن کا نوبل انعام بھی اس کے قدموں میں آ گرا۔ یورپی یونین نے اس کی خدمات کے اعتراف میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے ایوارڈ ’’سخاروف‘‘ کا آغاز کیا۔
1935ء میں جرمن صحافی CarlVon Dssietzky نے ہٹلر کی مخالفت کی تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور نوبل ایوارڈ پیش کیا گیا۔ ایران کی شیریں عبادی اور چین کے لیئو شاؤ بو کو سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر محض اس لئے نوبل انعام دیا گیا کہ انہوں نے اپنوں سے بے وفائی کی۔ نوبل پیس ایوارڈ کے لئے ابڈورڈ سنوڈن اور وکی لیکس کے بانی جیولین اسانج بھی نامزد تھے مگر مجھے سو فیصد یقین تھا کہ ان ’’باغیوں‘‘ کو نہیں نوازا جائے گا کیونکہ ان گھرکے بھیدیوں نے خود اپنی لنکا ڈھائی‘ وہ ہمارے ہیرو تو ہو سکتے ہیں مگر ان کے لئے زیرو ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ چند صاحب حیثیت مسلمان روس کی نقالی کرتے ہوئے نوبل انعام کے متوازی کسی عالمی ایوارڈ کا سنگ بنیاد رکھیں اور ہر سال مغرب کی ’’ملالاؤں‘‘ اور ’’آفریدیوں‘‘ کو اعزازات دے کر پوچھا جائے کہ تمہیں خوشی کیوں نہیں ہوتی؟ تم جلتے کیوں ہو اپنے شہریوں کی پذیرائی پر؟
ناروے کی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اس سلیکشن کمیٹی کے ارکان منتخب کرتے ہیں جو نوبل انعام جیتنے والوں کا حتمی اعلان کرتی ہے تو ’’جسے پیا چاہے وہی سہاگن‘‘ کی سی صورتحال کیوں نہ ہو۔ یہی نوبل ایوارڈ ہے جو وار کریمنلز کو دیا گیا تین اسرائیلی وزرائے اعظم بینجمن نین یاہو‘ تہزاک رابن اور شمعون پریز انسانی حقوق کی پاسداری پر اس ایوارڈ کے مستحق ٹھہرے۔ ہنری کیسنجر جیسے جنونی شخص کو امن کا پرچارک کہہ کر نوبل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وڈ رولسن کو پہلی جنگ عظیم میں انسانیت کے بے دریغ قتل پر اس اعزاز کا حقدار سمجھا گیا۔ تھیوڈر روز ویلٹ کو پسن امریکہ جنگ اور فلپائن میں نسل کشی پر نوبل پیس ایوارڈ دیا گیا۔ جمی کارٹر کو ارجنٹائن میں ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے قتل عام کرانے پر نوبل امن انعام دیا گیا۔ اوباما کو صدر بنے چند دن ہی ہوئے تھے اور اس نے عراق‘ افغانستان‘ لیبیا اور شام میں بدامنی کی آگ مزید بھڑکانے کی محض نیت کی تھی کہ اسے ثواب دارین کا حقدار قرار دیتے ہوئے نوبل ایوارڈ دے دیا گیا۔ الگور عراق پر حملے کے سب سے بڑے پرچارک تھے شاید اس لئے نوبل پیس ایوارڈ کے میرٹ پر پورا اترے۔ کوفی اعنان اور البرادی اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے اپنے فرائض میں پہلو اور انسانیت کے قتل عام پر اغماض برتنے کے مرتکب ہوئے اس لئے خاموشی کے عوض انہیں نوبل انعام دیا گیا۔ اگر نوبل انعام کا واقعی کوئی میرٹ ہوتا تو یہ فلسفہ عدم تشدد کے بانی موہن داس کرم چند گاندھی کو ملتا‘ قائداعظم کو اس ایوارڈ کا حقدار سمجھا جاتا کہ انہوں نے جنگ کئے بغیر پرامن جدوجہد کے ذریعے یہ ملک حاصل کیا۔ انسانیت کی خدمت میرٹ پر ہوتی تو عبدالستار ایدھی نامزد ہوتے طالبان کے خلاف مزاحمت کا معیار ہوتا ‘ جرأت و بہادری کے پیمانے سے انتخاب ہوتا تو اے این پی کے رہنما افضل خان لالہ کے چرچے ہوتے جو گولیوں کی سنسناہٹ اور عبوں کی گھن گرج سے خوفزدہ نہ ہوئے اور اپناگھر چھوڑ کر سوات سے نہیں بھاگے۔
لگے ہاتھوں اس الزام کی حقیقت بھی مترشح کر دوں کہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ ناانصافی کی حقیقت کیا ہے وہ ایک محب وطن پاکستانی اور قابل قدر سائنسدان تھے لہٰذا حکومت پاکستان نے انہیں 1960ء میں سائنس و ٹیکنالوجی کا مشیر مقرر کیا۔ 1975ء میں ملک چھوڑتے وقت انہوں نے خود استعفیٰ دیا اس عہدے سے۔ انہیں پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’’نشان پاکستان‘‘ دیا گیا ۔ سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین ہوئی۔ جی سی یونیورسٹی میں ’’عبدالسلام چیئر‘‘ سمیت کئی ادارے ان سے منسوب کئے گئے۔ یہ پذیرائی نہیں تو کیا ہے؟ کیا ان کو ڈاکٹر عبدالقدیر یا ثمر مبارک مند سے کم عہدے اور ایوارڈ دیئے گئے؟ ہاں جب آپ تمام تر پذیرائی کے باوجود جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں تو دلوں کے نازک آبگینوں کو ٹھیس ضرور پہنچتی ہے۔ جو دانشور کل تک متعجب ہوتے تھے کہ لوگ امریکہ سے اس قدر نفرت کیوں کرتے ہیں‘ انہیں آج حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی ایک نہتی ملالہ سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ اس لئے کہ ملالہ تمام پذیرائی کے باوجود قومی جگ ہنسائی اور رسوائی کا باعث بن رہی ہے۔
تازہ ترین