• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد سبطین خان کا تعلق میانوالی کے قصبے پپلاں سے ہے ۔وہ پٹھانوں کے ایک قبیلے بلچ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ احمد شاہ ابدالی کے زمانے میں یہ خانہ بدوش قبیلہ ڈیرہ اسماعیل خان سے پیلاں آیا اور پھر یہیں آباد ہوگیا۔ ان کے جدِ امجد امیر عبداللہ خان نے قیام پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا ۔انہوں نے 1946ء کا الیکشن مسلم لیگ کی طرف سے لڑا اور جیتے۔سبطین خان اگرچہ سات بار الیکشن لڑے ۔ پانچ مرتبہ کامیاب ہوئے مگرانہیں سب سے زیادہ اہمیت پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے بعد ملی ۔عمران خان نے جب پنجاب کا وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کو بنایا تو اس وقت بھی دوسرانام ان کے سامنے سبطین خان کا تھا ۔جب درمیان میں عثمان بزدار کو ہٹانے کیلئے عمران خان پر دبائو بہت زیادہ بڑھا تھاتو اس وقت بھی انہوں نے سبطین خان کو وزیر اعلیٰ بنانے کے متعلق غور کیا تھا۔ جب عثمان بزدار کی حکومت ختم کی گئی تو عمران خان نے پنجاب اسمبلی میں عثمان بزدار کی بجائے سبطین خان کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا۔وزیر اعلی پنجاب پرویز الٰہی کے ساتھ بھی ان کےہمیشہ اچھے مراسم رہے ہیں۔ بقول ہارون الرشید ’’ 2008ء میں شہباز شریف نےسبطین خان کو نون لیگ میں شامل کرنے کی پوری کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ہارون الرشید نے سبطین خان کیلئے یہ شعر بھی لکھا

نقطۂ پرکارِ حق مردِ خدا کا یقین

اور عالم تمام وہم و طلسم و مجاز

اس شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ حق کی پرکار کا نقطہ مرد خدا(سبطین خان ) کا یقین ہے باقی سارا عالم وہم ہے طلسم ہے مجاز ہے یعنی حقیقت نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ۔’’ وہ دھیمے مزاج کے ایک وضع دار آدمی ہیں‘ جو کبھی اپنی گاڑی کا ہوٹر بجاتے یا اس پر قومی پرچم لگائے‘ علاقے میں داخل نہیں ہوئے۔ خلقِ خدا سے گھلنے ملنے والے سبطین خان فرش نشیں اور منکسر ہیں، تعلیم یافتہ اور متحمل مزاج۔ ان کے حامی البتہ شکایت کرتے ہیں کہ دن چڑھے وہ بروئے کار آتے ہیں‘ دس گیارہ بجے۔ ‘‘

یہ تو تھا میانوالی کے پہلے پنجاب اسمبلی کے نئے اسپیکر کا تھوڑا سا تعارف ۔اب آتے ہیںسیاسی صورتحال کی طرف ۔ جو لمحہ بہ لمحہ پی ٹی آئی کے حق میں ہوتی چلی جارہی ہے ۔جس کے سبب اتحادی پارٹیاں پریشان ہیں ۔ خاص طور پر نون لیگ پریشان ہونے کے ساتھ حیران بھی ہے ۔ جاوید لطیف نے ابھی دو تین دن پہلےکہا ہے۔’’پہلے دن سے ہی ہم حکومت میں آنے کے حق میں نہیں تھے، میں کابینہ میں کہتا رہا ہوں اگر بنی گالہ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو کس لئے حکومت میں ہیں، کہتا رہا ہوں اگر بے گناہ نواز شریف کی سزائیں ختم نہیں کراسکتے تو کس لئے حکومت میں ہیں‘‘۔ ابھی کل خودنواز شریف نے کہا ہے ۔’’ وہ پہلے دن سے ہی حکومت میں آنے کے خلاف تھے، حکومت میں رہنا مزید مسائل کا عندیہ دے رہا ہے‘‘۔

دوسری طرف اتحادیوں کو یہ خطرہ بھی لاحق ہوگیا ہے کہ پنجاب کے بعد کہیں وہ مرکز کی حکومت سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔صرف دو ووٹوں کا فرق ہے جو کسی وقت بھی ختم ہوسکتا ہے۔اس خدشے کے پیش نظرا سپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے گیارہ ارکان کے استعفوں کا ٹونی فکیشن جاری کردیا ہے ۔یہ بھی اپنے پائوں پہ خود کلہاڑی مار نے والی بات ہے۔ اب باقی ارکان کسی وقت بھی سپریم کورٹ میں جاکراسی بنیاد پر اپنے استعفوں کا ٹونی فیکشن جاری کراسکتے ہیں ۔مجھے تو یہ بھی لگ رہا ہے کہ حکومتی کارکردگی سے ادارےبھی مطمئن نہیں۔ مسلسل بگڑتی معاشی صورتحال کے سبب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نےامریکہ سے بات کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے کہے کہ پاکستان کو قرضہ دے۔یعنی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے امریکی صدرسے مراسم ہیں ۔وہ بھی اس معاملہ میں ناکام ہوگئے ۔ تب ہی توآرمی چیف کو امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ وینڈی شرمین سے بات کرنا پڑی۔ کوئی ایک ہفتہ پہلے یہی بات وزیر اعظم کے معان خصوصی طارق فاطمی نے بھی وینڈی شرمین سے کی تھی ۔

اتحادی جماعتوں کا لب و لہجہ بھی اداروں کے بارے میں بدلتا جا رہا ہے ۔ سپریم کورٹ کے خلاف تو خیر انہوں نے کھل کر بات کی ہے مگراہل نظر کے خیال میں یہ گفتگو اس پنجابی محاورے کی مثال ہے کہ ’’کہے بیٹی کو اور سنائے بہو کو ‘‘۔ غیر ملکی امداد کے معاملے میںتمام اتحادی پارٹیوں کی ناکامی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ معاملات کوکسی اور طرح دیکھنا ہو گا۔ اگرچہ آرمی چیف نے چین کے سفیر سے بھی ملاقات کی ہے ۔ مجھے توقع ہے کہ وہ جلد روسی سفیر سے بھی ملیں گے مگر یہ طے ہے کہ یہ کام ان کا نہیں ہے۔ یہ بات انہیں بھی معلوم ہے مگر وہ کیا کریں۔ افسوس کہ غیر جانبدار ہونے کے نقصانات مملکت خداداد کو بھگتنے پڑ رہے ہیں ۔سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ان تمام مسائل کا حل صرف انتخابات ہیں۔ شفاف انتخابات۔ یہی بات عمران خان نے بھی کی ہے۔ ڈالر کوڈھائی سو سے واپس سو ڈیڑھ سو روپےتک لانا ابھی تک خواب لگ رہا ہے۔ پٹرول کی قیمت لوگوں کی قوتِ خرید کے مطابق کرناآسان نہیں رہا۔ آنے والی حکومت کو کوئی بہت ہی انقلابی قدم اٹھانے کی ضرورت ہو گی۔ یہ پیش گوئی بھی اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے کہ 2023میں پاکستان میں جمہوریت نہیں ہو گی۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا کچھ ہو مگرجیسے حالات ہیں ایسے ملک نہیں چل سکتا۔

تازہ ترین