بلوچستان کے اکثر علاقوں میں وقفے وقفے سے موسلا دھار بارش کا سلسلہ جاری ہے، ندی نالوں میں طغیانی اور سیلابی ریلوں سے بیشتر رابطہ سڑکیں بہہ گئیں۔
صوبے بھر میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے پیش آنے والے حادثات میں اموات کی تعداد 127 ہو گئی ہے، ساڑھے 13 ہزار مکانات متاثر ہوئے ہیں جبکہ بجلی کے 140 کھمبے گر چکے ہیں۔
کوئٹہ میں انگوروں کے باغات تباہ ہو گئے، ضلع واشک میں سیلابی ریلہ پیاز سے بھری بوریاں بہا کر لے گیا۔
محکمۂ موسمیات نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آج بھی موسلا دھار بارش کی پیش گوئی کر دی۔
کوئٹہ، ژوب، زیارت، موسیٰ خیل، قلعہ عبداللّٰہ، پشین، بارکھان میں آج بادل برس سکتے ہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بلوچستان میں سب سے زیادہ بارش ژوب میں 45 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔
تاریخ رقم کرنے والا مون سون کا چوتھا اسپیل بلوچستان کے جنوب مشرق اور وسطی علاقوں میں تباہ کاریوں کا باعث بن رہا ہے۔
شمال میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قلعہ سیف اللّٰہ کے دور افتادہ علاقے اور بلوچستان کے بلند ترین مقام کان مہتر زئی میں نظامِ زندگی مفلوج ہو گیا۔
پہاڑوں پر زندگی گزارنے والے حالات سے مجبور ہو کر شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔
بلوچستان کو خیبر پختون خوا اور پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ N50 پر واقع صوبے کے بلند ترین صحت افزا مقام کان مہتر زئی پر ریکارڈ توڑ طوفانی بارش ہوئی ہے۔
پاکستان میں ذائقے اور مٹھاس میں شہرت رکھنے والے سیب، خوبانی اور چیری کاشت کرنا کان مہتر زئی کے مکینوں کا واحد ذریعۂ معاش ہے مگر اب کاروبار اور سر کا سایہ بھی ان کے ساتھ نہیں رہا۔
پر فضاء پہاڑوں میں پرسکون زندگی بھی سیلاب کے خطرات نے چھین لی، محفوظ جگہ کی تلاش میں متاثرین نے میدانی علاقوں کی جانب نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
سیلابی ریلہ کئی دیہات میں سب کچھ بہا کر لے گیا، کئی فٹ اونچے سیلابی ریلے آبادی میں داخل ہوئے تو ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی، لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بال بچوں کے ساتھ پہاڑوں پر پناہ لینے لگے۔
بہت سارے لوگ ریلوں میں بہہ گئے، ہرے بھرے میوہ جات کے باغات، فصلیں، پختہ سڑکیں اور قدرتی چشموں کے بجائے اب چاروں طرف صرف سیلابی ریلوں کے آثار دیکھائی دے رہے ہیں۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ برسات میں طوفانی بارشیں، سردیوں میں ہر دوسرے دن برف باری اور سخت ترین سردیاں تو دیکھتے رہے مگر برسات میں قیامت خیز سیلابی ریلے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔
سیلابی ریلوں نے زغلونہ، یعقوب کاریز، شنہ ویالہ، عمر زئی، سرانہ سمیت کئی دیہات میں تباہی مچائی، جس سے 200 سے زائد گھر تباہ ہو گئے، مال مویشی، ٹیوب ویل اور سولر مشینری سیلاب میں بہہ گئی۔
سندھ کے شہر دادو کے کیرتھر کے پہاڑی سلسلوں میں 2 دن کے وقفے کے بعد بارشوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق کاچھو کی 6 یونین کونسلوں کا آج بارہویں روز بھی زمینی رابطہ منقطع ہے، متاثرہ یونین کونسلوں کے 200 سے زائد دیہاتوں کا بھی زمینی رابطہ منقطع ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ متاثرین پیدل یا کندھوں پر موٹر سائیکلیں اٹھا کر لے جانے پر مجبور ہیں، متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی قلت کا سامنا ہے۔
ریسکیو ذرائع نے کہا کہ کاچھو میں پیٹ کے امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں، سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں میں 100 سے زائد بچے گیسٹرو اور ڈائریا میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
ڈاکٹر احمد نصیر سمیجو کا کہنا ہے کہ محکمۂ صحت کی 6 ٹیمیں دادو کے متاثرہ علاقوں میں طبی امداد فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔
دوسری جانب کنٹرول روم کے مطابق دریائے سندھ میں گڈو بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ہے، گڈو بیراج کے مقام پر پانی کی آمد 3 لاکھ 11 ہزار 615 کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے۔
کنٹرول روم نے بتایا ہے کہ گڈو بیراج پر پانی کا اخراج 2 لاکھ 86 ہزار 85 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اُدھر گڈو بیراج کے بچاؤ بندوں پر پانی کا دباؤ بڑھنے لگا، جس کے بعد حکام کی جانب سے کچے کے مکینوں کو ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔