• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیرمعمولی بارشوں نے ملک کے اکثر حصوں میں سیلابی کیفیت پید ا کررکھی ہے لیکن بلوچستان میں تباہ کاریوں کا تناسب دوسرے علاقوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ یہاں بادل ایسے ٹوٹ کر برسے ہیں کہ پچھلے تین عشروں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے ۔ جانی و مالی نقصانات کے اعدادو شمار ہولناک ہیں۔ بلوچستان کے چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی کے مطابق یکم جون سے اب تک بارشوں سے صوبے میں 124 افراد جاں بحق ہوئے اور 10 ہزار مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ سیلاب سے تقریباً 565 کلومیٹر سڑکوں اور 197,930 ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا جبکہ 712 مویشی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔تاہم یہ بات اطمینان بخش ہے کہ سخت سیاسی اور معاشی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے باوجود وزیر اعظم نے بذات خود صوبے کے انتہائی متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا اور امدادی اقدامات کے ضمن میں اہم ہدایات جاری کیں۔وزیراعظم نے بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قلعہ سیف اللہ، ژوب، چمن، لورالائی، لسبیلہ اور دیگر کئی علاقوں میں اس مرتبہ شدید تباہی ہوئی ہے، پچھلے 30 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور بارشیں 100 گنا زیادہ ہوئی ہیں۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وفاقی حکومت بلوچستان میں وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کے ساتھ مل کر بھرپور کام کرے گی۔وزیراعظم کے بقول حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جو لوگ اس دوران جاں بحق ہوئے ہیں ان کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے، اسی طرح جو گھر سیلاب میں تباہ ہوئے ہیں، اس کے لیے 5 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ فصلوں کی تباہی اور دیگر نقصانات کا تعین کرنے کیلئے سروے کرکے صحیح تخمینہ لگایا جائے گا اور بحالی کے عمل میں وفاق صوبوں کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گا۔ وزیر اعظم نے اس امر کا پختہ عزم ظاہر کیا کہ جب تک لوگ اپنے گھروں میں واپس نہیں آتے حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی۔ان کا کہنا تھا کہ انفراسٹرکچر جو تباہ ہوا ہے، اس کا تخمینہ لگانے کی کوشش ہو رہی ہے اور جیسے ہی جائزہ مکمل ہوتا ہے ہم فی الفور چاروں صوبوں میں حکومتوں کے ساتھ مل کر ایک لائحہ عمل بنائیں گے اور فوری طور پر تعمیراتی اور بحالی کا کام شروع کیاجائے گا۔ وزیر اعظم کے اس اظہار خیال سے واضح ہے کہ ان کی ذہن میں تباہ شدہ علاقوں کی بحالی کا پورا نقشہ موجود ہے اور حالات سازگار ہوتے ہی اس کے مطابق کام شروع کردیا جائے گا۔تاہم ضروری ہے کہ فوری نوعیت کی امدادی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بارش اور سیلاب جیسے مسائل سے مستقل بنیادوں پر نمٹنے کے منصوبے بھی شروع کیے جائیں۔ چھوٹے ڈیم اور جھیلیں بناکرتباہی کا سبب بننے والے بارش کے پانی کو محفوظ کیا جائے ۔ مکانات کی مضبوطی کا معیار بہتر بنایا جائے ۔ نگرانی و احتساب کے کڑے بندوبست اور مکمل شفافیت کے ذریعے امدادی فنڈز میں کرپشن کے امکانات کی تمام راہیں بند کی جائیں۔ اختیارات اور رقوم کے صوابدیدی استعمال کی کسی کو بھی اجازت نہ ہواور سارے کام مقررہ قواعد و ضوبط کی پابندی کرتے ہوئے انجام دیے جائیں۔ان تمام وجوہات کا ازالہ کیا جائے جن کے باعث بیش بہا معدنی دولت سے مالا مال بلوچستان پون صدی بعد بھی ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے ۔ زندگی کی ناگزیر بنیادی سہولتوں سے بھی محروم مقامی آبادی کیلئے صوبے کے وسائل سے سب سے پہلے مستفید ہونا یقینی بنایا جائے۔ ملک کی پوری سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کے اتفاق رائے سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بلوچستان ہی نہیں ملک بھر کے لیے مستقل بنیادوں پر بنائے جائیں جن پر عمل درآمد میں حکومتوں کی تبدیلی سے کوئی فرق واقع نہ ہو کیونکہ حقیقی قومی ترقی ان امور کے التزام کے بغیر ممکن نہیں۔

تازہ ترین