• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

75 سال گزرنے کے بعد بھی پاکستانی سماج کا اقتصادی ، سماجی اور سیاسی بحران وقت گزرنے کے ساتھ گمبھیر سے گمبھیر ترہوتاچلا جا رہا ہے۔ ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ جو زبان زد عام ہےیہ کہ ’’آخر پاکستان میں جمہوریت کیوں نہ پنپ پائی؟‘‘۔جب کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش جو ہماری ہی طرح کے ثقافتی اور تاریخی ادوار کے امین ہیں ، وہاں جمہوریت اور سیاست نہ صرف تواتر سے کام کر رہی ہے بلکہ جمہوری اقدار نے سماج میں اتنی مضبوط جڑیں بنالی ہیں کہ وہاں آمریت سویلین سپرمیسی اور آئین کی حرمت کے سامنے کبھی سر نہ اٹھا پائی۔

دنیا بھر کی جمہوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انہی ممالک میں سیاست اور جمہوریت استحکام حاصل کرتی ہے جہاں اس سماج کی ساری قوتیں یکجا طور پر ارتقا پذیر ہوں اور آئین کی پاسداری کو اپنا نصب العین بنا لیں۔ دوسری طرف جب ہم آمرانہ طرزِ عمل کی تاریخ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آمروں نے آمریت کے تسلسل اور اس کو اخلاقی جواز مہیا کرنے کے لیے کبھی تشدد ، کبھی مخصوص نظریات اور کبھی دونوں کو ملا کر اپنے آمرانہ عزائم کو آگے بڑھایا ۔ یوں پاکستانی سیاست میں بھی جمہوریت کی ارتقا پذیری کو آمرانہ ادوار میں شدید دھچکے لگے۔ایوب خان، یحییٰ خان ، ضیا الحق اور پرویز مشرف تشدد اور مخصوص نظریاتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے سماج کی جڑوں میں بنیادی نظریاتی تبدیلیاں لائے۔دانش وروں کے ایسے گروہ پیداکئے گئے جو ان کے ذاتی نظریات کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے سما ج تک پھیلاتے تھے۔ یاد رہے کہ روایتی سماج میں ارتقائی تبدیلی کا عمل بہت سست ہوتا ہے اور بعض سماجوں میں قدریں بدلنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں لیکن آمریت کے ذریعے جیسا کہ پاکستان میں دیکھا گیا کہ تشدد اور نظریے کے امتزاج سے تبدیلی کا عمل بہت کم وقت میں مکمل کیا گیا۔ ہٹلر اور مسولینی کی فسطائیت نے یہ کام جرمنی اور اٹلی میں کیا جبکہ ضیاالحق کی پاکستانی سماج میں پیداکی جانے والی نفرتوں ، مذہبی انتہا پسندی اور جمہوریت کی زوال پذیری کو تبدیل کرنے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔ پاکستانی سیاست کی موجودہ زبو ں حالی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ آمرانہ طرز عمل نہ صرف جمہوری سیاست کا خاتمہ کرتا ہے بلکہ یک جماعتی سیاست کی سرپرستی کرتے ہوئے باقی سیاسی آوازوں کو دبا دیتا ہے۔جبر اور نظریات کے ملاپ سے چلنے والے نظام کی وجہ سے سماج کو شدید سیاسی تنزلی کاشکار ہونا پڑتا ہے ، عوام کی ایک تعدادپر تشدد نظریے کے زور پر نہ صرف مفاہمت کر لیتی ہے بلکہ پوری طرح سر نگوں بھی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں ایسا آمرانہ دور کبھی تو اندرونی تضادات اور ابھار کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچا یاپھر خارجی اور داخلی عوامل کے مشترکہ دبائو کے تحت زوال پذیرہوالیکن سماج میں اپنی باقیات ، رہن سہن کا ڈھنگ اور غیر جمہوری روایتیں چھوڑ گیا۔ہم پاکستانی آج بھی اس دور کے آسیب تلے زندگی گزار رہے ہیں ۔2018ء میں عمران خان کو جس طرح اقتدار میں لایا گیا ، وہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب رہے گا۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جب بھی کسی نئی جماعت کو اقتدار دلوایا اور اپنے مخصوص اہداف پورے کر لئے تو بھی وہ جماعت کبھی ختم نہ ہوسکی بلکہ سماج میں اس نے اپنی جڑیں بنالیں۔مسلم لیگ ق ، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی تو اس کی حالیہ مثالیں ہیں ۔شدید عوامی دبائو کی وجہ سے پچھلے کچھ عرصے سے اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو نیوٹرل ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کے بعد جو ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ، اس میں بھی انہوں نے کوئی مداخلت نہیں کی جوکہ پاکستان کی تاریخ میں ایک مثبت تبدیلی ہے لیکن اگر پاکستان کی جمہوریت اور سیاست کو یورپ کی طرح ارتقا پذیر ہونا ہے تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور دوسری تمام سیاسی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر اس بات کااعادہ کریں کہ وہ آئندہ اپنے تمام سیاسی مسائل سیاسی فورم پر بیٹھ کر حل کریں گی تاکہ غیر جمہوری عناصر آئندہ ان کے جھگڑوں سے فائدہ اٹھا کر سیاست اور جمہوریت کی بالا دستی کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔دنیا کے تمام جمہوری سماجوں میں ایسی ہی جمہوری روایات ایسے ہی پروان چڑھی ہیں جس کی وجہ سے ان سماجوں اورخاص طورپر یورپ نے بے انتہا ترقی کی ہے۔ اسی وجہ سے حال ہی میں شائع کئے جانے والے بین الاقوامی جمہوری انڈیکس میں جمہوریت کی پاسداری کی مد میں ناروے کو پہلا ، بھارت کو چھیالسواں، بنگلہ دیش کو پچھترواں اور پاکستان کو 104واں نمبر دیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 75 سال سے نہ تو مکمل طور پر جمہوریت بحال ہوئی ہے اور نہ مکمل طور پر آمریت رہی۔یاد رہے اسی ہائبرڈ نظام کی وجہ سے پاکستان میں رہنے والی محکوم قوموں کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا ، بلوچ اور دوسری پسماندہ قوموں میں احساسِ محرومی بڑھا اور مظلوم طبقات جن میں عورتیں، مذہبی اقلیتیں ، مزدور، کسان اور طالب علم شامل ہیں ،کی مزید سماجی تنزلی ہوئی۔امید تھی کہ پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے سے مثبت سیاسی اور جمہوری پیش رفت ہوگی لیکن لگتا ہے کہ شہباز شریف بھی انہی قوتوں کی مرضی سے اقتدار میں آئے ہیں کیونکہ نہ توبلوچستان اور نہ ہی مظلوم طبقات کے مسائل حل ہوئے ہیں۔غوث بخش بزنجو کہا کرتے تھے کہ جب تک پنجاب سے سیاسی مزاحمت سر نہیں اٹھائے گی اس وقت تک مجموعی طور پر پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا ناممکن ہے۔

کچھ سیاسی دانشوروں کاخیال ہے کہ نواز شریف نے پنجاب میں’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ دے کر پورے پاکستان میں پذیرائی حاصل کی تھی، اب اس کا فائدہ عمران خان اٹھا رہے ہیں ۔یوں اس بیانیے کی پنجاب میں پذیرائی جمہوریت ، سیاست اور آئین کی بالادستی کو مزید تقویت دے گی۔

تازہ ترین