• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقی پذیر جمہوریتوں کا ایک بڑا روگ اور ان کی رکاوٹوں سے اٹے اور سست رفتار ترقیاتی عمل کی بنیادی وجہ نحیف اور کم سکت سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں، پالیسی سازی اور ان پر مطلوب معیار کا عملدرآمد تو دور کی بات ان جماعتوں کی فیصلہ سازی بھی ناقص معیار کی اور اکثر اوقات بے نتیجہ، فائر بیک اور ڈیزاسٹر کا موجب بنتی ہے۔ یہ عوامی مفادات کے پروگرام بنانے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہیں یا ان پر بدنیتی کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ اس سے ریاستی وسائل کی بندر بانٹ، اختیارات کا ناجائز ا ستعمال اور مالی کرپشن، ان کی بیڈ گورننس کی بنیادی شناخت بن جاتے ہیں پھر جو ان کے پبلک امیج کی تباہی سے سیاسی خسارے کی صورت بنتی ہے اسے یہ کمزور و نحیف لیکن اپنے مفادات کے حصول میں دیدہ دلیر جماعتیں جملہ سیاسی ہتھکنڈوں کا ’’پیکیج‘‘ بناتی ہیں جو اپنی سیاست چمکانے اور دھونس دھڑلے کو ہضم کرانے کیلئے شدت سے مطلوب عوامی مفادات کے کسی قومی پروگرام کے متبادل کے طور پر اختیار کرتی ہیں مستقل آلودہ سیاسی ابلاغ اور کیس ٹو کیس یا بوقت ضرورت پروپیگنڈہ اس عوام دشمن ’’پیکیج‘‘ کی دو پروڈکٹ ہوتی ہیں ان کا استعمال اتنا ہی اور اتنے ہی تواتر سے ہوتا ہے جب حکومت یا اپوزیشن کی بدنیت اور لو کیپسٹی سیاسی قائدین اور جماعتیں عوام دشمن سیاست کی یہ روش اختیار کرتی ہیں تو بھارت کی سیکولر ڈیموکریسی سے ہندو بنیاد پرستی اور اس کی فلاسفی ’’ہندو توا‘‘ نکلتا ہے ۔ مسلم لیگ سے ری پبلکن پارٹی ، کنونشن لیگ، جونیجو لیگ اور ن لیگ نکلتی ہیں ۔ پاکستان میں تو پھر ان بڑی جماعتوں سے نکلی کمزور پارٹیوں میں کئی کئی دھڑے نکلتے ہیں جیسے بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی سے زرداری کی پارلیمنٹرین پیپلز پارٹی ، مولانا مفتی محمود کی درویش سیاسی قیادت سے درخواستی ، سمیع الحق اور فضل الرحمن گروپ اور ن لیگ جو خود مسلم لیگ سے نکلی ہے نواز مریم گروپ اورمفاہمت کی علمبردار شہبازی سیاست اسی سیاسی فنکاری سے آج شہباز شریف منی لانڈرنگ اور بے نامی اکائونٹ کے حوالے سے فرد جرم کی لٹکتی تلوار کےنیچے سے نکل کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز ہیں۔ زرداری صاحب ملکی اسٹیٹس کو سیاست کےسب سے بڑے اور اپنی جماعتوں کے علاوہ بارہ جماعتوں سے پنجاب کی لامبی پگڑی والی سیاسی عزت کما رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمن اپنے صوبے میں پے درپے انتخابی شکست کے بعد بھی 13جماعتی اتحاد بمقابلہ (پی ٹی آئی نہیں بلکہ )عمران خاں، پی ڈی ایم کے مانے جانے بڑے اور اصلی گرو ہیں ۔ قارئین کرام ! خصوصاً ہماری نئی نسل ! ذہن نشیں کرلے کہ عملی سیاست کا یہ ڈیزائن خصوصاً ترقی پذیر جمہوریتوں میں پارلیمان، عدلیہ ، انتظامیہ، الیکشن کمیشن اداروں ، تحقیق و احتساب کے نیب جیسے محکموں اور نادید ہ قوتوں کو متاثر کرتا ہے ۔ پاکستان میں تو یہ بڑا سیاسی خسارہ ہمارے موجودہ عشروں سے مسلط نظام بد کے آخری نتائج کے طور اپنی انتہائی شکل میں ہماری قومی سیاست کی عملی شکل ہے، جو گمبھیر اور سراپا تشویش ہے ۔جب سیاسی جماعتیں اپنے اصل مقصد، منشور ، ملکی و پارٹی آئین و ضابطوں اور تنظیم و ڈھانچے سے ہٹتی اور ہلتی ہیں تو انہیں ’’اصل ہدف ‘‘ حصول اقتدار اور عملی سیاست میں اپنے وجود کا واضح احساس دلانے کیلئے ایک قابل قبول آئینی و سیاسی گنجائش کے طور سیاسی جماعتی اتحاد کی راہ ملتی ہے ۔ اسے اختیار کرنا ترقی پذیر جمہوریتوں کے سیاسی کلچر کا غالب حصہ ہے لیکن جب کسی بڑی عوامی حمایت کی قومی جماعت یا آمر مطلق کے مقابل ایسا اتحاد وجود میں آتا ہے تو شامل اراکین کی یہ جائے پناہ بذات خود پناہ گزینوں کیلئے ایک بڑا چیلنج بنتا ہے اتحاد سے بہتری کی صورتیں بھی نکلتی ہیں اتحاد نتائج کے بغیر بکھر بھی جاتے ہیں اور پہلے سے موجود سیاسی عدم استحکام اور کمزور قومی معیشت کے لئے ڈیزاسٹر بھی ثابت ہوتے ہیں۔

وائے بدنصیبی، آج پاکستان گمبھیر بحران اور بے قابو منفی قومی سیاست و معیشت کو سنبھالنے کے جس چیلنج سے دوچار ہے وہ (شاید) ہماری سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے حکومتی اتحاد کی انتہا کی اسٹیٹس کو کی اتحادی سیاست کا شاخسانہ ہے یہ ہے تو ناچیز کی ذاتی رائے لیکن جملہ ٹھوس حقائق اور اعدادو شمار اس کی مکمل تصدیق کر رہے ہیں اسی کے بعد تو پاکستانی عوام نے نئے شعور کی تیزی سے ہوتی بلندی سے قومی سیاست کا بہت کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے یہ رجحان بیداری یا تجربہ تادم تو کامیاب جا رہا ہے دوسری جانب اتحادی حکومت ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر کی رجعت پسندی بمقابلہ عوامی تبدیلی کا گراف بھی اتنی تیزی سے بڑھ رہا ہے جتناعوامی اتحاد ۔

جب پی ڈی ایم وجود میں آیا پھر ٹوٹا اور پھر بنا کہ سیاسی کھیل کھیلنے یا کھلواڑ مچانے، کیلئے ہی مشترکہ جائے پناہ لازم ہو گئی تھی تو اس پر حکومتی پی ٹی آئی کی یہ تنقید تو بے معنی تھی کہ یہ متضاد الخیال جماعتوں اور ماضی میں ایک دوسرے پر تیرو نشتر چلانے والوں کا گٹھ جوڑ یا چوں چوں کا مربہ ہے سیاسی اتحاد تو متضاد الخیال جماعتوں کے ہی بنتے ہیں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کون سا اتحاد کس مقصد کے لئے تشکیل پایا اور یہ کسی طرح عوامی اور ملکی مفاد میں ہے؟ پی ڈی ایم نے منتخب حکومتوں کی اقتدار کی مدت پوری ہونے کے ارتقا کو مکمل نظرانداز کرکے فقط مہنگائی کا بیانیہ اس وقت بنایا جب ساری دنیا امریکہ، چین ٹریڈوار، سائوتھ چائنہ سی ایشو، مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے بھڑکنے پاک بھارت سرحدی کشیدگی روس، یوکرین وار کا پس منظر بننے اور پر آشوب عالمی حالات سے یکدم برآمد ہوئی کرونائی عالمی وبا سے کساد بازاری اور مجموعی اقصادی حالت انحطاط پذیر ہوئی پاکستان میں تو حالات بڑے بھلے رہے اسی بحران میں ہماری خارجی سرگرمیاں بھی تیز تر اور ثمرآور ہوتی جا رہی تھیں عوام نے اپنے طور تو کمال شعور اور وقار سے حکومت کو مہنگائی کا فراخدانہ الائونس دیا لیکن اپوزیشن اور پھر پی ڈی ایم نے اس سے بالکل متضاد عالمی وبا کی گمبھیر صورتحال میں بھی اپنی سیاسی دکان چمکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور مہنگائی کو صرف عمران حکومت اکھاڑنے کیلئے استعمال کیا اسے اتنی کامیابی تو ہوئی کہ پی ڈی ایم کے زبردست پروپیگنڈے سے عمران خان کی عوام میں مقبولیت ہونے لگی ،اس پر اتنی بیتاب ہوئی کہ حکومت کو جتنی جلد اور جس بھی قیمت پر اکھاڑا جا سکتا ہے اس کیلئے مہم جوئی تادم جاری رکھی جائے نتیجہ نہ نکلا تو افغانستان سے امریکی انخلا کے تناظر میں وزیر اعظم عمران کی لی گئی پوزیشن ’’جنگوں میں نہیں صرف امن کیلئے اتحاد و اشتراک ‘‘ نے ہمیں علاقائی اور عالمی سیاست کا اہم ایکٹر بنا دیا لیکن اس سے داخلی جاری سیاسی عمل اور اقتصادی حالت متاثر ہونے لگی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین