• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ تین دہائیوں میں ہانگ کانگ، ویتنام، سنگاپور ،جنوبی کوریا اور چین نے تجارت، تعلیم ،تحقیق اور اقتصادی استحکام میں بے پناہ ترقی کی ہے۔ ان ممالک کے عروج کے ایشیا کی علاقائی اور عالمی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مغرب اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے تاحال ایشیاءکی شدید مزاحمت جاری ہے۔ تمام عالمی طاقتیں مختلف آپشنز پر غور کرنے پر مجبور ہیں۔ چین ایشیائی بلاک تشکیل دے کرمتحرک کر رہا ہے جو ایک پائیدار کل ، مغرب اور مشرق میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے تحفظ اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے مقاصد پر مبنی ہے۔

امریکہ اب تک دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے، حالانکہ کچھ اقتصادی اشاریے چین کی برتری کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ اس کے پاس اب بھی دنیا کی کسی بھی قوم کو زیر کرنے کی ٹیکنالوجی، فوجی اور سفارتی مؤثر طاقت موجودہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ امریکہ ’’ابتدائے زوال‘‘کے مرحلے میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سیاست بہت زیادہ پولرائزڈ ہو چکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی معاشرے میں گہری دراڑ کا باعث بنا۔ امریکی سیاست کو’’ہم بمقابلہ وہ ‘‘میں تقسیم کردیا گیا۔ ٹرمپ ازم نے ان دراڑوں کو بڑھایا اور ایک مکمل داخلی تقسیم واضح ہوئی۔ٹرمپ چلا گیا لیکن ٹرمپ ازم اب بھی زندہ ہے'۔ امریکی کانگریس کے 80 فیصد فیصلوں سے ملک کے صرف 10 فیصد لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جب ہم امریکی حکومت کی طرف سے سوویت یونین سے تنازع کے دوران اختیار کی جانے والی حکمت عملیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو واضح تضاد ات نظر آتے ہیں۔ بہتر ٹیکنالوجی، بہتر تجارت اور اعلیٰ تکنیکی صنعتی ترقی کے ذریعے ہر اقتصادی اشاریے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سوویت معیشت کو درہم برہم کرنا اولین مقصد تھا اور یہ تمام مقاصد پورے ہوئے لیکن چین کے معاملے میں ایسا نہیں ہوپا رہا، امریکہ تذبذب کا شکار ہے۔ نہ کوئی پالیسی فریم ورک ہے، نہ کوئی منصوبہ اور نہ ہی کوئی اسٹریٹجک مقاصد۔ ایک امریکی سروے میں 80% سے زیادہ لوگوں نے چین کو اپنے لئے خطرہ اور امریکہ کا دشمن سمجھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی کوئی معقول وجہ نہیں بتا پایا اور یہی وہ تعصب ہے جو امریکی حکومت اور عوام میں پایا جاتا ہے، وہ چین کے خلاف ہیں لیکن چین سے نمٹنے کی وجوہات اور آگے بڑھنے کا راستہ بتانے سے قاصر ہیں۔ انتخابات سے قبل بائیڈن نے عوام کو واضح پیغام دیا تھا کہ امریکہ کو چینی برآمدات پر ٹیرف کی اونچی شرح سے کاروبار ی نقصان پہنچ رہا ہے جس کے باعث بے روزگاری بڑھی ہے ، لیکن اب ان تمام دعوؤں کے برعکس امریکی حکومت کی پالیسیاں مزید سخت کر دی گئی ہیں۔

امریکی عوام اور حکومت کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر صرف ایک ہی آپشن نظر آتا ہے اور وہ ہے چین سے متعلق منفی رویہ ۔ چین اورژی جن پنگ کے خلاف شدید تعصب پایا جاتاہے۔اس رویے نے دراصل امریکی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ امریکی حکومت جانتی ہے کہ وہ چین کے ساتھ براہ راست جنگ اور تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی جنگ کی صورت میں دونوں ممالک کے پاس بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار موجودہیں ، چین اور امریکہ کے درمیان فوجی تنازع میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔ اس کے اثرات دنیا کے ساتھ ساتھ ان دونوں قوموں کیلئے بھی ہلاکت خیز ہونگے۔ اس حوالے سے فوجی آپشنزقابل عمل نہیں ہیں۔امریکہ کے پاس چین کے حوالے سے انتہائی محدود آپشنز ہیں۔

بہت سے سازشی نظریہ سازوں کے خیال میں امریکہ چین کی ترقی اور عروج روکنے کے لئے خفیہ طریقوں کا سہارا لے سکتا ہے۔ ملک کا کنٹرول مرکزی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں ہونے ،کڑی نگرانی، امن و امان پرسختی سے عمل درآمداورجدید ترین ٹیکنالوجی کے باعث اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ امریکی ایجنسیوں کی کوئی سازش رنگ لا سکے۔ چین سوویت یونین اور عرب سپرِنگ کے تجربے سے بھی واقف ہے جہاں کسی دوسرے ملک کے فائدے کے لئے اندرونی ایجنٹوں کو حکومت گرانے کے لئے رشوت دی جاتی تھی۔ تائیوان اور ہانگ کانگ میں اپنائی گئی تمام چالیں اور حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔چینی فوج ہر وقت کسی بھی طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار اور مستعد ہے ۔ امریکی حکومت کی طرف سے کیے گئے تمام اقدامات کا چینی آسانی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ چین کے حوالے سے مذکورہ بالا سب آپشنز ناقابل عمل ہیں، پھر وہ کون سا صحیح طریقہ ہے جو امریکہ اپنے اور ایشیا کے بہتر مستقبل کے لئے اپنا سکتا ہے؟ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ ایشیا کو اپنے حالات میں الجھائے رکھا جائے ۔ چین کے بارے میں امریکی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ امریکیوں کو چین کی ترقی اور اس کے عروج کو قبول کرنا پڑے گا۔ امریکی بھول جاتے ہیں کہ وہ ہجرت کرنے والی قوم ہیں، نئے براعظموں کی تلاش میں یورپ کی تحریک سے پیدا ہونے والا ایک ملک، جو صرف پچھلے چند سو سالوں میں نمودار ہوا، جب کہ چین کی تاریخ 5000سال سے زیادہ پرانی ہے۔ امریکہ کو چین سے سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے ۔

امریکی ہمیشہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ چین کی ترقی کئی حوالوں سے امریکیوں کی وجہ سے ہے۔ چین نے تجارت اور صنعت کے حوالے سے عالمی نقطہ نظر کو اپنایا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ چین نے مغرب کواس کے اپنے ہی میدان میں شکست دی ہے، اب یہ مینوفیکچرنگ، برآمدات اور اجناس کے ذخائر میں مارکیٹ لیڈر ہے۔ مغرب کو اپنی آبادی کو غربت سے نکالنے پر چین کو سزا دینے اورسازشیں کرنے کی بجائے اس حقیقت کو باعزت طریقے سے قبول کرنا چاہیے۔ چین امریکہ یا مغرب کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔ اس کی توجہ اپنے عوام کی بہتری، اپنے اقتصادی اور سفارتی تعلقات بڑھانے اور خوشحال مستقبل کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کو چین کے حوالے سے اپنا قومی بیانیہ تبدیل کرنا چاہیے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین