تاریخ دان قیامِ پاکستان کو ایک معجزہ قرار دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں ہندو مذہب کے ماننے والے غالب اکثریت میں تھے اور اقلیت میں ہونے کے باعث مسلمانوں کے لی علیحدہ مملکت کا حصول بظاہر ایک ناممکن عمل تھا۔ تاہم، مسلمانانِ برصغیرنے انگریزسامراج کی سازشوں اور کانگریس کی چالبازیوں کے باوجود اپنی بے مثال جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے قیام کو ممکن کردکھایا۔
ایک الگ مملکت کا خواب علامہ اقبال ؒنے دیکھا تھا اور اس کی تعبیر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی قسمت میں لکھی تھی، جنھوں نے مسلمانانِ برصغیر کو ایک منظم قوم میں بدلا اور اپنے اخلاص،بلند کردار، جرأت و استقامت، اصول پسندی اور دوقومی نظریے پریقین کے نتیجے میں قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں کامیابی حاصل کی۔
قوموں کی زندگی میں قومی دن اپنے پسِ منظر کو اجاگر کرنے، ان کی اہمیت کو واضح کرنے اور نئی نسل کو ماضی کے اہم سنگ ہائے میل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے نہایت مفید ہوتے ہیں۔ گاہے بگاہے ایسے ایام تہواروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
آج آزادی وطن کے 74سال مکمل ہونے پر جشن منانے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں کہ برصغیر کے مسلمان قائدین نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیوں کیا تھا۔ مطالعے کے مطابق مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کی مندرجہ ذیل بنیادی وجوہات تھیں:
* ہندوستان کی سرزمین پر صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی، جہاں ہندو (جو برصغیر میں اکثریت میں تھے) ایک طویل عرصہ تک مسلمان بادشاہوں کی رعایا رہے تھے۔ انھوں نے بعدازاں انگریزوں کی قربت حاصل کرلی۔ انگریزوں نے بھی حکومت چونکہ مسلمانوں سے چھینی تھی اس لیے زیادہ ردعمل کی توقع بھی ان کی طرف سے ہی تھی۔ انگریزوں اور ہندوؤں کی قربت اس پس منظر میں قابل فہم ہے۔
* مسلمانوں کو حکومت سے ہی محروم نہیں کیا گیا بلکہ مجموعی طور پر وسائل زندگی کے اعتبار سے بھی بہت کمزور کردیا گیا تھا۔
* ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف کئی بڑے بڑے معرکے مسلمانوں ہی نے لڑے تھے، خاص طور پر 1857ء کی جنگ آزادی تو مسلمانوں نے ہی برپا کی تھی۔
* مغرب سے آنے والا جمہوریت کا تصور کانگریس کو خوب بھاتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ برطانوی تصورِ جمہوریت کی مدد سے وہ برصغیر پر اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں اور تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو ہندوستان میں اپنے زیرِ اقتدار رکھ سکتے ہیں۔
* مسلمان بھی برصغیر میں کوئی معمولی اقلیت نہ تھے۔ اپنے ماضی کی تاریخ کے زیراثر وہ اقلیت کا کردار قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں اُس وقت تقریباً 40فیصد مسلمان آباد تھے۔ بعض صوبوں میں انھیں اکثریت بھی حاصل تھی۔
* مسلمان محسوس کرتے تھے کہ انھیں معاشی اور سماجی طور پر جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے۔
* مسلمانوں کو یہ بھی احساس تھا، جو ہندوستان کے طول وعرض میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں درست بھی تھا کہ ہندو اپنی اجتماعی اکثریت اور مذہبی تصورات کی بنیاد پر مسلمانوں سے تعصب برتتے ہیں اور انھیں بہت سے مقامات پر اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
* مسلمانوں کے ممتاز رہنماؤں، جن میں قائداعظم محمد علی جناح بھی شامل تھے، نے پہلے مرحلے پر ہندوستان کے اتحاد اور مسلم ہندو یگانگت پر زور دیا اور ہندوستان کی وحدت کی بقا کے لیے آواز اٹھائی لیکن مسلسل تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کانگریس کی قیادت مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، متحدہ ہندوستان کے آخری انتخابات کے بعد حکومتوں کی تشکیل میں کانگریس نے وہاں بھی مسلمانوں کو اقتدار سے محروم رکھنے کے لیے سو طرح کے جتن کیے۔
یہی وہ اہم اور بنیادی وجوہات تھیں، جس کے بعد مسلمان رہنماؤں نے آخر کار الگ مسلم ریاست کی تجویز پیش کی۔ یہ تجویز ایک آزاد خود مختار ریاست کا تصور اختیار کرتے کرتے مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ اس سے پہلے اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی داخلی خود مختاری کی تجویز بھی زیر غور رہی۔ تاہم جب 23مارچ1940ء کو قراردادِ پاکستان منظورہوئی تو برصغیر کے ہرمسلمان نے اسے اپنے دل کی آواز سمجھا۔
یوں تو تحریک آزادی (1857ء سے 14اگست 1947ء تک) کا ہر دن اور ہر لحظہ ہی ہماری تاریخی جدو جہد کا یادگار با ب ہے مگر 23مارچ 1940ء، 3جون1947ء اور14اگست 1947ء ایسے ایام ہیں جو ہماری قومی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں اور ان کا پسِ منظر قوم کے بچے بچے کے ذہن میں ہونا چاہیے۔ یہی وہ لمحات تھے جب برصغیر کی تاریخ ایک اہم ترین موڑ پر پہنچی، تحریک پاکستان کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو ئی اور فضا میں سبز ہلالی پرچم لہرایا۔ قرار داد پاکستان 23مارچ1940ء کو منظور ہوئی تھی، اس دن سے 3جون1947ء اور14 اگست1947ء تک کا عرصہ قیام پاکستان کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
3جون 1947ء وہ تاریخ ساز دن ہے جب مسلمانانِ برصغیر کی جدو جہد رنگ لائی اور برطانیہ کے تعینات کردہ آخری وائسرائے ہند(نائب السلطنت) ایڈمرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہندکی تاریخ(یعنی 14اگست 1947ء ) کا باقاعدہ اعلان کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے آل انڈیا ریڈیو پر تقسیم ہند کے باقاعدہ اعلان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے ریڈیو پر تقریر کی اور آخر میں بے پناہ جذبے اور ولولے سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا یا جو مسلمانان برصغیر کے دل کی آواز بن گیا اور فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتی چلی گئی۔
پیغام
پروفیسر ڈاکٹر سید میر محمد شاہ
وائس چانسلر
سکھر آئی بی اے یونیورسٹی
میں تمام اہلیانِ وطن کو انتہائی پرمسرت یوم آبادی کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ پاکستان ہماری شناخت ہے اور اس دن ہم ’پاکستان‘ کی خوشیاں اس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ ہم سب مل کر اپنے مادرِ وطن کی خوشحالی اور ترقی کے لیے کام کریں گے۔ 14 اگست ہمیں یاد دِلاتا ہے کہ اس عظیم دن اساتذہ اور طلباء سمیت تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بانی قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی پرجوش لیڈرشپ میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ میں اپنے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں جنھوں نے اس جنت جیسی خوبصورت سرزمین کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
سکھر آئی بی اے یونیورسٹی ان باصلاحیت نوجوانوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوئی ہے جو وسائل تو نہیں رکھتے لیکن ان کے خواب ضرورت بڑے ہیں۔ نیشنل ایکریڈیٹیشن اور دنیا بھر میں اشتراک کے ساتھ، سکھر آئی بی اے یونیورسٹی نے پاکستان کے صفِ اول کے تعلیمی اداروں میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ ہم مشمولیت میں یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایک ساتھ ہی آگے بڑھ سکتے ہیں اور ترقی کی منازل طے کرسکتے ہیں۔ تعلیم میں مشمولیت کو شامل کرکے اور غیرمراعات یافتہ نوجوانوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم کے مواقع فراہم کرکے ہم قومی ترقی میں اپنا ادنیٰ کردار ادا کررہے ہیں۔
سکھر آئی بی اے یونیورسٹی تعلیم دینے کے طریقوں میں اختراع اور مسلسل بہتری میں یقین رکھتی ہے اور اسے انتہائی اہمیت دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں قومی اور بین الاقوامی طور پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے انتظامیہ مکمل طور پر باخبر رہتی ہے۔ سکھر آئی بی اے یونیورسٹی میں ہماری توجہ ملک کی غیردریافتہ شدہ صلاحیتوں کو تلاش کرتے ہوئے باصلاحیت گریجویٹس اور لیڈرز پیدا کرنے پر مرتکز ہے۔
اللہ رب العزت اپنی رحمتیں ہماری قوم پر نازل فرمائے (آمین)۔
پاکستان کا یومِ آزادی مبارک