عمر میں ، پاکستان مجھ سے صرف دس سال بڑا ہے ! آپ کہیں گے کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ ملک کی عمر کا موازنہ انسان کی عمر سے کون کرتا ہے؟ ایک اعتبار سے آپ شاید ٹھیک ہی سوچ رہے ہوں گے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ جس طرح بہت عرصے تک ساتھ رہنے والے میاں بیوی یا پرانے یار یا قدیم پڑوسی ایک ہی طرح سوچنے لگتے ہیں، ایک جیسی آرزوؤں کی پرورش کرنے لگتے ہیں، اور ایک جیسے خوابوں کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں، بالکل اسی طرح برسوں ساتھ رہتے رہتے، ملک اور ملک میں رہنے والے کسی انسان کے درمیان کوئی نظر نہ آنے والا اور بے حد عجیب و غریب تعلق بن جاتا ہے۔ ہر آدمی کا بالکل علیحدہ نوعیت کا تعلق۔ چوبیس کروڑ لوگ، چوبیس کروڑ طرح کے تعلق۔
تو یہ جو 75 سال کا پاکستان ہے، اس کے ساتھ اپنے تعلق کو میں نوعمری میں ایک مدت تک اسی طرح کا تعلق سمجھتا رہا، جیسے ایک ہی گھر کی دو منزلوں پر رہنے والے کرایہ دار اور مالک مکان کا تعلق ہوتا ہے۔ اوپر نیچے رہنے کے باوجود صرف کرایہ دینے اور کبھی کبھار سامنا ہو جانے پر سلام دعا کر لینے کا بہت رسمی ریلیشن شپ۔ الگ کچن، الگ طرز رہائش، الگ زندگی۔ پھر ایک دن مجھے احساس ہوا کہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔ درمیان میں کچھ ایسا ضرور ہے جو ابھی مجھے نظر نہیں آ رہا۔
اس روز میں نے امی رحمت آرا خانم کو بے حد اداس دیکھا۔ اور زندگی میں پہلی بار اپنے بابا شمیم نعمانی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ وہ رو نہیں رہے تھے۔ اپنے سرکاری کوارٹر میں بستر پر بیٹھے سامنے دیوار کو دیکھ رہے تھے، دیکھے جا رہے تھے۔ آنسو ان کی آنکھوں کی دہلیز پر تھے، بہہ نکلنے کے لئے تیار، مگر شاید بابا نے اپنی قوت ارادی سے انہیں روک رکھا تھا۔ وہ ایک ہار جانے والے آدمی کی طرح تھے۔ مایوس، شکستہ، اور دل گرفتہ۔ اس دن وہ پاکستان، جو مجھ سے صرف دس سال بڑا تھا، یعنی محض چوبیس سال کا تھا، اپنی زندگی کے سب سے بڑے سانحے سے گزرا تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے علیٰحدہ ہو گئے تھے !!
اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے، عمر کی ان گزر جانے والی دہائیوں میں پاکستان کے ساتھ میرا تعلق کچھ عجیب و غریب سا رہا ہے۔ اس بات کو سمجھانا بھی مجھے ذرا مشکل لگتا ہے۔ ایک ایسے دور میں، جب حب الوطنی اور وطن دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا اختیار حکومتوں اور اداروں اور سیاسی بازیگروں سمیت ہر ایک کے پاس آ گیا ہو، یہ سمجھنا اور سمجھانا دشوار ہوتا ہے کہ محبت اور تعلق، دو علیٰحدہ علیٰحدہ اصطلاحات ہیں۔ ان کے معانی بھی مختلف ہیں۔ جب کوئی کہتا ہے (اور ہر دو چار مہینے بعد کوئی نہ کوئی احمق ضرور کہتا ہے) کہ فلاں شخص محب وطن نہیں ہے، تو مجھے یہ محبت نامی لفظ کی توہین لگتی ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ایسے الزامات لگانے والوں کے خلاف انسان کی توہین کرنے پر کوئی مقدمہ دائر کر دوں۔
ایک دن کسی دفتری کام سے مختلف اخبارات کے صحافیوں کو کٹھمنڈو، نیپال جانا پڑا ۔ یہ 30 برس پرانی اکتوبر 1992 کی بات ہے۔ ان دنوں پی آئی اے کی جو فلائٹ کراچی سے نیپال جاتی تھی، وہ واپسی میں بنگلہ دیش سے ہوتی ہوئی واپس کراچی آتی تھی۔ تو جب ہم ہفتہ بھر بعد واپس روانہ ہوئے، ہماری فلائٹ پہلے ڈھاکہ ائیرپورٹ پر اتری جہاں دو گھنٹے تک ٹرانزٹ مسافروں کی طرح ہمیں ائیرپورٹ کے اندر ہی رہنا تھا اور پھر کراچی کے لئے روانہ ہونا تھا۔
جہاز کا دروازہ کھلا اور لوگ سیڑھی کے ذریعے نیچے اترنے لگے تو کسی بے چینی نے میرے دل کو اپنے حصار میں لے لیا۔ وہ دن قیصر محمود، زاہد حسین، شہزاد چغتائی اور مجھ سمیت بہت سے صحافیوں کے لئے ایک مشکل، تکلیف دہ دن تھا ۔ اس سرزمین پر قدم رکھنے کا خیال، جو بیس اکیس سال پہلے پاکستان کہلاتی تھی مگر اب پاکستان نہ تھی، بدن میں اضطراب پیدا کرتا تھا ۔ ہم ایک گیلے رن وے پر اترے جہاں شاید کچھ دیر پہلے ہی بارش ہو چکی تھی۔ دور، رن وے کے چاروں طرف سبز پیڑوں کے جھنڈ نظر آ رہے تھے اور خوش گوار ہوا چل رہی تھی۔
اس دن مجھے اپنے پرانے کوارٹر کی وہ دیوار یاد آئی جسے بابا دیکھے جا رہے تھے۔ وہ آنسو یاد آئے جنہیں بابا نے بہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اور پہلی بار سمجھ میں آیا کہ وطن سے تعلق دراصل کیا ہوتا ہے۔ میں تو مغربی پاکستان میں ہی پیدا ہوا تھا اور صرف چودہ برس کا تھا جب پاکستان دو لخت ہوا۔ امی بابا تو مکمل پاکستان کا خواب لے کر، ٹرین کا صعوبتوں بھرا سفر کرنے کے بعد اپنے وطن تک بمشکل زندہ پہنچے تھے۔ ان کا تعلق تو مجھ سے کہیں بڑا، کہیں گہرا، کہیں طاقت ور تھا۔
یہ تو خیر سب گئے وقتوں کی باتیں ہیں ۔ پرانی، جذباتی باتیں، جن میں نئے لوگوں کے لئے دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے، نئی قدروں کے مگرمچھ پرانی قدروں کو نگل چکے ہیں۔ زندگی ایسی تیز رفتار ہوتی جاتی ہے کہ کسی کے پاس ٹھہر کر غور کرنے، کسی تعلق کی گہرائی کا جائزہ لینے، کسی جذباتی معاملہ میں الجھنے کی فرصت ہے، نہ ضرورت۔
تو چلئے ، نئے زمانے کی بات کرتے ہیں۔
اس نئے زمانے میں مجھے یہ پتا چلا کہ میں دنیا میں جہاں بھی جاؤں، پاکستان میرے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ جس نئے ملک میں قدم رکھوں، میں پاکستان کے خیال سے پیچھا چھڑانے میں ناکام رہتا ہوں۔ اور ایک میں ہی نہیں، دور دیس بسنے والے لاکھوں پاکستانی بھی اسی کیفیت میں رہتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا، جگمگاتے مغرب سے پراسرار مشرق تک، ہر ملک میں قدم قدم پر یہ دھرتی کیوں بے ساختہ یاد آتی ہے؟
چند برس پہلے ہم سری لنکا میں تھے۔ کورونا سے پہلے (اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کے زمیں بوس ہونے سے پہلے) ہم میاں بیوی سال میں ایک دفعہ آٹھ دس دن کے لئے کسی نئے ملک کی سیر کا پروگرام بنا لیا کرتے تھے۔ سری لنکا جانے سے پہلے ہی ہم نے وہاں انٹرنیٹ کے ذریعے ایک گاڑی اور ڈرائیور کا بندوبست کر لیا تھا تاکہ ہم چار پانچ اہم شہر دیکھ سکیں۔ ڈرائیور جارج جیاویرا مہذب، پڑھا لکھا آدمی تھا۔ اس کی کار بھی نئی تھی۔ جارج نے ہمیں کولمبو کے علاوہ گالے، کینڈی، نوارا ایلیا کی سیر بھی کرائی۔ ایک روز عجیب واقعہ ہوا۔ ہم گاڑی میں سگیریا جا رہے تھے۔ سگیریا، دمبولا شہر کے پاس، کوئی ڈیڑھ ہزار سال پرانا، چھ سو فٹ بلند، پتھر کا بنا قلعہ ہے جسے ہزاروں سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ کشیاپا بادشاہ نے یہاں دارالحکومت منتقل کر دیا تھا۔
ڈرائیور جارج نے طویل، پتلی سڑک پر اگلی سست رفتار گاڑی کو جہاں اوور ٹیک کیا وہیں سڑک کنارے ایک ٹریفک افسر اپنی سفید موٹر سائیکل سمیت موجود تھا جس نے ہاتھ ہلا کر ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔ جارج نے گاڑی ذرا آگے روک دی۔ ہم گاڑی میں بیٹھے رہے اور وہ اپنا لائسنس وغیرہ لے کر ٹریفک افسر کے پاس چلا گیا۔ واپس آیا تو پتا چلا، مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں کی لین میں جانے پر چالان ہو گیا ہے۔ ٹریفک چالان ہمارے لئے کوئی اہم بات نہیں تھی۔ مگر جارج کو دیکھ کر لگتا تھا، کوئی قیامت آ گئی ہے۔ اس نے ہم سے درخواست کی کہ آگے جانے سے پہلے اسے چالان جمع کرانے کی اجازت دی جائے۔ گاڑی مڑی اور ہم کسی اور راستے سے دمبولا شہر جا پہنچے۔
یہاں جارج نے بڑی مشکل سے کوئی سرکاری دفتر تلاش کیا، پھر وہاں قائم بینک کی شاخ میں چالان کے پیسے جمع کرائے۔ اس سارے کام میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا جس پر جارج نے کوئی بیس بار معذرت کی۔ اس نے کہا کہ یہ کام ابھی نہ ہوتا تو میں واپسی میں اس ٹریفک افسر سے اپنا لائسنس نہ لے پاتا اور مجھے کسی اور دن ایک سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دوبارہ یہاں آنا پڑتا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ٹریفک افسر کو کچھ دے دلا کر معاملہ رفع دفع نہیں ہو سکتا تھا؟ جارج سمجھا، میں کوئی لطیفے جیسی شوخ بات کر رہا ہوں، مذاق کر رہا ہوں۔ وہ ہنسا اور مزے سے کار چلاتا رہا۔
اس رات کولمبو واپس پہنچ کر میری بیوی نے ڈنر کے دوران مجھ سے پوچھا۔" دیکھنے میں تو یہ ہم سے بھی گیا گزرا ملک ہے، مگر یہاں لوگوں میں قانون کا اتنا خوف کیسے پیدا ہوا ہے؟" میں نے جواب دینے کے بجائے کوئی اور بات شروع کر دی۔ یعنی معاملہ ٹال دیا۔ میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ جب سے یہ واقعہ رونما ہوا ہے، میں سری لنکا کے بارے میں نہیں، پاکستان کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ اور وہاں کی قانون شکنی کے بارے میں۔ اور وہاں کے کرپٹ ٹریفک والوں اور خود مجھ جیسے کرپٹ گاڑی چلانے والوں کے بارے میں، جن کے لئے چالان سے بچنا صرف چند سو روپے کا کھیل ہے۔ میں نے اسے یہ بھی نہیں بتایا کہ کچھ عرصے سے میں اس نئی بیماری میں مبتلا ہوں جس میں ایک طرف مجھے پاکستان بہت پیارا بھی لگتا ہے اور دوسری جانب مجھے اس پر شدید غصہ بھی آتا ہے، اور یہ کہ ملک سے باہر جب بھی مجھے کوئی خوش گوار تجربہ ہوتا ہے تو مجھے سب سے پہلے اپنا ملک یاد آتا ہے اور میرا دل خوشی کے بجائے اداسی سے اور تلخی سے بھر جاتا ہے۔
میرے شہر کراچی کی آبادی شاید دو ڈھائی کروڑ ہو گی۔ جب میں پہلی بار لندن گیا تو مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ لندن کی آبادی ابھی ایک کروڑ بھی نہیں ہوئی ہے۔ شاید دو چار سال میں ہو جائے گی۔ ہر سال وہاں دنیا بھر سے تین کروڑ (یعنی ہر مہینے اوسطا" پچیس لاکھ) سیاح گھومنے پھرنے جاتے ہیں جس کی وجہ سے رونق میلہ چلتا رہتا ہے۔ خیر، لندن جا کر اندازہ ہوا کہ وہاں رہنے والے عام لوگ روزانہ کام پر جانے کے لئے، اور لاکھوں سیاح گھومنے پھرنے کے لئے کاریں وغیرہ بہت کم استعمال کرتے ہیں۔ وجہ؟ وجہ یہ، کہ وہاں زیر زمین میٹرو ٹرین کا اور سڑکوں پر بسوں کا ایسا منظم جال بچھا دیا گیا ہے کہ پر ہجوم سڑکوں پر اپنی کار میں سفر کرنا مہنگا بھی پڑتا ہے اور تھکا بھی دیتا ہے۔ ایک عزیز ایجوئیر روڈ سے ٹیکسی لے کر کینری وہارف آئے۔ ایک گھنٹہ لگا، اور لندن کی روایتی بلیک کیب کے میٹر سے پچاس پونڈ کرایہ بنا۔ یہی فاصلہ میٹرو کے ذریعے پندرہ منٹ میں، اور صرف دو پونڈ میں طے ہوتا ہے۔ اپنا کارڈ چارج کرائیے اور جہاں دل چاہے، سہولت سے جائیے۔
ہر روز لندن میٹرو کو استعمال کرتے ہوئے مجھے یہی خیال آتا تھا کہ برطانیہ والوں نے تو یہ نظام ڈیڑھ سو برس پہلے بنا ڈالا تھا، پاکستان کے شہروں میں ہم آزادی کے بعد پون صدی میں بھی اپنے کروڑوں لوگوں کے لئے ایسا بندوبست کیوں نہ کر پائے؟ وفاقی اور صوبائی حکومتیں برسوں سے الزام تراشی کا کھیل کیوں کھیلے جا رہی ہیں؟ اکا دکا شہروں میں لولا لنگڑا ٹرانسپورٹ نظام قائم کر کے جشن منانے والے کب تک اپنے ووٹرز کو بے وقوف بناتے رہیں گے؟ میں اپنے شہر میں لاکھوں لوگوں کو روزگار پر جانے کے لئے روزانہ سڑکوں پر ، بس اسٹاپوں پر رسوا ہوتے دیکھتا ہوں اور حساب لگاتا ہوں کہ پاکستان بھر میں کروڑوں لوگ اسی عذاب سے دوچار ہوں گے۔
کروڑوں سادہ، پیارے، عام لوگ جنہوں نے اس پوری صورت حال کو روزمرہ کا معمول سمجھ کر قبول کر لیا ہے، جنہیں احساس ہی نہیں ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ زیادتی اور محرومی کی بات چلی تو لوڈ شیڈنگ یاد آئی۔ شہروں میں چار چھ گھنٹے اور دیہی علاقوں میں بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ، جو کڑی گرمیوں میں کروڑوں لوگوں کو تڑپا دیتی ہے۔ گھروں، سڑکوں اور بستیوں میں اندھیرے کا راج، ساکت پنکھے، اور ایک ہولناک بے بسی۔ ایسے میں مجھے ایک سڑک یاد آتی ہے۔ ایک سڑک، جس پر سفر کرتے ہوئے میں جیسے نیند سے جاگ گیا۔
میں کسی کام سے ابوظہبی گیا تھا۔ واپسی کی فلائٹ کے لئے مجھے دبئی جانا تھا جو 140 کلومیٹر دور تھا۔ میں ٹیکسی کے ذریعے شام ڈھلے روانہ ہوا تو ذرا سی دیر بعد اندھیرا چھا گیا۔ متحدہ عرب امارات کی مرکزی سڑک، شیخ زید روڈ ایسی شاہراہ ہے جو تمام امارات کو آپس میں ملاتی ہے۔ میں نے دیکھا، اندھیرے میں صحرا نما علاقے سے گزرنے والی یہ سڑک جگمگا رہی تھی۔ دو رویہ سڑک پر آنے اور جانے والی گاڑیاں بہت کم تھیں مگر تیز ایل ای ڈی لائٹس نے سڑک کو یوں روشن کر رکھا تھا کہ رات پر دن کا گمان ہوتا تھا۔ جب ٹیکسی کوئی تیس چالیس کلومیٹر طے کر چکی اور روشنی میں کوئی کمی نہ آئی تو میں نے سوچا، کتنی بجلی ضائع کرتے ہیں یہ لوگ۔ پھر مجھے اپنے خیال پر ہنسی آئی۔ غریب ملکوں کے شہریوں کا مائنڈ سیٹ الگ ہی ہوتا ہے۔ وہ یہ سوچنے کے قابل بھی نہیں ہوتے کہ آج کی دنیا میں بجلی دوسرے ملکوں سے خریدی بھی جاتی ہے۔
میں فارغ بیٹھا تھا، اسی ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے گوگل سے رابطہ کیا کہ دیکھوں، وہ کون ملک ہیں جو بجلی تیار کر کے دوسرے ملکوں کو برآمد کر دیتے ہیں۔ جواب ایسا آیا کہ چودہ طبق روشن ہو گئے۔ پتا چلا، دنیا کے 93 ممالک بجلی برآمد کرتے ہیں۔ ان میں بڑے، ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں، چھوٹے، ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں۔ پاکستان سے بہت چھوٹے، بہت غریب ملک بھی۔ ایسے ملک بھی جن کے نام تک نامانوس لگتے ہیں۔ روانڈا، نکاراگوا، منگولیا، پیرو، ایل سلواڈور، نمیبیا، یوگینڈا، پاناما، مراکش، ایتھوپیا، کرغیزستان، گھانا، ایکواڈور، میسیڈونیا، کانگو، ہونڈراس، کوسوو، مونٹی نیگرو یا مظہر العجائب! اتنے نام ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ خراب معیشت والے، غربت والے، خالی خزانوں والے ملک، جو ہائیڈرو پاور یعنی پانی سے، فرنس آئل سے، کوئلے سے دھڑا دھڑ بجلی بنا رہے ہیں، پڑوسی ملکوں کو فروخت کر رہے ہیں، پیسے کما رہے ہیں۔ بڑے ملکوں میں کچھ ایسے ہیں جو نیوکلیئر پلانٹس کے ذریعے بجلی بنا کر برآمد کر رہے ہیں۔ میں اس شیخ زید روڈ پر ڈیڑھ گھنٹے تک سفر کرتا رہا جو روشنیوں سے نہائی ہوئی تھی اور پاکستان کی لوڈ شیڈنگ کا تصور کرتا رہا۔
سوچتا رہا کہ کیا تماشا ہے۔ چار پانچ عشروں سے ہم نے کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا، ہماری بجلی کا شارٹ فال سال بہ سال بڑھتا جا رہا ہے، ہمارے لوگوں کو برسوں کالا باغ ڈیم کی بحث میں الجھائے رکھا گیا ہے، ہمارے نجی شعبہ کے پاور پلانٹس، حکومتوں کی جانب سے ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوتے جا رہے ہیں، اور ہم کسی منصوبہ بندی کے بغیر تاریکی کی جانب سفر کرتے جا رہے ہیں۔ آپ شاید سوچنا شروع کر چکے ہوں گے کہ اس مضمون نگار کو ساری خرابیاں پاکستان میں ہی نظر آ رہی ہیں تو یہ اس ملک میں رہتا ہی کیوں ہے؟ بات یہ ہے، مجھ پر تو یہ راز لگ بھگ بائیس برس پہلے ہی کھل گیا تھا کہ اپنا ٹھکانہ پاکستان کے سوا کہیں نہیں ہو سکتا۔
اس دن کے بعد سے میرا دل بس یہی چاہتا ہے کہ اس ملک کے معاملات بہتر ہوتے جائیں، جو کچھ دنیا بھر میں اچھا ہو رہا ہے، وہ پاکستان کے شہروں میں بھی ہونے لگے۔ اس بائیس برس پرانی بات کا قصہ بھی سن لیجئے۔ بائیس برس قبل حالات کچھ ایسے بنے کہ مجھے وائس آف امریکا کی اردو سروس میں ملازمت کے لئے تقریبا" منتخب کر لیا گیا۔ یعنی اطلاع دے دی گئی کہ چند امیدواروں میں آپ سر فہرست ہیں، سو جو تیاری کرنی ہو، کر لیجئے۔ چار پانچ ماہ میں آپ کو جوائن کرنا ہے۔
اتفاق دیکھئے کہ انہی دنوں مجھے انٹرنیشنل ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا کا دورہ کرنے کا موقع مل گیا جو لگ بھگ ایک ماہ پر محیط تھا۔ اس ایک ماہ میں جہاں ایک طرف واشنگٹن ڈی سی، نیویارک، سیاٹل، آئیووا، ڈلاس، سان فرانسسکو جانےکا، امریکی ادارے دیکھنےکا، تھنک ٹینکس میں جانے کا، طرزحکومت کا جائزہ لینے کا موقع ملا، وہاں دوسری جانب امریکی معاشرے کو اور وہاں دستیاب زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ کسی اجنبی معاشرے میں زندگی کے سفر کو از سر نو شروع کرنا کھیل نہیں، چالیس برس کی عمر میں یہ ایک مشکل کام ہو گا۔
یہ بھی اندازہ ہوا کہ پاکستان میں زندگی ذرا آسان ہے، اور اگر آپ یہاں اوسط سطح کی کامیابی بھی حاصل کر لیں تو چھوٹے موٹے خواب آسانی سے پورے ہو سکتے ہیں۔ اور یہ بھی پتا چلا کہ جس ملک میں آپ پیدا ہوئے ہوں، جوان ہوئے ہوں، جس کی مٹی سے تعلق کی کوئی ڈور بندھ چکی ہو، وہاں تعلقات اور رشتہ داریوں اور دوستیوں کی کوئی ایسی محفوظ اور آرام دہ فضا بن جاتی ہے جس کے باہر سانس لینا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ یہ سب جان لینے کے بعد فیصلہ کرنا آسان تھا۔ مجھے اس وقت یہ نہیں معلوم تھا کہ چند ماہ بعد ہی دو طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے جا ٹکرائیں گے اور دنیا یکسر تبدیل ہو جائے گی۔
پاکستان، کسی نہ کسی طرح میرے خوابوں کی داستان ہے۔ کچھ ایسے خوابوں کی، جن کو تعبیر کی منزل مل گئی۔ اور کچھ ایسے خوابوں کی، جو مجھے کبھی پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔ لیکن ان کے درمیان ہی وہ خواب ہیں، جو امید کی دہلیز پر کھڑے ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ شاید ہماری نسل نہ سہی، اگلی نسل ہی ان کو پورا ہوتے دیکھ لے گی۔ بلا سے ہم نے نہ دیکھا، تو اور دیکھیں گے۔ فیض صاحب نے کہا تھا۔ فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم۔
اسی موسم کی آرزو میں مجھ جیسے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ پاکستان کو دنیا سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔ دوسرے ملکوں نے سو ڈیڑھ سو سالوں میں بہت محنت اور بے شمار تجربات کے بعد جو نظام تخلیق کئے ہیں اور اپنے ملکوں میں لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنے کے جو فارمولے ایجاد کئے ہیں، وہ ہم جیسے ملکوں کے سامنے کھلی کتاب کی طرح رکھے ہیں۔ اپنی مرضی کا نظام منتخب کیجئے اور نافذ کر دیجئے۔
میں نے برطانیہ میں دیکھا کہ عوام کو نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ذریعے علاج معالجے کی سہولت مفت ملتی ہے۔ کیوں ملتی ہے؟ کیونکہ شہری زندگی بھر بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ہیلتھ انشورنس رکھتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ایک جانب لوگ پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں، دوسری طرف حکومت کڑی نظر رکھتی ہے کہ کوئی ٹیکس چوری نہ کرے۔ یہی ٹیکس رقم لوگوں کے علاج کے لئے، بہترین ہسپتالوں کا پورا نیٹ ورک بنانے کے لئے، بے روزگاری الاؤنس دینے کے لئے، بے گھروں کو رہائش فراہم کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ کیا یہی بنا بنایا نظام پاکستان میں نافذ کرنا کوئی مشکل کام ہے؟ میرے حساب سے تو یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔ صرف دو شرائط ہیں۔ پہلی یہ کہ لوگ پورا ٹیکس دیں اور کوئی سیکٹر ٹیکس سے مستثنٰی نہ ہو۔ اور دوسری یہ کہ حکومت پورا ٹیکس وصول کرنے کا موثر نظام بنائے، اس ٹیکس رقم کے ایک حصے کو عوام پر خرچ کرنے کا فیصلہ کرے اور معاشی مینجمنٹ کا فیوچرسٹک نظام قائم کرے۔
ایسا ہی خواب میں امن و امان کے بارے میں دیکھتا ہوں۔ وہ امن و امان نہیں، جس کا تعلق دہشت گردی یا خود کش حملوں سے یا ریاست کے خلاف بغاوت سے ہوتا ہے، بلکہ وہ امن و امان، جو عام لوگوں کو اور عورتوں کو تحفظ کا احساس فراہم کرتا ہے۔ میں نے کئی خلیجی ممالک میں یہ نظارہ دیکھا ہے کہ رات کے تین بجے کوئی لڑکی اپنی شفٹ سے فارغ ہونے کے بعد، پورے اعتماد کے ساتھ کسی نیم اندھیری جگہ سے گزر کر اپنے گھر کی طرف جا رہی ہے۔ اسے کوئی خوف نہیں ہے۔ کوئی اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا، چھیڑ نہیں سکتا، اس کا تعاقب نہیں کر سکتا۔ اس لڑکی میں یہ اعتماد کہاں سے آیا؟ یہ اعتماد اولا" تو سخت قانون سے ملتا ہے۔
وہ لڑکی پولیس کو شکایت کر دے تو سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ملزم کا سراغ لگا کر اسے گرفتار کر لیا جائے گا، اسے سزا دے دی جائے گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ کئی معاشرے، تعلیم کے عام ہونے سے، روشن خیالی کے فروغ سے اور شعور کی سطح بلند ہونے سے اخلاقی طور پر بہتر معاشرے بن جاتے ہیں جہاں عورتوں سمیت ہر طبقے کا احترام کیا جاتا ہے۔ سو میں یہ خواب ضرور دیکھتا ہوں کہ میری بیوی یا بیٹی یا بہن، پاکستان کے شہروں میں بھی اسی طرح اعتماد سے، بلا خوف پھر سکیں، کاریں اور موٹر سائیکلیں چلا سکیں، زندگی کی ہما ہمی میں مصروف رہ سکیں جیسے ہمارے پڑوسی ملکوں میں عورتیں رہتی ہیں۔
دو چار برس ادھر کی بات ہے، مجھے ملائشیا میں کسی نے ایک عجیب بات بتائی۔ یوں سمجھئے، پاکستان کے بارے میں ایک نیا خواب دیکھنے کا راستا دکھایا۔ ہم کوالالمپور گئے تو گھومنے پھرنے تھے، کچھ وقت بچا تو ایک بہت ہی دور پرے کی عزیز فیملی سے ملنے چلے گئے۔ وہ لوگ بھارتی نژاد مسلمان ہیں مگر لگ بھگ سو برس سے ملائشیا میں ہی رہتے آئے ہیں، پام آئل اور گڈز ٹرانسپورٹ اور نہ جانے کیا کیا کام کرتے ہیں۔ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ عرصہ ہوا، ہم بھارتی شہریت چھوڑ کر ملائشیا کی شہریت لے چکے ہیں کیونکہ ملائشیا کا پاسپورٹ بڑا طاقتور ہے۔
مجھے یہ بات ذرا عجیب لگی۔ استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ یہاں کا پاسپورٹ دنیا کے ٹاپ ٹین پاسپورٹس میں سے ایک ہے، کاروبار اور سفر میں اس سے بڑی آسانی ہوتی ہے۔ نجانے کیوں مجھے ان کی اس بات میں چھپے فخر پر غصہ آیا۔ میں نے دل میں سوچا، بھلا پاسپورٹ کی بھی کوئی طاقت ہوتی ہے؟ اور اگر ہوتی بھی ہے تو کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جس کا یوں تذکرہ کیا جائے؟ شاید میں کوئی بحث بھی کر ڈالتا، مگر وہ صاحب اتنے خلیق، ایسے خوش مزاج اور اتنے منکسر تھے کہ میری ہمت نہ پڑی۔
اس رات میں نے چیک کیا تو پتا چلا کہ وہ صاحب سچ کہہ رہے تھے۔ ایک ہوتی ہے گلوبل پاسپورٹ پاور رینکنگ۔ پاسپورٹ انڈیکس والے دنیا بھر کے پاسپورٹس کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ یعنی یہ چیک کرتے ہیں کہ اس پاسپورٹ کے ذریعے کتنے ملکوں میں کھڑے کھڑے، ویزا لئے بغیر جا سکتے ہیں، کتنے ملکوں میں پہنچنے کے بعد ائیرپورٹ پر ہی ویزا لگا دیا جاتا ہے، اور کتنے ممالک کے لئے ویزا لینا پڑتا ہے۔ ملائشیا کا پاسپورٹ واقعی ٹاپ ٹین میں تھا، وہ 115 ممالک میں ویزا لئے بغیر جا سکتے تھے، 43 ملکوں میں انہیں ارائیول پر ویزا دے دیا جاتا تھا۔ صرف چالیس ممالک ایسے تھے جہاں جانے کے لئے پہلے ویزا لینا پڑتا تھا۔ اس درجہ بندی میں بھارت 70 ویں نمبر کے آس پاس تھا، پاکستان 90 کے آس پاس۔
پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز کو 157 ممالک کا ویزا لینا پڑتا تھا ، محض چالیس کے قریب چھوٹے ملک ایسے تھے جن میں وہاں پہنچنے کے بعد ویزا لگا دیا جاتا تھا یا ویزا درکار ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس دن کے بعد سے میں یہ خواب بھی دیکھتا ہوں کہ ہمارا پاسپورٹ بھی طاقتور ہو جائے، ٹاپ ٹین نہ سہی، ٹاپ ففٹی میں آ جائے۔ ظاہر ہے، یہ پاسپورٹ کی طاقت نہیں ہوتی، یہ ملک کی طاقت ہوتی ہے جو پاسپورٹ کو طاقت بخشتی ہے۔ معاشی طاقت، صنعتی طاقت، زرعی طاقت، سسٹمز کی طاقت، ان سب سے ہی ملک کی طاقت تشکیل پاتی ہے۔
اسی طرح ایک خواب مجھے ترکی میں ملا۔ لیکن یہ شاید سب سے الگ، سب سے بڑا، سب سے ہمہ گیر خواب تھا۔
استنبول سے ملاقات ہوتے ہی آپ جان لیتے ہیں کہ پاکستان کے لئے اگر کوئی فارمولا بنایا جائے تو اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہوں۔ یہ کوئی منفرد، شان دار معاشرہ ہے جو محبت، رواداری، وسیع القلبی، روشن خیالی کو گوندھ کر بنایا گیا ہے۔ ترکی نے، ایک مسلمان ملک نے، یہ کام اس خوبی سے کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ استنبول جا کر مجھے پتا چلا کہ اپنی تاریخ اور اپنے کلچر پر کیسے فخر کیا جانا چاہئے۔ اپنے تہذیبی آثار کو اور اپنے ماضی کو کیسے سنبھال کر، سجا سنوار کر، اپنی اگلی نسلوں کے لئے بھی اور دنیا کے لئے بھی محفوظ رکھنا چاہئے۔ ساری دنیا آج رقص درویش سے اور مولانا روم سے آشنا ہے۔ قسطنطنیہ کی جنگ کا قصہ جانتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ ادیب اورحان پامک کو جانتی ہے جس نے استنبول کو عالمی اسٹیج پر پہنچا دیا ہے۔پھر وہ روشن خیالی اور رواداری ہے ،جس کی بدولت کوئی پانچ کروڑ سے زیادہ سیاح ہر سال وہاں جاتے ہیں۔
مسلمان ملکوں میں بالعموم یہ رواداری کم ہی نظر آتی ہے۔ ترکی نے اپنی مسلم شناخت کو بھی زندہ رکھا ہے اور عالمی اصطلاح کے مطابق اسے ٹورسٹ فرینڈلی بھی بنایا ہے جس کی وجہ سے وہاں ہر مذہب، ہر ملک، ہر کلچر کے لوگ جاتے ہیں، بار بار جاتے رہتے ہیں۔ سرکاری طور پر ترکی ایک سیکولر، جمہوری ملک ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ لگ بھگ 99 فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں اب بھی دو ڈھائی لاکھ عیسائی رہتے ہیں، پچیس ہزار سے زیادہ یہودی زندگی بسر کرتے ہیں۔
ایک خوش حال معاشرہ، مہمان نواز لوگ، ترقی کرتی معیشت، ملک کو آگے لے جانے والی قیادت۔ اس سرزمین کو دیکھ کر میرے دل میں اس خواب نے جنم لیا کہ پاکستان کو بھی اسی طرح ترقی کی جانب سفر کرنا چاہئے، ایسا ملک بننا چاہئے جو ضرورت کی ہر چیز خود بناتا ہو، جس کی ائیر لائن دنیا کے تین سو سے زیادہ شہروں تک مسافروں کو لاتی اور لے جاتی ہو، جس کے شہروں میں کروڑوں لوگ میٹرو سے آتے جاتے ہوں، جو اپنے سمندر کو بھی بے شمار عالمی سیاحوں کے لئے پرکشش بنا سکے، جہاں بارہویں جماعت تک معیاری تعلیم مفت اور لازمی ہو، شہریوں کے لئے علاج مفت ہو، ادب اور تھیٹر، موسیقی اور رقص، آرکیٹیکچر اور سینما بھی فروغ پائیں۔ ترکی نے مجھے ایک خواب دکھایا جس میں بہت سے خواب یکجا دکھائی دیتے ہیں۔
مجھ سے محض دس سال بڑے پاکستان کے لئے، جو آج الحمد للہ 75 سال کا ہو گیا ہے، میں ہی نہیں، خیبر سے کراچی تک اور گوادر سے خنجراب تک بسنے والے کروڑوں لوگ اسی طرح کے خواب دیکھتے ہیں۔ کچھ ناقابل حصول ، کچھ بالکل تعبیر کی سرحد پر کھڑے، اور کچھ نئی امیدوں سے ہم آغوش۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ یہ خواب پورے ہوں یا نہ ہوں، پاکستان کی کشش کم نہیں ہوتی۔
میں آج بھی کسی دوسری سرزمین پر جا بسنے کے تصور سے لرز جاتا ہوں۔ ہفتے دو ہفتے تک نئے دیار، نئے شہر، اور ان میں چھپے نئے اسرار اپنی طرف کھینچنے ہیں ۔ مگر اس کے بعد کوئی بے چینی شروع ہو جاتی ہے، کوئی زمین اپنی جانب بلانے لگتی ہے، کوئی آنگن، کوئی قریہ، کوئی دھرتی یاد آنے لگتی ہے۔ اور جب کسی شب بحیرہ عرب سے گزرنے کے بعد طیارے سے زمین، اور لاکھوں روشنیاں جگمگ جگمگ کرتی نظر آنے لگتی ہیں تو دل بے سبب خوشی سے بھر جاتا ہے۔