تو یہ سب کیا ہے ’’آرٹیکل 370کی تنسیخ اور وادیٔ کشمیر لداخ، جموں سارے علاقہ کو بھارتی تسلط کے تحت لانے پر بطور احتجاج جمع طلبا نے بنگلور میں اپنے بہت ہی مشفق اور دوٹوک بات کرنے والے استاد تمگھنا ہلدار سے پوچھا، وہ سب عظیم پریم جی یونی ورسٹی بنگلور کے خوب صورت لان پر آج کشمیر کا درس لے رہے تھے۔ الجزیرہ کے مطابق تمگھناہلدار اسکول آف آرٹس اینڈ سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ پروفیسر نے کچھ دیر گھاس کے تنکوں کو ایک جگہ کیا۔ کچھ سوچا اور پھر آہستہ سے بولے…’’ آرٹیکل 370کا نفاذ کشمیر پر سامراجی تسلط کا ایک اور باب ہے۔ یہ طویل کہانی ہے‘‘… یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا سے ڈاکٹریٹ کرنے والے صاحب نظر نے ایک طویل سانس لی۔’’کشمیریوں کی جدوجہد بھی 1947ء کے بعد سے نہیں 1589ء سے جاری ہے لیکن ڈوگرا راج کے بعد شدید ترین اور منظم ہوگئی۔‘‘
تب سے اسکول آف آرٹس کے باہر سے آنسو گیس کی بو آنے لگی، وہاں بیٹھنا مشکل ہوگیا ۔ لوگوں نے نکل کر دیکھا، مودی حکومت کے کشمیر پر قبضہ کے خلاف بائیں بازو کے طلبا و طالبات کی بڑی تعداد نعرہ زن تھی اور پولیس ان پر آنسو گیس برسا رہی تھی۔ پروفیسر ہلدار کے شاگرد بھی ان میں شامل ہوگئے۔
یہ دیکھنا لاحاصل ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر لداخ میں جدوجہد آزادی کب شروع ہوئی لیکن یہ ریکارڈ پر لانا واقعی ضروری ہے کہ اس جنت ارض پر شیطانی تسلط کب اور کیسے شروع ہوا۔ یہ ڈوگرے دراصل ہندو راجپوت تھے۔ جنہوں نے 1846ء میں وادیٔ کشمیر پر قبضہ کیا ان کا تعلق شمالی ہندکے اس قبیلے سے تھا جس میں رام جی پیدا ہوئے۔ گلاب سنگھ پہلا ڈوگرا راجا تھا اور ہری سنگھ آخری، ہری سنگھ ہی وہ بد نام شخص ہے جس نے کشمیر کو ٹکوں کے عوض انگریزوں کو فروخت کردیا۔ ڈوگروں نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہاکردی مسلم آبادی اس خطے میں 90فیصد سے زیادہ تھی لیکن انہیں کوئی حقوق نہیں تھے۔ 19سال تک ظلم اور ظالمانہ قوانین سہنے والے کشمیری آخر اس وقت اُٹھ کھڑے ہوئے جب کشمیریوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔
کشمیر میں بے گار لینے یعنی جبری مشقت کا نظام صدیوں سے رائج تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ صرف اس ایک نظام نے کشمیری کسانوں کی وادی ہی نہیں جموں میں بھی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اس کا آغاز 883ء میں کنگ سامکرارن نے کیا اور آبادی سے اُجرت کے بغیر کام لینے کا نظام شروع کیا ۔ لوگوں کی بڑی تعداد کو سامان ڈھونے اور حکمرانوں کی خدمت پر مجبور کیا جاتا تھا۔ ایک بڑی تعداد حکمرانوں اور ان کے مہمانوں کا سامان پہاڑوں پر لے جایا کرتے تھے اور انہیں اس کا معاوضہ بھی نہیں ملتا تھا یا پھر بہت کم پیسے ملتے تھے۔
انگریزوں کے زمانے میں سلسلہ بہت بڑھ گیا کیونکہ یورپ برطانیہ سے بڑی تعداد میں سیاح بھی آنے لگے جن کے لئے مزدوری کی ضرورت اور بڑھ گئی۔ یہ سلسلہ گلگت تک پہنچ گیا۔ وہاںبھی انگریزوں نے بے گار لینی شروع کردی۔ گلگت میں تو بہت سے مزدور واپسی پر راستے میں بھوک پیاس اور موسم کی شدت سے ہلاک ہوئے اور کبھی واپس نہیں آئے۔ کسانوں کو سڑکوں کی تعمیر پر مجبور کیاگیا اور دوسروں کو شاہی خاندان کے لئے جنگل سے لکڑیاں کاٹنے کے لئے …
یہ وہ دور تھا جب کسانوں، مزدوروں اور عا م شہریوں نے اپنی جدوجہد شروع کی۔ یہ جدوجہد ’’راج‘‘ کے لئے خطرناک تھی اور اسے مزید تشدد سے دبانا ممکن نہیں تھا لہٰذا 1916ء میں پنڈت، پیرزادے، سید، سکھ ، اعلیٰ افسروں کے نوکروں، جاگیرداروں، ذیل داروں، نمبرداروں، پٹواریوں، پجاریوں، امام، معذوروں، عورتوں اور مہاراجہ کے عملے کو بے گار سے استثنیٰ دے دیا گیا۔ اس کے بعد یہ نظام بتدریج ختم ہوتا گیا اور آزادی سے قبل کشمیریوں نے اس نظام سے بڑی حد تک آزادی حاصل کرلی۔ 1925ء میں اسے ’’کارِسرکار‘‘ کے دوسرے نام سے متعارف کرایا گیا۔ لیکن یہ اتنا زیادہ خوف ناک نہ تھا۔
بے گار، اس کا مختصر ترین پس منظر اس لئے بیان کرنا ضروری تھا کہ کشمیری غلاموں کو غلامی کے ساتھ ساتھ اور کن مسائل نے تحریک پر مجبور کیا۔
چہ ارزاں فروختند
علامہ اقبال نے 1846ء کے بدنام رسوائے زمانہ ’’بیعنامہ امرتسر‘‘ یا معاہدہ امرتسر سے دل گیر ہو کر کہا تھا۔
دہقان دشت وجود خیاباں فروختند
قرضے فروختند وجہ ارزاں فروختند
یہ شعر صرف ایک بدنام، رسوائے زمانہ معاہدہ امرتسر یا بیعنامہ امرتسرکے حوالے سے نہیں بلکہ جموں و کشمیر کو ایک سال میں دو بار فروخت کرنے پر اقبال کے دل سے پھوٹنے والے لہو کے بارے میں ہیں۔ 1845ء میں سکھوں نے ایک کروڑ روپے کے عوض انگریزوں کو فروخت کیا پھر چالاک انگریز نے یہ دیکھتے ہوئے کہ کشمیری بیدار ہو رہے ہیں اسے راجہ گلاب سنگھ ڈوگرا کے ہاتھوں 75لاکھ میں فروخت کردیا۔ انگریز کو احساس ہوگیا تھا کہ کشمیری اب گھٹنوں کے بل نہیں بیٹھیں گے، نہ کارِ سرکار اور بیگار پر مجبور ہوں گے۔
اس شعر کو بار بار پڑھیں اور غور کریں کہ تاریخ میںجس طرح قوموں کوفروخت کیاگیا اس میں کشمیر ایک ایسی المناک مشال ہے جس کودیکھ کر ہی دل بیٹھ جاتا ہے۔ یہ کشمیر فروخت ہوا تو اس کے دریا، ندی، چشمے، جھیلیں، بہار، سبزہ زار، گھر، ا نسان، قبرستان، سب ہی فروخت کردیئے گئے۔ اگر حساب لگائیں تو گلاب سنگھ تھا ڈوگرا کو ایک کشمیری پونے تین روپے میں پڑا۔ یہ وہی گلاب سنگھ تھا جس کو لاہور کی سکھ ریاست کا درباری تھا۔ 1809ء میں یہ شخص مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں تین روپے کی تن خواہ پر نوکر ہوا براہمن چاپلوس تھا کہ جلد ہی یہ رنجیت سنگھ کی نظروں میں ایسا آیا کہ اسے 12ہزارروپے کی جاگیر کے ساتھ 90گھوڑوں کی کمان بھی دے دی گئی۔
یونی ورسٹی آف ہانگ کانگ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ نذیر لون نے’’ امرتسر سیل ڈیڈ‘‘ کے عنوان سے جو مقالہ لکھا ہے اس میں گلاب سنگھ کو ایشیا کا سب سے بڑا ’’بدمعاش‘‘ قراردیا گیا ہے اور یہ خطاب گلاب سنگھ ڈوگر کو ایسٹ انڈیا کمپنی کو گورنر جنرل سرہندی بارڈنج نے دیا تھا۔ یہ قابل ذکر بات ہے کہ گلاب سنگھ کو راجہ بنانے کی خود برطانوی راج میں ممانعت شروع ہوگئی تھی لیکن بقول سرہندی سب سے بڑے بدمعاش کوہی راجہ بنایا جانا مناسب مجبوری تھا۔
راجہ گلاب سنگھ نے پونچھ میں اپنی بدمعاشیاں دکھائیں اور شدید طاقت کا استعمال کرکے مسلمانوں کی تحریکوں کوکچل دیا۔ گلگت کا معاملہ بالکل مختلف رہا۔ گلگت ایجنسی بھی گلاب سنگھ کو بیچی گئی تھی لیکن ڈوگرا حکومت کبھی اس پر مؤثر حکمرانی قائم نہیں کرسکی۔ 1852ء میں تو گلگت کے مجاہدین نے ڈوگروں کو اپنے علاقے سے نکال ہی دیا تھا۔
گلاب سنگھ اور اس کے پر یوار نے سو برس سے زیادہ حکومت کی کشمیریوں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے۔ تمام زمینیں، گلاب سنگھ کے نام منتقل ہوگئیں۔ اب کشمیری کسان زمین کا مالک نہیں بلکہ زمین دار گلاب سنگھ کا کوٹہ ہو گیا۔ زمین پر کام کرنے کے عوض بھی اسے ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ ان تمام مظالم کا نشانہ مسلمان کاشت کار تھے۔ اس پس منظر میں کاشت کاروں کا احتجاج شروع ہوا۔ پھر 13جولائی 1931ء کا وہ المیہ سامنے آتاہے جس کو لکھتے ہوئے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سری نگر سینٹرل جیل کے باہر کاشت کار تحریک کے عبدالقدیر کی گرفتاری اور مقدمے کے بعد سزا سننے کے لئے ایک مجمع تھا۔ اذان کا وقت تھا ،اذان شروع ہوئی تو گورنرنے سب کوگرفتارکرنے کا حکم دیا۔اذان دینے والے کو گولی ماری گئی تو دوسرے نے اذان شروع کردی اذان مکمل ہوئی تو 20؍افراد شہید ہوچکے تھے۔ یہی وہ یوم شہداء ہے جو کشمیری پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔
آزادی مگر تقسیم ہند کا ایجنڈا نامکمل
14؍اگست کو پاکستان نے اور 15؍اگست کو بھارت نے آزادی حاصل کی لیکن یہ آزادی خون میں نہائی ہوئی تھی۔ ہر طرف لہو تھا۔ قتل ِ عام تھا۔ نقل مکانی کرنے والے قافلے دونوں طرف لوٹے جا رہے تھے ۔
جموں میں ہندو اور سکھوں نے کتنے مسلمان شہید کئے۔ اس کا اندازہ نہیں، ایک عرصے بعد 16؍جنوری 1948ء کو برطانوی صحافی ہارس الیگزینڈر نے لکھا کہ صرف جموں میں دو لاکھ افراد کو تہہ تیغ کیاگیا۔ میں نے اس صورتحال پر تفصیلی مطالعہ کیا ہے اور لوگوں سے کئی انٹرویو کئے ہیں ان میں کشمیری اور بھارتی بھی شامل ہیں۔ 10؍اگست 1948ء کو دی ٹائمز نے لکھا کہ دو لاکھ 37ہزار مسلمانوں کو دھوکا دے کر جموں میں یا جموں کے باہر پنجاب میں سکھوں اور ہندوئوں نے قتل کیا۔ ان کو یہ دھوکا دیا گیا کہ وہ پاکستان لے جائے جا رہے ہیں۔ اکثریت کو سرحد پارکرنے پر مجبور کرتے ہوئے مارا گیا۔ اس قتل ِعام کی نگرانی ڈاکٹر مہاراجہ خود کر رہا تھا۔ یہ سب کچھ مہاراجہ کے بھارت سے جعلی الحاق سے 9دن قبل شروع ہوا۔
اس قتل ِ عام کے نتیجے میں جموں میں مسلمانوں کی تعداد کم ہوگئی۔ پہلے وہ 61فیصد تھے لیکن اس المیے کے بعد وہ اقلیت میں آگئے۔ لارڈمائونٹ بیٹن دہلی میں تھا لیکن اس نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ برطانوی حکومت نے بھی کوئی ردعمل نہیں دیا۔ اصل مجرم لارڈ مائونٹ بیٹن تھا جس نے جموں و کشمیر پر ریاستوں کے الحاق کا فارمولا نافذ نہیں کیا بلکہ ریڈ گلف کو بھی مجبور کیا کہ وہ کشمیر کو واحد راستہ گرداس پور بھارت کو دے دے۔اس قتل عام پر صرف گاندھی جی کا ایک تبصرہ ملتا ہے کہ جموں کے ہندو سکھوں اور بیرونی عناصر نے مسلمانوں کا قتل ِ عام کیا۔28؍اکتوبر 1947ء کو بھارت سے ہری سنگھ جعلی الحاق کرتا ہے، اس پر تاریخ بھی غلط پڑی ہے اور پھر ساتھ ہی بھارتی فوج کو ایئرفورس سرینگر لانا شروع کر دیتی ہے۔ شیخ عبداللہ کو عبوری حکومت بنانے کا حکم ملتا ہے۔ مرکزی فوج کشمیر میں داخل ہو جاتی ہے۔ اور وہ قتل ِ عام شروع ہوتا ہے جس کو تاریخ میں بھی نظرانداز کیا گیا۔ یہ اکتوبر1947ء سے نومبر تک جاری رہا۔ برطانوی صحافیوں نے اسے نسل کشی، لسانی قتل اور Cleanring قراردیا اس کا طریقہ ساز منصوبے کے تحت حملے، لوٹ مار، آگ اور عصمت دری تھی۔
پاکستان اور ریڈگلف
پاکستان نے ریڈ گلف ایوارڈ کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ کہتے ہیں کہ نہروجی کے ’’چارم‘‘ سے متاثر، مائونٹ بیٹن کی اہلیہ نے اپنے شوہر سے کہا تھا کہ وہ گرداس پور تو بھارت کو ہی دے دیں۔ اور یہی ہوا ساتھ ہی جعلی الحاق نے ریڈ گلف کے فارمولے کو ہی شکست دیدی۔ کلدیپ نیئر نے ہم سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ریڈ گلف تو لاہور بھی بھارت کو دینے پر تیار تھا۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت جن ریاستوں اور رجواڑوں میں کئی ایک مذہب کی اکثریت تھی وہ اس ملک سے الحاق کے حق دار تھے۔ جونا گڑھ کے راجہ نے اگرچہ پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا لیکن بھارت نے یہ کہہ کر فارمولے کی خلاف ورزی کی کہ یہ تو ہندو اکثریتی علاقہ ہے۔
حیدر آباد دکن نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا جوکچھ دنوں پاکستان کا حصہ بھی رہی لیکن بھارت نے پولیس آپریشن کرکے اس پر قبضہ کر لیا جواز یہ تھا کہ یہ بھارت کا ہی حصہ ہے۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد میں جو کچھ ہوا اس کے بعد جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ بننا ہی چاہئے تھا وہاں مسلم اکثریت تھی لیکن کہاگیا کہ راجہ ہری سنگھ نے الحاق کر لیا ہے اور اس پوزیشن کو وائسرائے نے بھی تسلیم کر لیا یوں برطانوی حکومت نے نفرت ،جنگ اور پسماندگی کا ایسا بیج بو دیا جو آج بھی کانٹے اُگا رہا ہے۔
نہرو نے استصواب کا مطالبہ کیا
ایک عام غلطی یہ کی جاتی ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر میں استصواب ِ رائے کا مطالبہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب مقبوضہ کشمیر جموں اور کشمیر میں زبردست عوامی تحریک اور قبائلیوں کے دھارے سے گھبرا کر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اقوام متحدہ گئے وہاں اس موضوع پر زبردست بحث ہوئی، پاکستان نے اس وقت غلطی کی اور تقسیم ہند کے فارمولے کی بنیاد پر فیصلہ لینا تھا کہ نہر و نے مناسب وقت پر جلداز جلد مقبوضہ جموں و کشمیر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کیا تو پاکستان اس جال میں آگیا اور اس نے مختلف کمیٹیوں اور استصواب ِ رائے کمیشن کا قیام کی منظوری کے ساتھ ہی اس تجویز کو قبول کرلیا۔
اس صورتحال میں جو لشکر اور فوج جہاں تھی وہاں رُک گئی او ر جنوری 1949ء میں لائن آف کنٹرول طے کی گئی ۔ اس موقع پر قائد اعظم نے جموں وکشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قراردیا۔ اُدھر نہرو نے کہاکہ ’’کشمیری جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہوگا۔ لیکن کشمیریوں نے اس سے بے ایمانی دیکھ لی تھی اور وہ اندر ہی اندر منظم ہونے لگے تھے۔ تحریک شروع ہونے لگی تھی۔ اس صورتحال میں نہرو نے اپنے خلوص کا یقین دلانے کیلئے ریاست جموں و کشمیر کے لئے آرٹیکل 370 کا اعلان کیا۔ یہ آئین میں شامل کیا گیا اور اس کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کو کئی معاملات میں خود مختاری دی گئی یہ بھی طے کیا گیا کہ غیر کشمیری، وہاں جائیداد خرید سکیں گے نہ شہری بن سکیں گے۔
اس آئینی گنجائش نے کشمیر کی مقبوضہ حیثیت سے تو برقرار رکھی لیکن یہ طے ہوگیا کہ جموں و کشمیر میں سکھ اور ہندو جائیداد خرید سکیں گے نہ انہیں ووٹ کا حق ہوگا۔ ڈومیسائل اور دیگر دستاویزات بھی ان کے لئے نہیں تھیں۔ اُردو سرکاری زبان ٹھہری۔ مساجد کا احترام، تہواروں کا انتظام بھی متعلقہ انجمنوں کے حوالے کر دیا گیا۔
لیکن بھارت نے استصواب رائے کے لئے فوری اقدامات کرنے کے بجائے بہانے بنانے شروع کر دیئے۔ یہ مطالبہ رکھا کہ قرارداد کے مطابق پاکستان پہلے اپنی فوج واپس لے کر جائے لیکن پاکستان ایسا اسی وقت کرتا جب بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں استصواب رائے کے لئے راہ ہموار کرنے کے اقدامات شروع تو کرتا۔
یہ ذہن میں رکھا جائے کہ ہری سنگھ کا بھارت سے الحاق نامہ جعلی ثابت ہو چکا ہے وہ آزاد جموں و کشمیر چاہتا تھا اس نے پاکستان سے بھی Stand Still Agreement کیا تھا لیکن بھارتی فوج کے سرینگر اُترنے کے بعد زبردستی الحاق نامہ تحریر ہوا اور اس پر پچھلے ہفتے کی تاریخ ڈالی گئی۔ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ نے کئی بار اس کا ذکر کیا اور محققین نے بھی یہی نتیجہ اَخذا کیا۔ ایک بار جنگ بندی ہوگئی تو نہرو کا کشمیری گلاب پھر ان کی شیروانی پر سج گیا۔ یہ دَور ہندو چینی بھائی بھائی کا تھا۔ جس سے بھارت کے بے حد قریبی تعلقات تھے۔ لیکن بھارتی توسیع پسندانہ عزائم نے پُرامن چین کو بھی پریشان کر دیا اور دونوں ملکوں میں وہ لڑائی ہوئی جس میں بھارت کو سخت ترین نقصانات اور پھر شکست برداشت کرنی پڑی۔ یہ لڑائی 1959ء میں بھارتی پشت پناہی سے تبت میں چین کے خلاف بغاوت کے بعد ہوئی۔ دلائی لامہ چینی کارروائی کے بعد بھارت آ گیا تو بھارت نے اسے سیاسی پناہ دے دی۔ بھارت کو بڑی مار پڑی۔ ان گنت بھارتی مارے گئے۔
املاک تباہ ہوئیں، بھارت نے ساری قوت جھونک دی، نہرو نے فضائیہ تک استعمال کی۔ 20اکتوبر 1962ء کو شروع ہونے والی یہ جنگ 21 نومبر تک جاری رہی۔ ایک مہینہ ایک دن میں بھارت گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ چینی فتح بہت واضح تھی چین نے آکسائے چن (اقصائے چن) شمال مشرقی سرحدی ایجنسی اور آسام کے اردگرد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ چین نے جن علاقوں پر 1960ء میں دعویٰ کیا تھا ان پر اس کا کنٹرول اور مستحکم ہوگیا۔ بھارت کے 3029فوجی مارے گئے جن میں سے 1696 کو ’’لاپتہ‘‘ قرار دیا گیا۔ 3968جنگی قیدی بنے۔ چین کے مطابق بھارت کے 4897مارے گئے اور 3968 کو قیدی بنایا گیا۔
جب مواقع گم ہوگئے!
پاکستان نے کشمیر کی آزادی کا پہلا موقع 1948ء میں چھوڑا جب قبائلی اور فوج اننت ناگ کیا بلکہ سری نگر کے قریب تک پہنچ گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دُوسرا موقع 1962ء میں چھوڑا جب چین نے پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹوکو بتایا کہ کشمیر سری نگر تک خالی پڑا ہے کیونکہ چین نے اس کی پوری فوج کو جنگ میں کھینچ لیا ہے۔ ایوب خان کو جب یہ فوری ’’اطلاع‘‘ ملی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم پھنسے ہوئے دُشمن پر عقب سے وار نہیں کرتے۔ بات واضح تھی۔ صدر ایوب خان کو ’’فون‘‘ آ گیا تھا بھارت اس جنگ کے بعد بہت شکست خوردہ تھا۔
ایوب خان بھی جلد از جلد بھارت سے مذاکرات چاہتے تھے کیونکہ موقع ہاتھ سے نکلنے کی خبر عوام تک پہنچ گئی تھی۔انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھارت سے مذاکرات کی ہدایت کی۔ 1962ء ہی میں پاک بھارت وزرائے خارجہ بھٹو اور سورن سنگھ کے درمیان مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے 5رائونڈ ہوئے لیکن ماہرین پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ چین سے مار پڑنے کے بعد بھارت یقیناً مقبوضہ کشمیر پر کوئی رعایت نہیں دے گا ورنہ نہرو کی ساکھ ختم ہو جائے گی۔ ان مذاکرات کو ’’بے نتیجہ جیسی توقعات‘‘ قرار دیا گیا۔
پہلا دَور دسمبر 1962ء میں پنڈی میں ہوا۔ بھارت نے وادی کا 1500 مربع میل کا علاقہ پاکستان کو دینے کی پیشکش کی لیکن اس دوران پاکستان اور چین کے درمیان عبوری معاہدہ ہوا جس کے باعث بھارت یہ کہہ کر واک آئوٹ کر گیا کہ چین نے تو ہمارے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
بھٹو سورن سنگھ مذاکرات کا دُوسرا دور جنوری 63ء میں ہوا۔ پاکستان نے آبادی کی بنیاد پر تقسیم کا فارمولا پیش کیا جبکہ بھارت وادی کی تقسیم کا فارمولا لے کر آیا لیکن پھر حالات اور رائے عامہ اس قدر بھڑک گئی کہ یہ مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے۔ تیسرا دور فروری 1963ء میں ہوا اس سے قبل کلکتہ میں کچھ نقشے بھارتی سفیر کی فائل سے گر پڑے جن میں واضح تھا کہ یہ مذاکرات بھارت امریکی رہنمائی میں کر رہا ہے۔ ان نقشوں نے حالات مذاکرات سے قبل ہی خراب کر دیئے۔ بھارت وہی 1500 مربع میل کی تجویز لایا لیکن پاکستان پھر پورے کشمیر کا مطالبہ کیا۔
12 مارچ 1963ء میں کلکتہ مذاکرات میں یہ واضح ہوگیا کہ مصالحت یا معاہدہ کا کوئی امکان نہیں لہٰذا بھارت کے وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ نے مذاکرات کی معطلی کا اعلان کر دیا جس کی بہرحال امریکا اوربرطانیہ نے مخالفت کی۔
امریکی مبصرین نے اس موقع پر کہا کہ صرف ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کا اُصول ہی تعطل دُور کر سکتا ہے۔ 1962ء کی بھارتی شکست، بھٹوسورن سنگھ مذاکرات کی ناکامی نے دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھا دی۔ پاکستانی دفتر خارجہ بہت فعال ہوگیا۔ بھارت پر سفارتی دبائو بہت ہو گیا۔ اس کے رفیق سوویت یونین اور برطانیہ بھی ا س سے اختلاف کرنے لگے۔ دونوں ملکوں کی فوجوں کی نقل و حرکت کی اطلاعات آنے لگیں۔
جنگ ستمبر
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1948ء کے بعد دُوسری جنگ 1965ء میں شروع ہوئی۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد کشیدگی پہلے ہی موجود تھی۔ اپریل 1965ء سے سرحدی جھڑپیں شروع ہوئیں۔ پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کیا جس کا مقصد بقول بھارت دَراندازوں کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کرنا تھا۔ اس کے بعد پوری جنگ شروع ہوگئی۔ دُوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ سیالکوٹ، چونڈہ میں ٹینکوں کی سب سےبڑی جنگ ہوئی جس میں بھارت کو سنگین نقصان اُٹھانا پڑا۔ فضائیہ بھی استعمال ہوئی۔ اس کا آغاز بھارت نے کیا لیکن پھر پاکستانی فضائیہ نے برتری حاصل کر لی۔ پلواڑہ، پٹھان کوٹ، راجستھان جیسے علاقوں میں بھارتی طیاروں کو ہوائی اڈّوں پر ہی تباہ کر دیا گیا۔ یہ جنگ لائن آف کنٹرول سے انٹرنیشنل بائونڈری تک ہوئی۔
سندھ میں سر کریک کا علاقہ اس کا میدان بنا۔ پاکستانی فوج نے سرحد پار کر کے راجستھان میں کئی بھارتی ریلوے اسٹیشن (کھیم کرن وغیرہ) پر قبضہ کر لیا لیکن پھر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تو دونوں ملکوں نے فتح کا دعویٰ کیا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر211 کے تحت فوری جنگ بندی کی ہدایت کی گئی جس کے بعد ایوب خان، وزیراعظم لال بہادر شاستری سے ملاقات کے لئے سوویت یونین کی دعوت پر تاشقند چلے گئے۔ بھٹو ان کے ساتھ تھے۔ ان مذاکرات میں پاکستان نے میز پر جوبھی کامیابیاں تھیں وہ ہار دیں اور بھارت نے اپنا وزیراعظم کھو دیا۔
شاستری جی کمرے میں پُراسرار طور پر مردہ پائے گئے۔ بھارتی فوجی جرنیلوں نے 1965ء کی جنگ کو پاکستان کی شکست جبکہ پاکستانی فوجی ماہرین نے بھارتی شکست قرار دیا۔ دونوں ملکوں کے دانشوروں نے اسے ’’برابر میچ‘‘ قرار دیا جس میں بھارتی فضائیہ کو بہت نقصان ہوا جب کہ پاکستان نے کچھ زمین کھوئی۔ بھارت میں جو تحقیقات ہوئیں ان میں بھارتی انٹیلی جنس کو بھی ناکارہ قرار دیا گیا جس نے آپریشن جبرالٹر کی کوئی اطلاع نہیں دی۔اس جنگ میں دونوں ممالک کی افواج کی منصوبہ بندی میں خامیاں نظر آئیں ساتھ ہی یہ بھی احساس ہوا کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں۔
1965ء کی جنگ کے بعد کشمیر میں تحریک اور زیادہ منظم ہونے لگی اس دوران بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک ایسے نئے منصوبے پر عمل شروع کر دیا جو دراصل پاکستان کو لڑانے کے لئے تھا۔ نہرو کی بیٹی وزیراعظم اندرا گاندھی نے خود اس منصوبے پر عمل کے لئے کمیٹی کی سربراہی کی۔ اس کے لئے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے استحصال، بنگالیوں کی غربت، احساس کمتری، لسانی مسائل اور دیگر اُمور کو موضوع بنا کر ایک بڑی مہم شروع کی گئی۔ بنگالی ہندو دانشوروں نے قیامت مچا دی، نفرت پیدا کی، غلطی مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی بھی تھی جنہوں نے بنگالیوں کو ہمیشہ دُوسرے درجے کا شہری سمجھا۔ اس صورت حال کو ون یونٹ، سیلاب اور 1965ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کو بے سہارا چھوڑنے کا جرم کیا۔
شملہ معاہدہ
پاکستان شکست خوردہ اور کمزور تھا اس کی سفارتی پوزیشن بہت کم زور تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ میں اندراگاندھی کے سامنے جو نکات رکھے وہ اندرا کے لئے ناقابل قبول تھے۔ سورن سنگھ سے یہاں بھی بھٹو صاحب کا ذومعنی مکالمہ ہوتا رہا۔ سُنا ہے کہ یہ ایک موقع پر سورن سنگھ نے صدر بھٹو نے کہا کہ یہ رائونڈ بھی ناکام ہوگیا ہز ایکسیلنسی۔ جس پر بھٹو صاحب نے کہا۔ ’’سردار جی میں اب وزیر خارجہ نہیں صدر بھی ہوں۔‘‘یہ واضح چیلنج تھا۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد اندرا گاندھی بھٹو صاحب کو الوداع کہنے ان کی رہائش پر آئیں تو بھٹو صاحب کے کہنے پر دونوں لان پر آ گئے۔
وہاں دونوں دیر تک ٹہلتے رہے اور پھر وزیراعظم اندرا گاندھی نے حکم دیا کہ معاہدہ ٹائپ کیا جائے انہوں نے پاکستانی ڈرافٹ عملے کو دے کر کچھ تبدیلیاں کرائیں اور کہا کہ جلدی کریں۔ صدر صاحب کی واپسی کا وقت ہے۔ اس کے بعد وہ بے نظیر بھٹو سے گفتگو کرنے لگیں۔ یہ پہلا معاہدہ تھا جس کے لئے مذاکرات حیرت انگیز طور پر کامیاب ہوئے کچھ اسے بھٹو چارم کہتے ہیں کچھ اسے اندرا کی یہ سوچ کہ بس بہت ہوگیا ہم کب تک جنگی قیدیوں کا بوجھ برداشت کریں گے۔ شملہ معاہدہ کے تحت جن جامع مذاکرات کا ذکر بھی کبھی شروع کبھی معطل اور کبھی منسوخ۔ یہ بہترین مذاکرات تھے۔ اس میں پاکستان اور بھارت سیاچن، سر کریک جیسے مسائل حل کر کے مسودہ معاہدہ بھی تیار کر چکے تھے لیکن ان پر دستخط کبھی نہیں ہوئے۔ بھارت پیچھے ہٹتا رہا۔
کارگل
مذاکرات کو اس وقت ناقابل تلافی دھچکا لگا جب کارگل کا واقعہ ہوا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کارگل میں گھس آئی تھی۔ پاکستان نے اگرچہ اس سے انکار کیا لیکن بھارت نے بوفورز توپیں استعمال کیں فضائی حملے کئے اور سیکڑوں مجاہدین کو شہید کر دیا۔ پھر وزیراعظم نوازشریف اور صدر کلنٹن سے ملاقات میں پاکستان نے یکطرفہ طور پر کارگل سے واپسی اور ایل او سی کے احترام کا وعدہ کر لیا۔ اس عرصے میں دولت مشترکہ نے بھی پاکستان کی رُکنیت منسوخ کر دی۔ پاکستان اکیلا ہونے لگا لیکن پھر سنبھالا لے لیا۔ کارگل کے بعد ابھی پاک بھارت مذاکرات کے پھر شروع ہونے کی بات ہو رہی تھی کہ 18 ستمبر 2016ء کو اڑی میں بھارتی فوجی قافلے پر جو پوری طرح مسلح تھا ایک مبینہ حملہ ہوا (کہا جاتا ہے کہ یہ حملہ نہیں بھارتی فوجی کی اپنی غلطی ہے) جس میں 17بھارتی فوجی مارے گئے۔
بھارتی کہتے ہیں کہ حملہ آوروں نے حملے میں کلاشنکوف، گرنیڈ لانچر، گرنیڈ اور دستی بم استعمال کئے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر لگایا اور پاکستان نے بھارت کو مؤردِ الزام قرار دیا۔ ابھی کارگل، اڑی کی خبریں تازہ ہی تھیں کہ بی جے پی کے وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستان کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا۔ یہ کردار بی جے پی کے وزیراعظم واجپائی کے وژن کے برعکس تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد شہید کئے گئے ۔ کشمیریوں کی جدوجہد کا نیا مرحلہ 1987ء سے شروع ہو چکا تھا اب وہ سیاسی جدوجہد کے ساتھ مسلح جدوجہد کی طرف بھی راغب ہو رہے تھے۔ ظلم ستم، قبضے، عصمت دری، اغوا، قتل اور استحصال کے اس ماحول میں بھارتی سینٹرل ریزرو فورس (CPRF) کا قافلہ 14 فروری 2019ء کوپلوامہ سے گزر رہا تھا کہ ایک گاڑی اس قافلے کے ایک ٹرک سے ٹکرا گئی اس سے ہونے والے دھماکے کے بعد جب دُھواں چھٹا اور دُوسرے فوجیوں کو قریب آنے کی ہمت ہوئی تو وہاں 40 لاشیں پڑی تھیں اور درجنوں زخمی تھے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ریسکیو ٹیم اورفوجی بزدلی نہ دکھاتے تو ان 40 میں سے دس پندرہ بچ سکتے تھے۔ بھارت نے جیش محمد پر ذمے داری ڈالتے ہوئے خود تسلیم کیا کہ حملہ آور پاکستانی نہیں کاکاپورہ کا وقاص احمد تھا۔ بھارت میں اس واقعے پر شدید ردعمل نے جنم لیا جس کے نتیجے میں مودی نے سرجیکل اسٹرائیک کا وہ ڈرامہ کھیلا جسے خود کچھ بھارتی چینلز نے ’’تربیتی فلموں‘‘ کی ڈرامہ بازی قرار دیا ہے۔ بھارتی چینلز کے مطابق پلوامہ کا بدلہ لینے کے لئے بھارتی فضائیہ کے میراج 2000 طیاروں نے ائن آف کنٹرول کے پار سرجیکل اسٹرائیک کر کے دہشت گردوں کے اڈّے تباہ کر دیئے۔ پاکستان نے نہ صرف اس دعوے کی تردید کی بلکہ بھارتی دعوے میں ذکر کئے گئے علاقے میں غیرملکی صحافیوں کو بھی دورہ کرایا گیا جہاں زندگی معمول کے مطابق تھی۔ اس سے قبل ممبئی دھماکوں اور حیدرآباد دکن دھماکوں میں بھی جو دلیل دی گئی تھی وہ خود بھارتی عدالتوں میں غلط ثابت ہوئی۔ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ میں تو فوجی ملوث تھے اور جب یہ ثابت ہوگیا تو انہیں ضمانت دے دی گئی۔
بالاکوٹ کے بعد بھارت کی کُٹ
مغربی میڈیا بھارت کا خاص شریک ہے لہٰذا جب بھارت نے 26 فروری 2019ء کو یہ خبر دی کہ اس کے طیاروں نے پاکستانی کنٹرول علاقے بالاکوٹ پر زبردست فضائی حملہ کر کے سیکڑوں دہشت گردوںکو ہلاک اور ان کے ٹھکانے تباہ کر دیئے ہیں تو پوری دُنیا کے چینلز پر یہ خبر نمایاں ہوگئی۔ بھارتی ہندی چینل تو باولے ہوگئے۔ مصنوعی سیّاروں کی جعلی تصاویر تک جاری کر دی گئیں لیکن جب حقیقت سامنے آئی تو سب شرمندہ ہی نہیں بلکہ اسکرین آئوٹ ہوگئے۔بھارت نے واقعی حملہ کیا تھا لیکن ان کو جونہی اطلاع ملی کہ پاکستان کے طیارے فضائوں میں ہیں تو وہ بم گرا کر بھاگ نکلے اس حملے میں کئی درخت شہید ہوئے۔ آس پاس نہ کوئی اڈّہ تھا نہ کیمپ۔ یہ حقیقت غیرملکی صحافیوں نے بھی دیکھی اور علاقے کے لوگوں نے انہیں ’’شہید درخت‘‘ بھی دکھائے۔پاکستان نے بہت صبر کے ساتھ یہ حملہ دیکھا اور اعلان کیا ’’ہمارا جواب بہت مہلک اور وقت پر ہوگا۔‘‘
27 فروری 2019ء کو پاکستانی طیارے شوخیاں کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے انہوں نے بھارتی کور ہیڈکوارٹر کے 500 گز دُور، ایئرفورس آفس کے اردگرد اور اہم تنصیبات کو وارننگ شاٹس کا نشانہ بنایا وہ اپنا مشن مکمل کر کے واپس پلٹے تو بھارتی توپوں نے اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرایا جس میں اعلیٰ افسروں سمیت 9فوجی مارے گئے۔ ابھی پاکستانی طیارے واپس جا ہی رہے تھے کہ بھارتی طیاروں نے ان تعاقب کیا۔ ان میں ’’ابھی نندن‘‘ کا مگ طیارہ بھی شامل تھا۔یہ طیارے جونہی پاکستانی علاقے میں داخل ہوئے دو پاکستانی مگ 21 نے انہیں گھیر کر مارا۔ ابھی نندن کا طیارہ بالا آزاد کشمیر میں گرا۔ وہاں لوگوں نے پائلٹ ابھی نندن کی پٹائی شروع کی تھی کہ فوجی جوان اسے بچا کر لے گئے دوسرا طیارہ جو سخوئی تھا بھارتی علاقے میں جا کر گرا۔
یہ واقعہ بھارت کے لئے دل خراش اور ایک سبق تھا۔ اس کے بعد بھارت نے دُوسری کوئی مہم جوئی نہیں کی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ 28 فروری کی شب اس نے پاکستان پر جو دبائو ڈالنے کی کوشش کی تھی اس کا ایٹمی جواب تیار تھا اگر امریکا بیچ بچائو نہ کرا دیتا تو بھارت کو یقیناً پاکستان سے زیادہ نقصان ہوتا۔ اگلے روز اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے بطور خیرسگالی بھارتی پائلٹ کو رہا کر دیا۔ اس کی واہگہ کے لئے واپسی لائیو دکھائی گئی۔
آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حثیت فراہم کرتا ہے جس کا مقصد استصواب رائے تک مقبوضہ کشمیر کو کسی حد تک خود مختار رکھنا ہے ۔یہ 3 اگست 2019 کی شب تھی جب ٹوئٹر پر مختلف پیغامات جھلملانے لگے ۔ ایک مقبوضہ سرینگر سے تھا دوسرا دہلی سے ۔ ایک رپورٹر کا تھا ، اس کا کہنا تھا کہ سی پی آر ایف کے ٹرک پر ٹرک گزرتے جارہے ہیں۔ ہوٹلوں میں مقیم لوگوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہورہی ہے دوسرا پیغام ممتاز صحافی برکھا دت کا تھا بھارتی فوج کی مزید کمک وادی کے لئے روانہ ہوگئی ہے ۔مقصد شاید آرٹیکل 370 کو آئین سے حذف کرکے مقبوضہ جموں کشمیر اور لداخ سب کو ضم کرلینا ہے
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے آرٹیکل 370 کو آئین سے حذف کرنے کی قرارداد پیش کی تو دو تہائی اکثریت موجود تھی ۔ یہ منظور ہوگئی صدر نے بھی فرمان جاری کردیا ساتھ ہی وزیر داخلہ نے ری آرگنائزیشن کا بل پیش کیا جس کی روشنی میں مقبوضہ جموں کشمیر اور لداخ کی اسمبلی ختم کرکے اس کی ریاستی حثیت بھی ختم کردی گئی اور تینوں علاقے مرکزی علاقے قرار پائے ۔5 اگست کے اس اعلان پر پاکستان نے پھر روایتی بیان جاری کیا لیکن چین نے لداخ میں مداخلت شروع کردی۔اس حکم پر عمل در آمد بہت مشکل تھا لیکن بھارت کی فوجی کمک نے چپے چپے پر کرفیو لگا کر زندگی جامد کردی۔ تشدد گرفتاریوں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بدترین سینسر کے ہتھیار استعمال کئے گئے ۔بھارتی سیاسی جماعتوں نے اس پر ہلکا پھلکا احتجاج کیا لیکن کشمیر میں بھارت نواز مفتی اور شیخ خاندان اس کے خلاف ڈٹ گیا ۔ فاروق عبداللہ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ آج قائداعظم کے دو قومی نظریہ کا سچ سامنے آگیا۔
اب کیا ہوگا
بھارت بات چیت کے لئے کوشاں ہے لیکن وہ کمپوزٹ ڈائیلاگ کے بجائے شرائط کے تحت بات چیت چاہتا ہے۔
درج ذیل مسائل اب بھی جنگ کا سبب بن سکتے ہیں۔
1… دریائوں کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ
2… مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی
3… سر کریک، سیاچن اور دوسرے مسائل
سوال صرف یہ کہ کیا مذاکرات کے لئے پہلے مسائل حل کرنا ہوں گے یا تجارت پہلے شروع کرنی ہوگی۔
یہ یاد رکھا جائے کہ ہم اعتماد سازی کے اقدامات بھٹو، ضیا، نوازشریف، مشرف کے زمانے میں بھی کر چکے ہیں۔
جواب میں ہمیں صرف حملے ملے ہیں۔
بنیادی مسئلہ کشمیر کا ہے اسے حل کرلیں باقی مسئلے حل ہو جائیں گے۔