• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

75برس قبل دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی حیثیت سے پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ اس وقت جو علاقے پاکستان کے حصے میںآئے ان میں انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے برابر تھا۔ وسائل انتہائی کم تھے مگر مسائل کی بھرمار تھی۔یہ امر خوش آئند ہے کہ نوزائیدہ مملکت نے ان چیلنجز کا پامردی اور دانشمندی سے مقابلہ کیا اورآنے والی دہائیوں میں مختلف شعبوں میں قابل قدر کامیابیاں حاصل کیں۔

پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے۔ جہاں آبادی میں اضافے کی رفتار انتہائی تیز ہے چنانچہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں بڑی اور عالم اسلام کی دوسری بڑی مملکت ہے۔ پاکستان نے مئی 1998ء میں عالم اسلام کی پہلی جوہری قوت بن جانے کا اعزاز حاصل کیا لیکن ہم جوہری قوت کے ہم پلہ معاشی قوت بننے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔

75برس پر مشتمل معیشت کے عروج و زوال کی پُرپیچ داستان

آزادی کے وقت پاکستان کی جی ڈی پی کا حجم تقریباً تین ارب ڈالر تھا جو بڑھ کر 400ارب ڈالر کی حد چھونے والا ہے۔ آزادی کے وقت پاکستان میں بینکوں کی شاخوں کی تعداد صرف 213 تھی۔ 30جون 2021ء کو پاکستان میں 33بینک 14921شاخوں کے ساتھ ملک کے اندر کاروبار کر رہے تھے ۔ بینکوں کے ڈپازٹس 20ہزار ارب روپے اور قرضے 10ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں جبکہ تجارتی بینکوں کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری ان کے قرضوں کے حجم سے کہیں زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں تجارتی بینک صنعت و تجارت کے لئے قرضے فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں تجارتی بینک 2008ء سے اپنا اصل کام چھوڑ کر حکومتی تمسکات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں چنانچہ معیشت کی شرح نمو سست رہتی ہے۔

ایک اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ بینکوں کے ڈوبے ہوئے قرضوں کاحجم 31؍مارچ 2022ء کو 864؍ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ان قرضوں کی عدم وصولی کے نقصانات کو پورا کرنے کے لئے بینکوں نے تقریباً790؍ارب روپے کی خطیر رقم الگ رکھ دی ہے حالانکہ یہ رقم بینکوں کے کروڑوں کھاتے داروں کا حق ہے۔ آزادی کے بعد سے پاکستان جن شعبوں میں خاصی تیزی سے ترقی ہوئی ہے ان میں انشورنس سیکٹر، ٹیکسٹائل سیکٹر، تیل و گیس کے ذخائر کی دریافت، واپڈا کی پانی سے بجلی پیدا کرنے و پانی کا ذخیرہ کرنے کے منصوبوں کی کامیابی سے تکمیل، لائیو اسٹاک سیکٹر کی تیزی سے ترقی، زرعی شعبے میں سست رفتاری سے ہی مگر ترقی، سی پیک کے تحت بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ، سورج اور ہوا سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبے، پورٹ قاسم و گوادر پورٹ کی تعمیر اور ترقی، موٹر ویز اور ہائی ویز کی تعمیر اور حالیہ برسوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، عدد نگارش (ڈیجی ٹلائزیشن) اور نادرا جیسے اداروں کا قیام وغیرہ شامل۔

سوویت یونین کے 1979ء میں افغانستان پرحملے کے نتیجے میں پاکستان نے امریکا کے ساتھ دل و جان سے معاونت کی اور پاکستان عملی طور پر سیکورٹی اسٹیٹ بن کر رہ گیا۔ 1980ء کے بعد سے اب تک پاکستان کی اوسط سالانہ شرح نمو صرف 4.7 فیصد رہی جو بھارت اوربنگلہ دیش سے بھی کم ہے۔ معیشت کے کچھ شعبوں میں گزارشات پیش ہیں۔

معیشت کی شرح نمو، معیشت اور فی کس آمدنی

پاکستان میں عموماً معیشت کی شرح نمو سست اور افراطِ زرکی شرح زیادہ رہتی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو دنیا کے متعدد ممالک بشمول پڑوسی ممالک سے کم رہی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے مگر معیشت کے حجم کے لحاظ سے دنیا میں 47ویں نمبر پر آتا ہے جبکہ 2018ء میں پاکستان 41ویں نمبر پر تھا۔ آزادی کے 54برس بعد نائن الیون کے وقت پاکستان کی فی کس آمدنی بھارت سے زیادہ تھی۔ مگراب بھارت اس لحاظ سے پاکستان سے بہت آگے نکل گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں بھارت کی فی کس آمدنی کا تخمینہ 2116 ڈالر فی کس تھا جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی کا تخمینہ 1255 ڈالر فی کس تھا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق بنگلہ دیش، نائیجریا، گھانا اور جبوتی جیسے ممالک کی فی کس آمدنی 2021ء میں پاکستان سے زیادہ تھی۔ 

دوسری طرف پاکستان کے مجموعی قرضوں کے حجم کے تیزی سے بڑھتے چلے جانے کے نتیجے میں فی کس قرضوں کاحجم بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مالی سال 2016ء میں فی کس قرضوں کا حجم 99000روپے تھا جبکہ اکتوبر2022ء میں فی کس قرضوں کا حجم تقریباً 195000روپے تھا۔ اب پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ پیدائش کے وقت دو لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہوتا ہے۔

1960ء کی دہائی میں پاکستانی معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو 6.8فیصد تھی جبکہ 1990ء کی دہائی میں بار بار حکومتوں کی برطرفیوں کے نتیجے میںیہ شرح نمو صرف 4.6فیصد رہی۔ 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے نتیجے میں امریکا سےمعاونت کرنے کے نتیجے میں پاکستان کو زبردست امداد ملی چنانچہ اس دہائی میں اوسط سالانہ شرح نمو 5.6 فیصد ہوگئی لیکن ملک میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچرمتعارف ہوا جس کے منفی اثرات آج تک نظر آرہے ہیں۔ 2000ء کی دہائی میں اوسط سالانہ شرح نمو 4.5فیصد رہی۔

2008-09میں معیشت کی شرح نمو صرف 0.4فیصد رہی جو گزشتہ 50برسوں میںسست ترین شرح نمو تھی۔مسلم لیگ(ن) کے پانچ برسوں میں معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو 4.75فیصد اور تحریک انصاف کے 4برسوں میں موجودہ مالی سال تک یہ شرح تقریباً 3.4فیصد رہی ۔ عالمی بینک کمیشن کی 2008ء کی رپورٹ میں کہاگیا تھا کہ اگر پاکستانی معیشت 8.3فیصد سالانہ کی رفتار سے ترقی کرے تب بھی پاکستان کی فی کس آمدنی 2050ء تک معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم کے اراکین کی فی کس آمدنی کی سطح پرنہیں پہنچ سکے گی اور ہم یہ شاید 2075ء تک بھی ممکن نہیں ہوگا۔

ٹیکسوں کا نظام اور وصولی

پاکستانی معیشت کی خرابیوں کی ایک اہم وجہ مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی انتہائی کم وصولی ہے۔ پاکستان کا ٹیکسوں کا نظام غیر منصفانہ ہے۔ یہ نظام طاقتور اور مالدار طبقوں کو چھوٹ و مراعات دیتا ہے، معیشت کو دستاویزی بنانے میں رکاوٹیں ڈالتا ہے اور ٹیکس چوری کے راستے کھلے رکھتا ہے۔ حکومتیں یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ ٹیکس ایمنسٹی کے اجراء سے پہلے ایسے اقدامات لازماً اٹھانا ہوتے ہیں کہ آئندہ کالا دھن پیدا ہی نہ ہو لیکن حکومتیں ان اقدامات سے اجتناب کرتی ہیں اور انتہائی کم شرح ٹیکس پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے اجراء کو اپنا فرض منصبی سمجھتی ہیں۔ 

گزشتہ چند دہائیوں میں مختلف حکومتوں نے تقریباً ایک درجن ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجراء کیا لیکن ان سے معیشت اور عام آدمی کو تو نقصان ہی ہوا مگر قومی دولت لوٹنے والوں، ٹیکس چوری کرنے والوں اور مختلف طریقوں سے ناجائز دولت کمانے والوں کو زبردست فائدہ پہنچا۔ پاکستان میں ٹیکسوں کی پالیسی طاقتور اشرافیہ یا مافیاکے دباؤ یا مفاد میں بھی بنائی جاتی رہی ہیں۔ ان سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کیلئے عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے، خصوصاًاونچی شرح سیلز ٹیکس اور پیٹرولیم لیوی جوکہ بھتہ ہے۔ ان اقدامات سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھتی ہے، برآمدات متاثر ہوتی ہیں، افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے، معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی چلی جاتی ہے۔

اب سے تقریباً 56برس قبل مئی 1966ء میں اس وقت کے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ٹیکسوں کی چوری کو پوری قوت سے روکا جائے گا لیکن ان برسوں میں بھی حکومتیں عملاً ٹیکسوں کی چوری کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہیں اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجراء بھی کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف حکومتیں ٹیکسوں کا منصفانہ نظام وضع کرکے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی بڑھانے کے ضمن میں تاریخی کامیابیاں حاصل کرنے کے دعوے بھی تسلسل کے ساتھ کرتی رہی ہیں۔

جی ڈی پی

جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی 1980ء کی دہائی میںاوسطً سالانہ 13.8فیصد، 1990ء کی دہائی میں اوسط سالانہ 13.4فیصد،2000ء کی دہائی میںاوسط سالانہ10.3فیصد، 2012-13میں 9.8 فیصد، 2017-18میں 12.9فیصداور 2020-21میںتقریباً 11فیصدرہی۔پاکستان میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی خطے کے ملکوں کی اوسط سے کم ہے۔ 1980ء اور1990ء کی دہائیوں کے مقابلے میں 2000کی دہائی اور اس کے بعد کے برسوں میں یہ تناسب گرا ہے ۔اب سے تقریباً 25برس قبل پاکستان کی گولڈن جوبلی کے سلسلے میں میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی کے زیراہتمام ’’استحکام پاکستان اور ٹیکس دہندگان کا کردار‘‘ کے موضوع پرایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہندوستان اپنی قومی آمدنی کا 20 فیصد ٹیکسوں کے ذریعے وصول کرتا ہے جبکہ پاکستان صرف 12فیصد۔ 

اگر پاکستان بھی 20فیصد وصول کرتا تو جو اضافی رقوم حاصل ہوتیں تو ان سے کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کتنے لوگوں کو روزگار مل سکتا تھا اورکتنے ترقیاتی کام ہو سکتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اگر ہم اپنا ٹیکسوں کا نظام درست کر لیں تو نئے ٹیکس لگائے بغیر پرانے ٹیکس ہمیں دوگنا زیادہ آمدنی دے سکتے ہیں۔ لہٰذا غریب پر ہر سال نئے ٹیکس لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا (جنگ 26؍اگست 1997ء) اسی طرح جون 2003ء میں اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ اگرٹیکس چوری روک دی جائے تو جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 15فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کرنے اور ہر قسم کے سرچارج ختم کرنے کے باوجود ٹیکسوں کی وصولی کا تناسب بڑھے گا۔ یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ وڈیرہ شاہی کلچر کی وجہ سے سیلز ٹیکس کی شرح بڑھنے اور پیٹر ولیم لیوی کی مد میں بجٹ میں 30روپے فی لیٹر وصولی کا ہدف رکھنے کے باوجود ٹیکسوں کی وصولی کے تناسب میں بہتری نہیں آرہی ۔

ٹیکس اور انتخابی منشور

مسلم لیگ (ن) کے 2013ء کے انتخابی منشور میں کہاگیا تھا کہ ’’ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ پاکستان کی بیمار معیشت کو بحال کرنے کے لئے جن بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے ان کی طاقتور مفاد پرست طبقات مخالفت کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس یہ اصلاحات نافذ کرنے کی نہ صرف صلاحیت ہے بلکہ ان طاقتور مگر ناجائز مفادات کے حامل گروہ سے نمٹنے کا سیاسی عزم بھی ہے۔ وہ شعبہ جہاں بنیادی اسٹرکچرل اصلاحات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ٹیکسوں کا شعبہ ہے وفاق اور صوبوں کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولی کے حجم سے ہی یہ فیصلہ ہو سکے گا کہ ہم تعلیم، صحت، مکانات اور انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں کس حد تک سرمایہ کاری کریں گے۔‘‘منشور میں مزید کہا گیا تھا کہ :

(الف) ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

(ب)۔معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا اور

(ج)۔کالے دھن کو سفید بنانے کے عمل کو روکا جائے گا۔

وزیراعظم کی حیثیت سے بے نظیر صاحبہ نے کہا تھا کہ اب ہر شخص کو ٹیکس دینا ہوگا اور ایک گلاس پانی پر بھی ٹیکس لگے گا۔ ان کے دور میں جی ڈی پی اورٹیکسوں کی وصولی کا تناسب 1995-96میں 14.4فیصد رہا۔ اس کے بعد 26برس کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ تناسب حاصل نہ کیا جا سکا اور اس سے کم ہی رہا۔

تحریک انصاف کے 2013ء کے انتخابی منشور میں کہا گیا تھا کہ ہر قسم کی آمدنی پرٹیکس عائد کیا جائے گا۔ صوبوں کے ضمن میں کہاگیا تھا۔

(الف) زرعی شعبے اور جائیداد سیکٹر پر (مؤثر طور سے) ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

(ب) صوبائی حکومت کو اس اصول پر عمل کرنا چاہئے۔”ریاست اس جائیداد کو قومی ملکیت میں لے آئے جس کی مالیت مارکیٹ کے نرخ سے کم ظاہر کی جائے۔‘‘ منشور کے اس نکتے پر عمل درآمد کرنے کے لئے یہ کافی ہوتا کہ غیرمنقولہ جائیدادوں کے ’’ڈی سی ریٹ‘‘ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر کر دیا جاتا۔

تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ 9 برسوں سے اقتدارمیں ہے مگر طاقتور طبقوں کی خوشنودی کے لئے منشور کے ان نکات سے مکمل طور پر انحراف کیا گیا ہے۔

2018ء کے عام انتخابات سے چند ہفتے پہلے تحریک انصاف کی 10نکاتی حکمت عملی میں کہاگیا تھا کہ ’’اقتدار میں آنے کے 100دن کے اندر معیشت کی بحالی اور قرضوں پرانحصار کم کرنے کے لئے کاروبار دوست اور عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی نافذ کی جائے گی۔’’یعنی وفاق اور صوبے ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس مؤثر طور سے نافذ کریں گے، معیشت کو دستاویزی بتایا جائے گا اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء نہیں کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی طاقتور طبقوں کے دبائو پر ان وعدوں پر عمل درآمد کی کوشش کرنے کے بجائے ان سے انحراف ہی کیا چنانچہ معیشت کی بہتری کے دعوے خواب و خیال بن کر ہی رہ گئے۔ 

اس 10نکاتی حکمتِ عملی میں کہا گیا تھاکہ عمران خان اور تحریک انصاف کے پاس معیشت کی بحالی کی مکمل حکمتِ عملی موجود ہے جس پر اقتدار میں آتے ہی عمل کیا جائے گا۔ اپریل2022ء میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے صرف تین دن بعد عمران خان کی کابینہ کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے عملاًتحریک انصاف کو چارج شیٹ کرتے ہوئے کہا کہ اگست2018ء میںجب تحریک انصاف حکومت میں آئی تو ان کے پاس معیشت کے ضمن میں کوئی حکمتِ عملی تھی ہی نہیں ۔ ہم یہ بات کہنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیںکہ تحریک انصاف نے 2018ء کے انتخابات سے پہلےاپنی 10نکاتی حکمتِ عملی میںقوم کو جو یقین دھانیاںکرائیں تھیں وہ غلط بیانی پر مبنی تھیں اور اسی کی بنیاد پر انہیں انتخابات میں ووٹ پڑے تھے۔

تعلیم اور صحت

اگر گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان نے تعلیم، صحت، تحقیق و ترقی، ٹیکنالوجی اور ووکیشنل ٹریننگ کی مد میں جی ڈی پی کے تناسب سے اتنی ہی رقوم خرچ کی ہوتیں جتنی ایشیاء کے ان ممالک نے کی ہیں جنہوں نے قدرتی وسائل نہ ہونے کے باوجود معیشت کے شعبے میں تیزی سے ترقی کی ہے تو آج پاکستان کی جی ڈی پی، فی کس آمدنی اور برآمدات موجودہ سطح سے کئی گنا زیادہ ہوتیں۔

یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ ٹیکسوں کی چوری ہونے دینے، ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات دیتے چلے جانے اور انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق 111(4)برقرار رکھنے، شاہانہ اخراجات کرتے چلے جانے اور کچھ حکومتیں شعبے کے اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے صرف انکم ٹیکس کی مد میں استعداد کے مقابلے میں تقریباً پانچ ہزار ارب روپے سالانہ کم وصول ہو رہے ہیں چنانچہ تعلیم، صحت اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں انتہائی کم رقوم مختص کی جاتی ہیں اور ان رقوم کا صحیح استعمال بھی نہیں ہوتا رہا۔ ملک میں 23ملین بچے اسکول نہیں جا رہے۔ آئین پاکستان کی شق 25(الف) میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ 5سال سے 16برس تک کے بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم دی جائے لیکن اس سے مسلسل انحراف کیا جا رہا ہے۔

جون 2010ء میں جاری ہونے والے 2009-10کے اکنامک سروے میں کہا گیا تھا کہ 2005ء سے 2009ء کے برسوں میں تفصیلی مشاورت کے بعد قومی تعلیمی پالیسی بنائی گئی ہےاور وفاقی کابینہ نے 9ستمبر 2009ء کو اس پالیسی کی منظوری دے دی ہے۔ اس فیصلے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی شامل تھیں اور یہ طے کیاگیا تھا کہ جی ڈی پی کے تناسب سے 2015ء تک تعلیم کی مد میں 7فیصد مختص کیا جائے گا۔

جون 2013ء کو جاری ہونے والے اکنامک سروے میں بھی اس فیصلے کی توثیق کی گئی تھی۔ تحریک انصاف کے 2013ء کے انتخابی منشور میں کہاگیا تھا کہ 2018ء تک تعلیم کی مد میںجی ڈی پی کا 5فیصد اورصحت کی مد میں 2.6فیصد خرچ کیا جائے گا۔ تعلیم و صحت کے شعبے صوبوں کے دائرہ اختیار میںآتے ہیں لیکن صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی 2022ء تک اس منشور پر عمل نہیں کیاگیا اور تعلیم و صحت کی مد میں صرف تقریباً 3فیصد ہی خرچ کئے گئے ۔ اب ایسا نظر آرہا ہے کہ خدا نخواستہ آئندہ کئی سالوں تک بھی ہر بچہ اسکول نہیںجا رہا ہوگا اور عوام کو معیاری علاج معالجے کی مناسب سہولیات میسر نہیں ہوں گی۔

کارکنوں کی ترسیلات، تجارتی خسارہ اور جاری حسابات کاخسارہ

نائن الیون کے بعد بیرونی ممالک سے پاکستان آنے والی ترسیلات کے حجم میں اضافہ شروع ہوا۔ مالی سال 2002ء سے مالی سال 2011ء کے 10برسوں میںصرف 59؍ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان آئی تھیں۔ یہ بات حیران کن ہے کہ مالی سال 2014ء سے اپریل 2022ء تک کے آٹھ سال 10ماہ میںمجموعی طور پر194؍ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان آئیں۔ اس میں سے تحریک انصاف کے دور میں مالی سال 2019ء سے اپریل 2022ء تک 100؍ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان آئیں۔ اس دور میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک مالی سال میں پاکستان آنے والی ترسیلات کا حجم اسی مدت میں پاکستانی برآمدات سے بڑھ گیا جو کہ صحت مند علامت نہیں ۔ اسٹیٹ بینک یہ دعویٰ تواتر سے کرتی رہی ہے کہ یہ’’ کارکنوں کی ترسیلات‘‘ ہیں مگر ہمارا تخمینہ ہے کہ مالی سال 2014ء سے اپریل 2022ء کی مدت میں آنے والی ترسیلات میں سے صرف تقریباً 40؍ارب ڈالر کی رقوم کارکنوں کی جانب سے بھیجی گئی ہوں گی کیونکہ بڑے پیمانے پر بڑی بڑی رقوم کی ترسیلات بھی پاکستان آرہی ہیں۔ ہو یہ بھی رہا ہے کہ ہنڈی/ حوالہ اور دوسرے متعدد طریقوں سے ناجائز دولت پاکستان سے باہر بھیجی جاتی ہے۔ اس کا ایک حصہ تر سیلات کے ذریعے پاکستان واپس آجاتا ہے۔ اس ضمن میں انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4)سے بھی استفادہ کیاجاتا ہے جوکہ ایک مستقل این آر او ہے۔ یہ شق منسوخ ہونا چاہئے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ہرسال بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔چند برس قبل سپریم کورٹ کو بتلا یا گیا تھا کہ 2017ء میں کھلی منڈی سے جائزاور ناجائزآمدنی سے پاکستانی روپے کے عوض ڈالر خرید کر بینکوں میں بیرونی کرنسی کے کھاتوں کے ذریعے 15؍ارب ڈالر کی رقوم پاکستان سے باہر بھیجی گئیں۔ واضح رہے کہ اس سال 19.4؍ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان آئی تھیں۔

بیرون ممالک سے پاکستان آنے والی ترسیلات کا ایک حصہ ملک میں سرمایہ کاری کیلئے استعمال ہونا چاہئے تاکہ معیشت کی شرح نمو تیز ہو، برآمدات کو فروغ ملے اور روزگار کے زیادہ مواقع میسر آئیں مگر ان ترسیلات کو تجارتی خسارے کی مالکاری کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ جاری حسابات کے خسارے کا حجم کم دکھلایا جا سکے۔ یہ تباہی کانسخہ ہے۔ جولائی 2018ء سے اپریل 2022ء کے مندرجہ ذیل اعدادو شمار چشم کشا ہیں۔

(i) تجارتی خسارہ 124؍ارب ڈالر

(ii) ترسیلات 100؍ارب ڈالر

(iii)جاری حسابات کاخسارہ 34؍ارب ڈالر

حکومت 3سال 10ماہ میں صرف 34؍ارب ڈالر کے جاری حسابات کے خسارے پر اطمینان کا اظہار کرسکتی ہے جبکہ اصل پریشانی 124؍ارب ڈالر کے تجارتی خسارہ پر ہونا چاہئے۔ موجودہ مالی سال میں جولائی 2021ء سے اپریل 2022ء تک جو ترسیلات پاکستان آئی ہیں ان میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 44فیصد اور امریکا و برطانیہ سے 24فیصدترسیلات آئیں ہیں یعنی صرف چار ملکوں سے پاکستان آنے والی ترسیلات کاحصہ 68فیصد ہے جو کہ صحت مند علامت نہیں ہے۔ استعماری طاقتیں کسی بھی وقت ان ترسیلات میں رکاوٹیں ڈال سکتی ہیں جو پاکستانی معیشت سنبھال نہیں سکے گی۔

دہشت گردی کی جنگ کے مالی نقصانات

نائن الیون کے بعد کے برسوں میں ہم تواتر کے ساتھ کہتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی امریکی جنگ میں معاونت پاکستان کے لئے تباہی اور خسارے کا سودا رہے گی۔ اس جنگ کے نتیجے میں ملکی معیشت کو پہنچنے والے مجموعی نقصانات کا حجم پاکستان کو مغرب سے ملنے والی مراعات کے فوائد سے کہیںزیادہ ہوگا۔ مالی سال 2017-18ء کے اکنامک سروے میں دہشت گردی کی جنگ سے پاکستانی معیشت کو ہونے والے نقصانات کی تفصیل سے مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں۔یہ بات اہم ہے کہ مالی سال 2009ء سے مالی سال 2013ء کے 5برسوں میں دہشت گردی کی جنگ کے نقصانات میں جو زبردست اضافہ ہوا وہ فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ساتھ کئے گئے سودے کے نتیجے میں تھا۔ اس سودے کو اس وقت کی حکومت نے پاکستان کے لئے رحمت اور ہم نے ’’جال ‘‘ قرار دیا تھا ۔

ملکی و بیرونی قرضے اور ذمہ داریاں

پاکستانی معیشت کی بنیادی خرابیوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی،ملکی بچتوں اور ملکی سرمایہ کاری کی کم شرحیں رہنا شامل ہیں۔ یہی نہیں ، غیر ترقیاتی شاہانہ اخراجات کا حجم بہت زیادہ رہتا ہے جبکہ مالیاتی اور انٹیلکچوئل بدعنوانی کی وجہ سے حکومت کو ملنے والی رقوم کا دیانتدارانہ استعمال بھی نہیں ہوتا۔ اس صورتحال کے نتیجے میں بجٹ خسارہ اور جاری حسابات کا خسارہ بھی عموماً بہت زیادہ رہتا ہے جن کو پورا کرنے کے لئے پاکستان ملکی و بیرونی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا رہا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لیتے رہے ہیں۔ 

نتیجتاً قرضوں و سود کی ادائیگی کے لئے درکار رقم کا حجم بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہونے دینے سے صورتحال مزید ابتر ہو رہی ہے۔ یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کہ وفاقی ٹیکسوں کی وصولی کے حجم میں سے ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے مطابق صوبوں کو ان کا حصہ دینے اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے درکار رقم کی ادائیگی کے بعد جو روپے بچتے ہیں، اس سے تو ہمارے دفاعی اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے یعنی عملاً ہم اپنے دفاعی اخراجات کیلئے بھی قرضے لیتے ہیں۔

آزادی کے 41برس تک ملکی و بیرونی قرضوں اور ذمہ داریوںکی صورتحال یہ تھی۔

(1 30جون 1980ء 155؍ارب روپے

(2 30جون 1988ء 523؍ارب روپے

(3 30جون 2008ء 6691؍ارب روپے

30جون 2008ء کے بعد سے ان قرضوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔

مجموعی قرضے و ذمہ داریاں

مندرجہ بالا اعدادو شمار یہ واضح کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں پاکستان کے مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کے حجم میں 2688؍ارب روپے سالانہ کا اضافہ ہوا جبکہ تحریک انصاف کے دور میں6310؍ارب روپے سالانہ کا اضافہ ہوا۔ اس میں بہرحال روپے کی قدر میںکمی کا بھی دخل ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں بیرونی قرضوں و ذمہ داریوںکے حجم میں 6.9؍ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ ہوا جبکہ تحریک انصاف کے دور میں یہ اضافہ 9؍ارب ڈالر سالانہ رہا۔ تحریک انصاف کے دور کے 3سال 9ماہ میں مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کے حجم میں 23665؍ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ آزادی کے 69سال بعد 30جون 2016ء کو ان قرضوں کا مجموعی حجم 22577؍ارب روپے تھا۔ (مجموعی حجم، اضافہ نہیں) یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف

پاکستان کے فوجی حکمران ایوب خان نے پہلی مرتبہ 8دسمبر 1958ء کو آئی ایم ایف سے 25ملین ڈالر کے قرضے کے معاملات طے کئے تھے۔ 1958ء سے اپریل 2022تک مختلف حکومتوں نے آئی ایم ایف سے قرضوں کے 22پروگرام طے کئے تھے۔ 1980ء سے 2016ء کے 36برسوں میں پاکستان تقریباً 25برس آئی ایم ایف کے پروگرام کے اندر رہا۔ 1991ء سے تحریک انصاف کی حکومت ساتویں حکومت تھی جس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کہنا شروع کردیا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لے گی۔ 

ایسا کرنا یقینا ممکن بھی تھا بشرطیکہ عمران خان کی حکومت 2018ء کے انتخابات سے چند ہفتے پہلے جاری کردہ دس نکاتی حکمت عملی کے صرف دو نکات یعنی ٹیکسوں اور توانائی کے شعبے میں کئے گئے وعدوں پر عمل کرتی۔ ان اقدامات سے طاقتور اشرافیہ کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی تھی چنانچہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس ایجنڈے کو پس پشت ڈال دیا۔عمران خان کی حکومت نے بہرحال2019ء میں انتہائی کڑی شرائط پرآئی ایم ایف سے 6؍ارب ڈالر کے قرضے کا معاہدہ کر لیا لیکن ساتھ ہی یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ آئی ایم ایف سے قرضوں کا آخری پروگرام ہوگا۔ ہم بہرحال 2019ء سے ہی کہتے رہے ہیں کہ پاکستان آئندہ بھی آئی ایم ایف سے قرضہ لے گا کیونکہ حکومت اپنے منشور کے مطابق معیشت میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کرنے سے اجتناب کر رہی ہے۔

آئی ایم ایف ۔قرضوں کے 22پروگرام (29فروری2020 ء تک)

مندرجہ بالا اعداد و شمار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کے جو معاملات طے ہوئے تھے ان کا مجموعی حجم 23.656؍ارب ایس ڈی آرز تھا۔ جبکہ جو قرضے لئے گئے ان کا مجموعی حجم 14.839؍ارب ایس ڈی آرز تھا۔ ان میں سے 20قرضے واپس کردیئے گئے جبکہ جو قرضے واجب الادا تھے ان کا 29فروری 2020ء کو مجموعی حجم 4.837؍ارب ایس ڈی آرز تھا۔

یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ مختلف حکومتیں آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر زبردست تنقید کرتی ہیں مگر اپنے دورِِاقتدار میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کو اپنا فرض منصبی سمجھتی ہیں۔ اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے معاملات طے کرنے والوں میں ایوب خان، ذوالفقارعلی بھٹو، بے نظیر بھٹو، معین قریشی، ڈاکٹر محبوب الحق، ملک معراج خالد، نواز شریف، پرویز مشرف، زرداری، گیلانی اور عمران خان شامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف پاکستان کے 23ویں وزیراعظم ہیں۔ ان کی حکومت آئی ایم ایف سے 6؍ارب ڈالرکے قرضے کے حجم میں 2؍ارب ڈالر کا اضافہ کرانے کی درخواست کرچکی ہے۔1958ء سے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کایہ 23واں پروگرام ہو گا۔ موجودہ حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کے موجودہ پروگرام کو ستمبر2022ء کے بعد بھی جاری رکھا جائے اور اس کی جون 2023ء تک توسیع کردی جائے جو کہ دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔

حالیہ معاشی بحران

وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے 28؍فروری 2022 کو آئی ایم ایف سے تحریری معاہدہ ایک ایسے وقت توڑا جب پاکستان کی کمزور معیشت کسی بھی ملکی یا بیرونی جھٹکے سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی اور خود حکومت کو بھی یہ توقع تھی کہ جلد ہی آئی ایم ایف سے 900 ملین ڈالر کے قرضے کی قسط مل جائے گی۔ قومی سلامتی سے متصادم اس فیصلے کے نتیجے میں آئی ایم ایف نے یہ قسط روک لی چنانچہ زرمبادلہ کے ذخائر اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر پر دبائو بڑھ گیا۔ اگر عمران خان خود ان کی اپنی حکومت کا آئی ایم ایف سے کیا ہوا معاہدہ نہ توڑتے تو حالیہ معاشی بحران پیدا ہی نہ ہوتا۔ بنیادی طور پر اسٹیٹ بینک کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ وزارت خزانہ کی مشاورت سے خواہ مہنگی شرح سود پر ہی سہی تقریباً 7؍ارب ڈالر کے مختصر المدتی قرضے حاصل کرتی تاکہ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو اور روپے کی قدر پر دبائو کم ہو۔

اسٹیٹ بینک کی یہ ذمہ داری بھی تھی کہ وہ بینکوں اور ایکسچینج کمپنیز کے ساتھ میٹنگ کرکے چند ارب ڈالر کی رقوم حاصل کرنے کی کوشش کرتی اور روپے کی قدرکو گرنے سے روکنے اور اسے بہتر بنانے کیلئے ان دونوں اداروں کے ساتھ دھمکی اور ترغیبات کا راستہ اختیارکرتی۔ ماضی میں اسٹیٹ بینک اس ضمن میں اجلاس بلا کر سٹے بازی، سرمائے کے فرار اور منافع خوری روکنے کے لئے اس قسم کے اقدامات اٹھا کر مثبت نتائج حاصل کرتا رہا تھا۔ گزشتہ چند ماہ میں حیران کن طور پر اسٹیٹ بینک نے ایسی کوئی معنی خیز کوشش نہیں کی جو مفاد پرستوں کی جانب سے تواتر سے پھیلا ئی جا رہی تھیں۔ اس سے مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوتا، سیاسی ہنگامہ آرائی اور بے یقینی کی کیفیت سے بھی روپے کی قدر پر دبائو بڑھتا رہا۔

آئی ایم ایف کے دبائو کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کو تحریک انصاف کے دو میں مزید خود مختاری دی گئی تھی۔ اس میں اس وقت کے اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا ڈرافٹ آئی ایم ایف کو دیا تھا۔ اس ڈرافٹ کی کچھ شقیں آئین سے متصادم تھیں لیکن اس ضمن میں ذمہ داری کا تعین کرکے کسی کا بھی احتساب موجودہ حکومت نہیں کر رہی جوکہ ناقابل فہم ہے۔ ہم نے اسٹیٹ بینک کو مزید خود مختاری دینے کی مخالفت کی تھی اور اسے قومی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم قرار دیا تھا۔ 

خود مختاری کا مطلب بہرحال یہ نہیں ہوتا کہ اسٹیٹ بینک اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو عملاً پس پشت ڈال کر آئی ایم ایف کی سوچ اپنانے کو ترجیح دے جو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرانے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ دوسری طرف وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری میں مداخلت کئے بغیر جو کوشش زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور روپے کی قدر کو سنبھالا دینے کے لئے کی جا سکتی تھیں وہ بھی انہوں نے نہیں کیں۔وزیر خزانہ نے 24؍اپریل 2022ء کو امریکا میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد کہا تھا کہ مئی 2022 تک آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہو جائے گا۔ مگر مذاکرات سست روی کا شکار رہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 10جون 2022کو قومی اسمبلی میں 2022-23کا جو وفاقی بجٹ پیش کیا تھا اس کے کچھ نکات حیران کن طور پر ان شرائط سے متصادم تھے جو خود ان کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ طے ہوئے تھے۔ آئی ایم ایف نے اس صورتحال میں پہلے سے بھی زائد کڑی شرائط پیش کردیں جن کو تسلیم کرنا پڑا۔ 

چنانچہ عوام و معیشت پر بڑے پیمانے پر ٹیکسوں وغیرہ کا بوجھ ڈالا گیا اور پروگرام کی بحالی میں بھی تاخیر ہوئی جبکہ روپے کی قدر گرتی رہی۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو پاکستان دیوالیہ ہو جاتا حالانکہ دیوالیہ تو کیا پاکستان کے نادہندہ ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاملات طے کئے گئے ہیں ان کے نتیجے میں موجودہ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو انتہائی سست رہے گی۔ 

افراط ِ زر کی شرح جنوری 2021میں 5.7فیصد تھی۔ جنوری 2022میں یہ شرح 12.3فیصد تھی لیکن اب یہ تقریباً 24فیصد ہے۔ ستمبر2008ء میں پاکستان اور فرینڈز آف پاکستان گروپ کے اعلامیہ کے ضمن میں جو دانستہ غلط بیانیاں کی گئی تھیں اور جو اقدامات اٹھائے گئے تھے ان کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو سست ہوئی تھی اور افراط ِ زر میں زبردست اضافہ ہوا تھا۔ پاکستان نے 14برسوں میں فرینڈز آف پاکستان گروپ کے جال سے امریکا کے نیوگریٹ گیم کے مقاصد میں معاونت کا سفر طے کر لیا ہے۔

ترجیحات کیا ہوں؟

گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان میں سوچ یہ تھی کہ ملکی برآمدات کاحجم ملکی درآمدات اور بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے درکار رقوم سے زائد ہونا چاہئے لیکن بیرونی قرضوں کے بے تحاشہ بڑھتے درآمدات کے حجم میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہونے دینے اور برآمدات کے شعبے کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے پاکستان ایشین ٹائیگر بننے کے عزم سے دستبردار ہو گیا ہے اور اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے نئی سوچ یہ اپنائی گئی ہے کہ ملکی درآمدات کا حجم ملکی برآمدات اور بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات کے مجموعی حجم کے برابر رہنا چاہئے۔ اسلام آباد میں امریکی سفیر کے اشیائے تعیش کی درآمدات پر پابندی پرناخوشی کا اظہار کیا ہے۔ یہ پابندیاں مزید سخت ہونا چاہئیں۔

کارکنوں کی ترسیلات پاکستان کیلئے اہم ہیں لیکن انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4)سے مستفید ہو کر ٹیکس فری ترسیلات بڑھانا اور ان ترسیلات کو تجارتی خسارے کی مالکاری کے لئے استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ شق منسوخ ہونا چاہئے تو ٹیکس و توانائی کے شعبوں میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔