14 اگست 1947وہ تاریخی دن جب ہم نے انگریزوں کے تسلط سے آزادی حاصل کی اور ہمارا پیارا وطن ' پاکستان " معرض وجود میں آیا اس سال2022میں ہم اپنے وطن کی 75ویں سالگرہ یعنی ڈائمنڈ جوبلی منا رہے ہیں۔
شہر میں جگہ جگہ جھنڈے ، جھنڈیاں، بیجز، قسم قسم کے ہرے سفید رنگوں کےچاند ستارے والے کے کپڑے، ہری سفید چوڑیاں اور نجانے کیا کچھ مل رہا ہے اور ان اسٹالز پر ننھے ننھے بچے ذوق و شوق سے خریداری میں کافی دن سے مصروف ہیں ۔
پچھلے کچھ سالوں سے جشن آزادی پر یہ نیا رواج اپنایا گیا ہے کہ امیر غریب سب اپنے بچوں کو اپنے ملک کے پرچم کے رنگ والے کپڑے پہناتے ہیں ، ان اسٹالز سے مختلف سجاوٹ کی چیزیں دلواتے ہیں اور یوں جشن آزادی کی رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔ چلیں کوئی بات نہیں اس دن کو جس طرح منانا ہے ضرور منائیں کیونکہ یہ بھی زندہ قوموں کی نشانی سمجھی جاتی ہے کہ وہ اپنا یوم آزادی جوش و خروش سے مناکر اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ وطن کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گےحب الوطنی ایک ایسا ہی جذبہ ہے جو انسان کو محنت و کوشش پر آمادہ کرتا ہے۔
خریداری میں مصروف ان معصوم بچوں کو دیکھ کر بے اختیار یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہ بچے اس دن کی اہمیت سے آگاہ ہیں ؟ یا یہ اس دن کو بھی بس ایک تہوار سمجھ کر منارہے ہیں؟ اور کیا پاکستان کی آزادی کے بعد سے ہم نے بچوں کی بہترین تعلیم وتربیت کے لئے وہ اقدامات کئے جو کئے جانے چاہئے تھے؟
اس سوال کا جواب اگر آپ کے پاس نہیں ہو تو ذرا ان جشن آزادی پر سجائے گئے اسٹالز پر ایک نظر ڈال لیجیے گا ہر سبز ہلالی پرچم کے ساتھ آپ کو ایک باجا ضرور نظر آئے گا اور یہی ہمارے اس سوال کا مایوس ترین جواب ہے۔
بچے جو ملک و ملت کا سرمایہ ہوتے ہیں انہیں ہم نے وہ اہمیت دی ہی نہیں جو دی جانی چاہیئے تھی اور ظاہر ہے کہ اس میں قصور بچوں کا نہیں بلکہ بڑوں کا ہے بچوں کو تو خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ یوم آزادی پر باجوں اور پٹاخوں کے ذریعے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بن کر خوشی منائی جائے اس طرح کا ہر بیہودہ خیال بڑے ہی بچوں کے ذہن میں ڈالتے ہیں ۔
ہم پاکستان بننے کے بعد سے اب تک کی دہائیوں کے بچوں کا موازنہ کریں تو ہر دور کے بچے ایک دوسرے سے مختلف ملیں گے اور افسوس کی بات یہ کہ شاید جسمانی طور پر تو صحت اب پچھلے دور سے اچھی نظر آئے گی لیکن ان کی ذہنی صحت اور قابلیت مسلسل زوال کا شکار ہے۔
پاکستان بننے کے فورا بعد والے بچے جستجو اور لگن والے بچے جو اپنے ملک کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور اس کے لئے تن من دھن سے پڑھائی لکھائی میں مصروف رہتے تھے محنت کرتے تھے حب الوطنی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ پھر دو جنگیں ہوگئیں اور ان دو جنگوں کے بعد والے بچے بھی وطن کی محبت سے سرشار
"دلی پہ لہرائے گا
جھنڈا پاکستان کا"
گاتے پھرتے تھے جو فوج سے والہانہ محبت کرتے تھے اور کسی بھی فوجی گاڑی یا ٹرک کو دیکھ کر " پاکستان زندہ باد " کا نعرہ بلند کیا کرتے تھے ۔
پھر سیاستدان گھروں کی عام بات چیت میں بھی گھس آئے اور بچوں کو بھی یہ سکھایا جانا شروع ہوگیا کہ کون اچھا ہے اور کون برا؟ ستر کی دہائی میں بچوں نے نفرت بھرے نعرے سیکھنے شروع کیے اور پھر مارشل لاء آگیا کچھ سال بعد صدارتی نظام آیا اور اس کے ساتھ ہی چرس ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا اور بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی اس سے سخت متاثر ہوئے۔
ستر کی دہائی سے ہی وقتاً فوقتا لسانی ہنگامے بھی ہوتے رہے اور بچے" میرا صوبہ میری زبان " کے چکروں میں الجھتے چلے گئے اسی 80 کی دہائی میں قومیت کے جھگڑے عروج پر پہنچے اور معصوم بچوں نے بھی ایک دوسرے سے سوال شروع کردئے کہ تم کون ہو؟ اسکولوں کے ننھے بچوں کے ذہنوں میں اتنی نفرت بھر دی گئی کہ پھر وہ دوسروں سے الگ گروپ بناتا ۔ عیدوں پر بچوں کے ہاتھ میں مختلف کھلونوں کی جگہ صرف کھلونا پستولیں، بندوقیں اور کلاشنکوفیں نظر آنے لگی تھیں اور دیکھ کر افسوس ہوتا تھا کہ یہ ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔ افسوس بچوں کے بھولپن ، شرارتوں اور بے فکری کی عمر ان کے بڑوں کی نفرتوں کی نظر ہوگئی۔
رہی سہی کسر ملک کے معاشی حالات نے پوری کردی بقول شاعر
افلاس کی بستی میں جاکر تو دیکھو
وہاں بچےتو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا
جن گھروں میں دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں کونسے بچے اور کیسی تربیت۔ یوں مالی آسودگی کی کمی سے چائلڈ لیبر وجود میں آئی ۔ننھے بچوں سے محنت مزدوری کروائی جانے لگی ۔ جبری مشقت ، بھیک اور جنسی تشدد سے بچوں کا بچپن ہی چھین لیا گیا اور جو گھرانے آسودہ حال تھے انہوں نے اپنے بچوں پر صرف اتنی توجہ دی کہ اچھا کھانا، اچھا لباس اور اچھا اسکول انہیں مل جائے تربیت اساتذہ پر چھوڑ دی گئی زیادہ تر اساتذہ بھی مشینی ہوگئے جنہیں صرف اپنی تنخواہ اور جیسے تیسے کورس مکمل کروانے میں ہی دلچسپی ہوتی تھی والدین یہ بھول ہی گئے کہ بچہ قول سے زیادہ عمل سے سیکھتا ہے آپ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے ۔ والدین جب بچوں کے سامنے کہیں گے کہ " پاکستان میں کچھ نہیں رکھا " تو کون بچہ ہوگا جو بڑا ہوکر پاکستان میں رہنا چاہے گا ؟
یہاں تو کسی سیاست دان کے بچے پاکستان میں نہیں رہتے " باپ کے بعد بیٹا " یہی رواج پنپ رہا ہے پھر عوام تو بولیں گے ناں کہ
میرے بچوں کے مقدر میں غلامی کیوں ہے
حکمرانی ہی کریں کیوں، یہ تمہارے بچے
اور اب ہمارے ملک کے بچوں کے لئے سب سے زیادہ تباہ کن چیز بھی عام ہوگئی ہے اور وہ ہے اینڈرائیڈ موبائل فون جو ہر دوسرے بچے کے ہاتھ میں موجود ہے اور کوئی اس کی تباہ کاریوں پر ایکشن لینے والا نہیں کہ اپنے بچوں کو اس شیطانی ڈیوائس سے بچالے ۔ چودہ سال تک کی عمر کے بچے بچے ہی کہلائے ہیں اور اب گھر گھر میں بچے اپنے ذاتی موبائل ہاتھوں میں پکڑے پب جی کھیل رہے ہوتے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ پھر وہ سولہ سولہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگ رہے ہیں ۔
تین تین کمروں کے چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں پرائیویٹ اسکول کھل گئے ہیں اور گورنمنٹ کے اسکولوں کے میدان اور کمرے سیاست دانوں اور وڈیروں کی بھینسیں باندھنے کے کام آرہے ہیں ۔ جن اسکولوں میں میدان موجود ہیں وہاں کھیلوں کا سامان نہیں ہے کوئی تربیت یافتہ کھیلوں کا ٹیچر نہیں ہوتا اور سنا ہے کہ بچے گیم کے پریڈ میں کلاس میں ہی اپنے چھپا کر لائے ہوئے موبائل دیکھ کر وقت گذارتے ہیں ۔
علامہ اقبال اپنی کشت ویراں سے مایوس نہیں تھے انہیں امید تھی کہ مٹی ذرا سی بھی نم ہوگئی تو وہ بڑی زرخیز ٹابت ہوگی میرا خیال ہے کہ اسی لئے ہمیں بھی ہمت جواں رکھنی چاہئے اور حوصلہ پست نہیں ہونے دینا چاہئے اپنے طور پر ہی سہی اپنے وطن کی خاطر اپنے چمن کے ان غنچوں کا خیال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ چمن کے یہ غنچے توجہ کے طالب ہیں انشاءاللہ ذرا سی کوشش اور توجہ سے یہی غنچے پھول بنیں گے جو ہمارے چمن کو مہکائیں گے۔
رگوں میں ہے ، گلوں میں ہے
وطن کا عشق خوں میں ہے