تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک مرتبہ پھر لاہور میں بڑا پاور شو کرنے میں کامیاب رہے۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ عمران خان کا جلسہ فلاپ ہوگیا ہے، یہ دعویٰ اگر درست مان بھی لیا جائے تویاد رکھیں یہ دعویٰ وہ لوگ ہی کر رہے ہیں جو ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو پنجاب میں کلین سویپ کروارہے تھے۔
زمینی حقائق مگراسکے برعکس تھے۔پی ڈی ایم کے رہنما اگر مزید خیالی دنیا میں رہے تو جلدان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔تحریک انصاف کے سربراہ ساڑھے تین سال کی بدترین وفاقی و پنجاب حکومت کی کارکردگی کے باوجود انتہائی اعتماد سے اپنے نئے بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں۔
حکومت کے ہر ایکشن کے بعد عمران خان مزید جارحانہ کھیل پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ 25 مئی کے لانگ مارچ کی ناکامی ہو یا پھر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ، پرسنل اسٹاف افسر شہباز گل کی گرفتاری ہو یا پھر مبینہ آڈیوز لیک ہونے کا معاملہ ہو، عمران خان ہر بار نئے روپ میں نمودار ہوتے ہیں اور عوام کو اپنے بیانیے پر قائل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ عمران خان کا بطور وزیراعظم اور عثمان بزدار کا بطور وزیراعلیٰ پنجاب اقتدار کا عرصہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین انتظامی دور تصور کیا جاتا ہے۔
وفاقی سطح پر معاشی مسائل ہوں یا پھر پنجاب میں گورننس کی صورتحال ،تحریک انصاف کی حکومت ایک تاریک دور کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔پی ڈی ایم جماعتوں کی مگربغیر منصوبہ بندی کے اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نے آج عمران خان کو مقبول بنادیا ہے۔ ملکی معاشی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے شخص کو عوام آج پھر وزیراعظم بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
پی ڈی ایم جماعتوں کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے عمران خان کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹ گئی اور ’’مظلومیت‘‘ کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
یہ ایک عام رائے بن گئی ہےکہ ایک شخص کا مقابلہ گیارہ جماعتوں سے ہے۔یہاں تک کہا گیا کہ عمران خان اکیلے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں.....حالانکہ قارئین کی یادداشت کےلئے گوش گزار کرتا چلوں کہ مارچ میں جب پی ڈی ایم جماعتوں نے مل کر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کی تیاری شروع کی تو تحریک انصاف سیاسی طور پر انتہائی کمزور ہوچکی تھی۔
ملک میں ہونے والے اکثر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑ ا تھا۔پنجاب کے عوام بزدار راج سے تنگ آچکے تھے۔معیشت آخری سانسیں لے رہی تھی۔
عمران حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب کسان کے لئے کھاد اور بجلی میسر نہیں تھی۔مگر پی ڈی ایم جماعتوں کو ان دنوں ہی عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی سوجھی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جس غیر فطری اتحاد کے ذریعے شہباز صاحب وزیراعظم بنے،وہ ناقابلِ فہم تھا۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے،بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کی سیاست اور مسلم لیگ ن کی سیاست بالکل مختلف ہے ۔
عمران خان سے نبر د آزما ہونے کے بعد انہی سیاسی قوتوں نے مستقبل میں ایک دوسرے کے مدمقابل آنا ہے،لیکن انہیں کچھ یوں متحد کیا گیا کہ اب یہ جماعتیں جو کہہ اور کررہی ہیں ،زندگی بھر ان کی جانب سے کیے گئے فیصلے ان کا تعاقب کرتے رہیں گے۔
پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کی ایک ہی خواہش تھی کہ مسلم لیگ ن انہیں پنجاب میں ایڈجسٹ کرے اور ان کے امیدوار کے مقابلے میں ٹکٹ جاری نہ کرے۔ آج صورتحال مگر مختلف ہے۔
عوامی رائے عامہ کا کوئی بھی جائزہ اٹھا کر دیکھ لیں،پی ڈی ایم کی حکمتِ عملی کا کہیں بھی دفاع نہیں کیا جاتا،جس شخص کی نااہلی پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ جوعارف نقوی سے فنڈنگ لیتا ہے ،جن کے خلاف امریکہ اور برطانیہ میں تحقیقات چل رہی ہیں۔آج آپ کی غلط پالیسیوں کے باعث وہ خود کو مظلوم کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
عام آدمی جو محلاتی کھیلوں سے ناواقف ہے،وہ یہی سمجھتا ہے کہ عمران خان اکیلا کھلاڑی ہے اور دوسری طرف گیارہ کھلاڑی ہیں ۔حالانکہ بطور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی اتحادیوں کا ایک لشکر تھا مگر تحریک انصاف اس کی تشہیر نہیں کرتی تھی۔
آج اس صورتحال میں سب سے زیادہ سیاسی نقصان مسلم لیگ ن کا ہوا ہے۔بہر حال اس کے اثرات سندھ میں پیپلزپارٹی اور خیبر پختونخوا میں مولانا صاحب کے ووٹ بینک پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔
پہلے تو گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت لینا ہی غلط سیاسی فیصلہ تھا۔ کچھ دیر کےلئے اگر عمران خان کو حکومت سے نکالنے کی دلیل سے اتفاق بھی کربھی لیا جائے تو پھر طویل عرصہ کےلئے حکومت رکھنے کا سوچنا اس سے بھی بڑا بلنڈر تھا۔
یہ گیارہ سیاسی جماعتیں زندگی بھر ان ڈیڑھ برسوں کے بوجھ سے نہیں نکل سکیں گی۔یہ درست ہے کہ حکومت سازی کے عمل میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے،ایک ایسا تعاون جس کے نتائج زیادہ اور تشہیر کم ہو۔مگر عوامی جلسوں میں اور مہم میں ایک دوسرے کے ساتھ چلنا بڑی سیاسی غلطی ہےجسے جس قدر جلد سدھار لیا جائے ،اتنا ہی بہتر ہے۔
تمام جماعتیں اپنے اپنے سیاسی منشور کے مطابق جمہوریت کی مضبوطی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے انفرادی طور پر کام کریں ۔عمران خان کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی بھی غلطیوں کی نشاندہی کریںمگر خدارا ایک دوسرے کی بی ٹیم مت بنیں۔شنید ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف وطن واپسی کی تیاری کررہے ہیں۔
نوازشریف ایک زیرک اور سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ انہیں پی ڈی ایم کی جانب سے ہونے والی تمام سیاسی غلطیوں کا ادراک ہے۔ اسلئے انہوں نےپاکستان واپس آکر مقدمات کا سامنا کرنے اور مسلم لیگ ن کی باگ ڈور خود سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ مزید سیاسی بلنڈرز سے بچا جاسکے۔
بہرحال نوازشریف کی واپسی جب بھی ہو مگر پی ڈی ایم اکابر کو چاہئے کہ ازسرنو سیاسی حکمت عملی تشکیل دیں اور زرخیز دماغوں سے مشورہ لے کر اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔وگرنہ عمران خان اپنے دعوئوں پر عمل کرنے میں کامیاب رہے گا۔