• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حالات میں خدمتِ خلق اور ایثار و انفاق کی ضرورت و اہمیت

مولانا نعمان نعیم

ارشادِ ربّانی ہے: اگر اللہ اپنے تمام بندوں کے لیے رزق وسیع کردیتا تو وہ ضرور زمین میں فساد پھیلاتے۔(سورۃالشوری:27) اگررب کائنات اپنے تمام بندوں کا رزق ایک جیساکر دیتا تو عین ممکن تھا کہ لوگ مال و دولت کے نشے میں چور ہو کربغاوت و سرکشی پر اترآتے اور زمین کو فتنہ وفساد سے بھر دیتے، نیز جب کوئی کسی کا محتاج نہ ہوتا تو ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنا بھی دشوار و محال ہوجاتا، مثلاً کوئی گندگی صاف کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا، کوئی سامان اٹھانے پر راضی نہ ہوتا، کوئی تعمیراتی کاموں میں محنت مزدوری کے لیے آمادہ نہ ہوتا، یوں نظامِ عالم میں جو بگاڑ پیدا ہوتا، اسے ہر عقل مند بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

امام ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی ؒفرماتے ہیں:’’اگرچہ بندوں کی بہتری اور فائدے کے کام کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں، ا س کے باوجود اللہ تعالیٰ کے افعال حکمت و مصلحت سے خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حال کو جانتا ہے کہ اگر اس پر دنیا کا رزق وسیع کر دیا تو یہ وسعت بندے کے اعمال کو فاسد کر دے گی، اس لیے ا س پر رزق تنگ کر دینے میں اسی کی مصلحت اور بہتری ہے، لہٰذا کسی پر رزق تنگ کر دینے میں اس کی توہین مقصود نہیں اور نہ ہی کسی پر رزق کشادہ کر دینا اس کی فضیلت کا سبب ہے۔ مزید فرماتے ہیں: ’’تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہیں، وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے اور وہ اپنے کسی فعل پر جواب دِہ نہیں ،کیونکہ وہ علیٰ الاطلاق مالک ہے۔ (تفسیر قرطبی،سورۃ الشوری)

امام ابو نعیم اصفہانیؒ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء میں حضرت انس ؓ سے ایک روایت نقل فرمائی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ا ن کے ایمان کی بھلائی مال داری میں ہے ،اگر میں انہیں فقیر کر دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔ بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی فقیری میں ہے، اگر میں انہیں مالدار بنا دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔

بے شک ،میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی صحت مند رہنے میں ہے ،اگر میں انہیں بیمار کر دوں تو اس بناء پر ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔ بے شک، میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کی ایمان کی بھلائی بیمار رہنے میں ہے، اگر میں انہیں صحت عطا کر دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔ میں اپنے علم سے اپنے بندوں کے معاملات کا انتظام فرماتا ہوں ،بے شک میں علیم و خبیر ہوں۔

یہ بات واضح ہوگئی کہ غربت و ثروت،امیری و فقیری ،صحت وبیماری اور خوش حالی و تنگ معاشی کا تعلق تقسیم خداوندی سے ہے،اس لیے بندوں کو چاہیے کہ وہ اس کی تقسیم پر راضی اور تقدیر پر خوش رہیں۔ ہاں ! دولت مند کا فریضہ ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی دولت میں سخاوت و فیاضی سے کام لے اور محتاجوں کی حاجت روائی کرے، جب کہ مفلس وغریب کوچاہیے کہ وہ قناعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے۔

ان دنوں مہنگائی کے باعث ہر شخص معاشی بحران کا شکار اور مختلف پریشانیوں سے دوچارہے، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، ہم دردی سے پیش آئیں، ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس کریں۔ جو مکان دار ہے، وہ اپنے کرایے میں کمی کرے، جو قرض وصول کرنے والا ہے، وہ اپنے مقروض کو قرض لوٹانے کا مزید موقع دے،جو مالک و عہدیدار ہے، وہ اپنے ملازم کا حسب وسعت خیال رکھے۔ اگر ہم دنیا کی مختصر زندگی میں اس حوالے سے بھی خلق خدا کے کام آئیں گے تو کل آخرت کی ابدالآباد زندگی میں خالق کائنات ہمارے کام آئے گا ۔

آج کتنے اہل ثروت ایسےہیں جو باہر تو خدمت خلق کے مختلف کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، مگر ان کے قریبی رشتے دار فاقہ و افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آج کتنے تاجر ایسے ہیں جو دست سوال دراز کرنے والوں کے ساتھ تو داد و دہش کا معاملہ کرتے ہیں، مگر دکان پر آنے والے ایک غیرت مند غریب کے جذبات و احساسات سے ناواقف ہیں۔ آج کتنے خوش حال ایسے ہیں جوخود تو تین وقت انواع و اقسام کی غذاؤں سے لذتِ کام و دہن کا سامان کررہے ہیں ،مگر ان کے گھر سے متصل ان کا عیال دار پڑوسی نان شبینہ کا محتاج ہے۔ آج جہاں عمومی اعتبار سے خدمت خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں سرگرمی دکھانا ضروری ہے ،اتنی یا اس سےبدرجہا زیادہ اپنے گرد و پیش میں موجود ،اپنی ذات سے وابستہ اور اپنے دکان و مکان میں برسرکارضرورت مندوں کی خبر گیری بھی ضروری ہے۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جوشخص خود تو شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا رہے، وہ ایمان دار نہيں۔(مشکوٰۃ)

حضرت امام بخاریؒ نے اپنی صحیح کی کتاب البیوع میں ایک باب اس طرح قائم کیا ہے:خرید وفروخت کے وقت نرمی اور وسعت و فیاضی کے بیان میں۔ اس باب میں ایک روایت معروف صحابیِ رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ کی نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر شخص خواہ دکان دار ہو یا خریدار اپنا معاملہ نرمی اور سنجیدگی کے ساتھ انجام دے، سختی، ترش روئی اوربد زبانی سے پیش نہ آئے، اسی طرح اپنا حق اور قرضہ وصول کرنے والا سختی نہ کرے، درشت لہجہ استعمال نہ کرے، نرمی اور سنجیدگی سے کہے، اس طرح معاملہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اترتی ہے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے ، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرے وہ ایسا ہے جیسے اس نے حج اور عمرہ کیا۔(جامع صغیر)

حضرت حذیفہ بن یمان ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا، تم سے پہلے گزشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس (موت کے وقت) فرشتے آئے اور پوچھا کہ تو نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں؟روح نے جواب دیا کہ میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مالدار لوگوں کو (جو ان کے مقروض ہوں) مہت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں۔ اور محتاجوں کو معاف کر دیا کریں۔ راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا، پھر فرشتوں نے بھی اس سے درگزر کیا اور سختی نہیں کی ۔ (صحیح بخاری )

مشہور مغربی مصنف اسٹین لین پول نے اپنی کتاب ’’اسلام ان چائنا‘‘میں مسلمان تاجروں کی خوبیوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’وہ تجارتی معاملات میں امانت دار تھے اور کبھی خیانت کا ارتکاب نہیں کیاکرتے تھے۔ پھرجب وہ یہاں چین میں منصب قضاء تک پہنچے اور حاکم بنے تو انہوں نے ظلم کیا،نہ کبھی طرف داری سے کام لیا۔ وہ عزت والے تھے اور عزت کرتے تھے۔وہ متعصب نہ تھے ،بلکہ جہاں تک شریعت اسلامیہ انہیں اجازت دیتی ،وہ فراخ دل اورعالی نفس تھے۔ وہ چینیوں کے ساتھ یوں مل جل کر رہتے تھے جیسے کہ ایک ہی خاندان کے افرادرہتے ہیں۔‘‘

ایک طرف وابستگان اسلام کے یہ بلند اخلاق کہ اغیار بھی اعتراف پر مجبور اور دوسری طرف ہماری حالت زار۔ آج کے اس خزاں رسیدہ معاشرے میں اخلاق وکردار ،حسن معاملات اور نرمی و محبت کے آثار مٹتے جارہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ نبی کریمﷺ کے اخلاق حسنہ سے دوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قوموں میں رسوا اور ذلیل ہو رہے ہیں اور بگاڑ کا گھن ہمیں دیمک کی طرح کھاتاجارہا ہے۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کرتے ہیں جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم دوسروں کی دیکھا دیکھی کام نہ کرو کہ یوں کہنے لگو اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں تو ہم بھی ان کے ساتھ بھلائی کریں اور اگر لوگ ہمارے اوپر ظلم کریں تو ہم بھی ان پر ظلم کریں ،بلکہ تم اپنے آپ کو اس بات پر قائم رکھو کہ اگر لوگ بھلائی کریں تو تم بھی بھلائی کرو اور اگر لوگ برا سلوک کریں، تب بھی تم ظلم نہ کرو۔(ترمذی)

آج صورت ِشمع جلنے اور دوسروں کا گھر روشن کرنے والے نایاب نہ سہی کم یاب ضرور ہیں، انسانیت کا وقار باقی رکھنے اور انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والوں کا فقدان ہوتاجارہا ہے، کسی کو دکھ اور تکلیف کے عالم میں دیکھ کر تڑپ اٹھنے اور مقدور بھر سعی وکوشش کے ذریعے مجبوروں کےدکھوں کا مداوا کرنے والے کم ہوتے جارہے ہیں، غریبوں کی حمایت، درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت کو مطمح نظر رکھنے والے کروڑوں میں ہزار بھی نہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بندگان خدا کے ساتھ فراخی و سہولت کا معاملہ کرے،تاجر اپنی تجارت میں، قرض خواہ قرض طلبی میں اوردیگر حقوق کا تقاضا کرنے والے اپنے تقاضے میں نرمی سے کام لیں۔ اس وقت کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں، مثلاً کسی کوغلے کی ضرورت ہے، اسے غلہ دے دیا، گھر میں سامان کی ضرورت ہے اسے بر وقت عطا کردیا، کوئی ضعیف و ناتواں شخص پھل فروخت کررہاہے، اس سے پھل خریدلیے، کوئی دوائی کے لیے پریشان ہے ،اس کی مدد کردی،کوئی قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، اس کے حق میں سفارش کردی، کوئی میت کی تجہیز و تکفین کےلیے سرگرداں ہے ،اسے آسان راستہ بتادیا۔ اس وقت ہمارا ملک شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث جس طرح آفات،بدترین تباہی اور معاشی بدحالی سے دوچار ہے،ایسے میں صاحبِ ثروت افراد اور مالی وسعت رکھنے والے طبقے پر لازم ہے کہ وہ آزمائش اورمصیبت کی اس گھڑی میں اپنے مسلمان بھائیوں کی بھرپور کریں۔ان کی بڑھ چڑھ کر امداد کریں۔

اسلام کی سُنہری تعلیمات ہمیں اس امر کا پابند کرتی ہیں کہ ہم مشکل اور آزمائش کی اس گھڑی میں اپنے اِن بھائیوں کی ہر طرح مدد کریں، خدمتِ خلق، فلاحِ انسانیت، ایثار و ہمدردی کے اُن جذبات کا مظاہرہ کریں، جو ہمارے دین کا شِعار اور ہماری دینی، مِلّی اور تہذیبی اقدار کے آئینہ دار ہیں۔ اس موقع پر ہمیں جسدِ واحد اور تسبیح کے دانوں کی طرح متّحد ہوکر اخوّت و اجتماعیت، یگانگت اور دینی و مِلّی اتّحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خدمتِ خلق اور ایثار و ہمدردی کے اُس جذبے کو عام کیا جائے، جو ہمارے دینِ متین کا امتیاز اور ہمارے قومی و مِلّی مزاج کی رُوح ہے۔