1974ء کا برس ہماری قومی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ اس سال 22 سے 24 فروری تک لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ لاہور کی بادشاہی مسجد میں اسلامی سربراہان نے نمازِ جمعہ ادا کی۔ اسلامیانِ پاکستان نے مسلم امہ کی قیادت کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے۔ کانفرنس کے آغاز سے قبل وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ گویا پاکستان رسمی طور پر مشرقی پاکستان سے دست بردار ہو گیا۔ کچھ کینہ صفت افراد کہتے ہیں کہ اسلامی کانفرنس کا یہ میلہ دراصل بنگلا دیش کو تسلیم کرنے کیلئے ہی سجایا گیا تھا۔، مولانا کوثر نیازی تو یہ بھی کہتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کے استقبال کے لئے بڑی تعداد میں بنگلا دیش کے پرچم پہلے سے تیار کر کے لاہور میں ایک محفوظ مقام پر رکھے تھے۔ تاہم ان فروعی معاملات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے محبانِ ملت کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کانفرنس سے بھٹو صاحب عالم اسلام کے متفقہ عظیم رہنما کے طور پر ابھرے۔ بعد ازاں یہ اعزاز جنرل ضیاالحق کو نصیب ہوا جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر سے پہلے پاکستان ٹیلی وژن سے تلاوت نشر کروا کے فرزندانِ توحید کے سر بلند کر دیے۔ اختر وقار عظیم نے ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ کے عنوان سے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ’تقریر سے پہلے اظہرلودھی نے اعلان کیا کہ کچھ دیر بعد صدر پاکستان جنرل ضیاالحق خطاب فرمائیں گے۔ ان کی تقریرسے پہلے تلاوت کلام پاک سنیے، قاری شاکر قاسمی نے تلاوت کی، پھر قرآنی آیات کا ترجمہ سنایا۔ دیکھنے والے یہ سمجھے کہ صدرنے کانفرنس ہال سے تلاوت کلام پاک سنانے کا خصوصی انتظام کیا ہے، قرأت کے دوران ہال میں بیٹھے مندوبین کی تصویریں بھی دکھائی جاتی رہیں تاکہ محسوس ہوکہ وہ تلاوت کلام پاک سن رہے ہیں حالانکہ وہ اس وقت صدرپاکستان سے پہلے بولنے والے مقررکی تقریرسن رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اظہرلودھی کی انائونسمنٹ اور قاری صاحب کی تلاوت اقوامِ متحدہ کے ہال سے منسلک ایک اسٹوڈیو سے کی گئی تھی‘۔ مگر یہ تو ہم بھٹک کر اکتوبر 1980میں نکل گئے۔ ذکر تو 1974 کے تاریخی برس کا تھا۔
دراصل عالمِ اسلام کی قیادت کے تصور ہی میں ایسی کشش ہے کہ قلم کی پرواز سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ خصوصاً ان دنوں جب عمران خان کی صورت میں عالم اسلام کا ایک اور عظیم رہنما منظر عام پر ابھر رہا ہے۔ حالات ایسے ہیں گویا قدرت خود عمران خان کے لئے راستہ ہموار کر رہی ہے۔ افغانستان میں طالبان نے عمران خان کے بقول غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں مگر اسلامو فوبیا میں مبتلا مغربی دنیا تو ایک طرف، مسلم اکثریت کے حامل 57 ممالک میں سے بھی کوئی ایک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ ایران سے توقعات تھیں مگر افسوس کہ بیشتر اسلامی ممالک بوجوہ ایران کی رہنمائی تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔سعودی عرب مسلم دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے لیکن وہاں محمد بن سلمان وژن 2030 ء کے بہلاوے میں آ کر اسرائیل کےلئے نرم گوشہ اختیار کر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات تک قائم کر لئے ہیں۔ موجودہ مالی سال کے پہلے سات ماہ میں دونوں ممالک میں تجارت کا حجم 1.7ارب ڈالر کو پہنچ گیا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ ہم نے بعینہ 1.7 ارب ڈالر ہی کے لئے آئی ایم ایف کے دروازے پر دریوزہ گری بھی کی اور اندرون ملک بھی گالی دشنام کا نشانہ بنے۔ بنگلہ دیش سے کیا توقع رکھی جائے۔ وہاں دستور کا سیکولر تشخص بحال کر دیا گیا ہے۔ ترکی کی سنیے۔ ہم ارطغرل کے پرجوش مکالموں میں کھوئے رہے، طیب اردوان نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات بحال کر لئے۔ بے شک مغربی ممالک اپنے سامراجی مفادات کے لئے سنکیانگ کی مسلم آبادی سے بدسلوکی پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں، ہم مگر سابق وزیراعظم عمران خان کے اس بیان سے مطمئن ہیں کہ ’چین میں متعین پاکستانی سفیر نے سنکیانگ میں دس کروڑ مسلمانوں کے حالات کو اطمینان بخش قرار دیا ہے‘۔ مصر میں محمد مرسی انتقال کر چکے ہیں اور جنرل عبدالفتح السیسی برسراقتدار ہیں لیکن جنرل السیسی تدبر اور تقویٰ میں عمران خان کی گرد کو نہیں پہنچتے۔ لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم۔ کالم کی سوئی مگر 1974ء پہ رکی ہوئی ہے۔
اگست 1974 ء میں ہدایت کار رحمت علی کی فلم ’خطرناک‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی تاریخی اہمیت تو یہ ہونا چاہئے تھی کہ اکتوبر 1972 ء میں ریاض شاہد کی وفات کے بعد فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی اداکارہ نیلو ’خطرناک ‘میں جلوہ آرا ہوئیں مگر اس فلم میں خواجہ پرویز کے نغموں اور صفدر حسین کی موسیقی پر فلمائے گئے گیتوں میں انیتا نامی اداکارہ کے ہوشربا رقص نے ناقابل اشاعت وجوہ کی بنا پر دھوم مچا دی۔ نوجوان نسل کو شاید یہ فلم ایک بھولی بسری کہانی معلوم ہوتی ہو مگر عمران خان ہماری تاریخ کے شناور ہیں۔ انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری دنوں میں فرمایا تھا کہ میں اقتدار سے نکل کر خطرناک ہو جائوں گا۔ گزرے ہوئے کل انہوں نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر فرمایا کہ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خطرناک ہورہا ہوں۔ اس موقع پر ایک صحافی کے سوال پر عظیم رہنما نے یہ بھی کہا کہ ’ہیرے سستی چیز ہیں۔ کسی مہنگی چیز کی بات کرو‘۔ اس خوبصورت مکالمے سے معلوم ہو گیا کہ عمران خان مغربی دنیا ہی کو سب سے بہتر نہیں جانتے، وہ ہماری فلمی روایت سے بھی بخوبی آشنا ہیں۔ یوسف رضا گیلانی پر توشہ خانے سے ایک ہار لینے کا الزام لگا تھا۔ اب ایک مبینہ آڈیو گفتگو میں ہیروں سے مرصع انگوٹھی کا ذکر آیا ہے۔ عمران خان سوال کا براہ راست جواب دینے کی بجائے فلمی مکالمہ ادا کرتے ہیں۔ صاحب سوال مہنگی اور سستی چیز کا نہیں کیونکہ صادق اور امین کا معیار قائم کرتے ہوئے بدعنوانی کا نصاب متعین نہیں کیا گیا۔ آخری بات یہ کہ سیاسی رہنما خطرناک نہیں، قوم کا خیرخواہ ہوتا ہے۔