• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملکِ عزیز میں چاروں طرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ آئینی مسائل، سیاسی مسائل، مذہبی مسائل، علاقائی مسائل، گروہی مسائل ،ثقافتی مسائل، تعلیمی مسائل، صحتِ عامہ کے مسائل، لسانی مسائل، دفاعی مسائل، بے روزگاری کےمسائل، زندگی کے سارے مسائل، اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جہاں وسائل نہ ہوں وہاں مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر مسئلہ سو فیصد معاشی مسائل سے جڑا ہوا ہے ۔تمام سیاسی و سماجی مسائل کی بنیاد معیشت ہے۔ مسائل حل نہ ہو رہے ہوں یا حل ہونے کی رفتار عوامی توقع اور صورتِ حال کے تقاضوں سے کہیں کم اور دھیمی ہو تو پریشان حال عوام کا پریشان ہو جانا فطری ہے، صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ حکومت انتظامیہ، عدلیہ، منتخب اداروں، اور معاشرے سے مایوس اور بدظن ہوتے جا رہے ہیں۔ جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہو پا رہے۔ ان حالات میں مایوس عوام کا منفی سمتوں کی طرف روانہ ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔علاقائی اور مذہبی فرقہ پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر گروہ اور جتھے تشکیل بنائے جا رہے ہیں۔ اور ہنوز یہ عمل جاری و ساری ہے۔معاشرے سے روا داری اور برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے۔ اور یہ بات ہر کس و ناکس جانتا ہے کہ جمہوریت صرف جمہوری عمل جاری و ساری رہنے اور بڑھاوا دینے، ترقی کرنے اور نشوونما کےفروغ سے ہی مضبوط و مستحکم ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چھومنتر، کوئی ٹونا ٹوٹکا، کوئی دوا دارو، کوئی اکسیری نسخہ، کوئی دعا و عبادت ،کوئی الہٰ دین کا چراغ، کوئی گیدڑ سنگھی، کوئی امرت دھارا ،کوئی جادو کی چھڑی یا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔ لاہور میں میرے ساتھ ایک ملاقات میں ترقی پسند رہنما عابدحسن منٹو نے ایک نہایت اہم اور پتے کی بات کہی کہ سیاست دانوں نے موجودہ نظام کو تبدیل نہ کیا تو ملک کو معاشی تباہی کا زبردست سامنا کرنا پڑے گا۔ میں یہاں اسحاق ڈار کی بات نہیں کروں گا بلکہ عابد حسن منٹو کی بات کی تائید کرتے ہوئے ملک عزیز کی معاشی تباہی کے حل کے لئے اپنے حساب سے کچھ گزارشات عرض کروں گا۔میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ وہ شخص پاکستان کے بارے میں کیا جانتا ہے جو صرف پاکستان کے بارے میں جانتا ہے۔

عام مفہوم میں ہم ایسا کہیں گے جس طرح کوئی گھر یا خاندان چلتا ہے قومی معیشت کو چلانے کیلئے بھی وہی اصول ہیں۔ وہی بجٹنگ ،وہی آمدنی، وہی اخراجات، وہی سیونگ اور وہی سرمایہ کاری ۔قومیں بھی اسی طرح چلتی ہیں جیسے گھرانے چلتے ہیں جب کسی گھرانے کے حالات ناگفتہ بہ اورمخدوش ہو جائیں تو وہ دوسروں سے قرض لیکر کام چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے جب مزید قرض دینے سے انکار کر دیتے ہیں کہ پہلے قرضوں کی واپسی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ۔ اس گھرانے کیلئے سوائے اس کے اب کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ ایک تو وہ اپنے گھر کے لوگوں کا معیارِ زندگی کم کرے ( میں یہاں غریب لوگوں کی بات نہیں کر رہا) اور دوسرے اپنے اثاثے فروخت یا رہن رکھ کر روپیہ حاصل کرے، عام لفظوں میں اس وقت پاکستانی معیشت ایسا ہی ایک گھرانہ ہے جس کا بال بال (یہاں مراد بچے بھی ہیں ) قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور وہ وقت آ گیا ہے، جب قوم سال بھر میں جو کماتی ہے سب کا سب پرانے قرض اتارنے اور سالانہ سود اتارنے یا ادا کرنے پر لگ رہا ہے، چنانچہ ہمارے پاس واحد اور میری نظر میں یہی ایک راستہ ہے کہ ہم اپنی قومی معیشت کی ازسر نو معیشت یا پیروسٹروٹیکا کیلئے خود اپنے وسائل پیدا کرنے کی غرض سے قومی اثاثوں کوLiquidateکریں۔ کسی بھی سیاست دان یا معاشیات دان نے آج تک ہمیں یہ نہیں بتایا کہ ہماری وفاقی حکومت کے مجموعی اثاثے ہیں اور کہاں کہاں ہیں ؟ معیشت کے بارے میں تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والے ایک شخص کے طور پر میرا اندازہ ہے کہ وفاقی حکومت کے اثاثوں کی مالیت کسی طور پر بھی 125ہزار کروڑ سے کم نہیں۔ سر فہرست 22 کارپوریشنز اور پاکستان ریلوے کے 20انڈسٹریل پلانٹس ا ور ورکشاپ ہیں جن کی مجموعی مالیت اربوں ڈالرز ہے،جس کے بعد پی آئی اے، پاکستان شپنگ ،سول ایوی ایشن اتھارٹی، ٹی اینڈ ٹی، واپڈا، پورٹس اور کئی دیگر اثاثے ہیں، جن کی مالیت بے پناہ ہے۔ یہ تمام کے تمام اثاثے وفاقی حکومت کی ملکیت ہیں جن کی مجموعی مالیت پاکستان کو ڈوبنے سے بچا سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے کہ ملک کی بیمار معیشت کو جوں کا توں قائم رکھنے اور چلانے کیلئے زبوں حال قوم کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبایا جا رہا ہے اور وفاقی حکومت کے لئے بے پناہ اثاثے اپنی جگہ محفوظ اور منجمد پڑے ہوئے ہیں۔اتنا ہی المناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کو اپنے اثاثوں کی محض دیکھ بھال اور انتظام و انصرام پر ہر سال لگ بھگ7ہزار کروڑ سے زیادہ صرف کرنا پڑتے ہیں۔ ایک طرف سفید ہاتھی پالے جا رہے ہیں تو دوسری طرف عوام کی بودو باش ،روزگار ،صحت، تعلیم و تربیت اور ترقی و بہبود پر صرف کرنے کیلئے حکومت کے پاس بڑے بڑے قرضے لینے کے باوجود کوئی پیسہ نہیں۔ اب ایک آخری بات …

ایک کروڑ پتی ایم پی اے اپنے علاج کیلئے شہر کے ایک خیراتی اسپتال میں داخل ہوا، انتظامیہ نے بتایا کہ یہ خیراتی اسپتال ہے یہاں صرف غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے توکروڑ پتی نے جواب دیا، ’’ میں غریبوں کا نمائندہ ہوں اس لئے اس اسپتال میں علاج کروانا میرا استحقاق ہے۔‘‘

کون عاشق خدا کی ذات کا ہے

سارا چکر معاشیات کا ہے

تازہ ترین