کھیل کوئی بھی ہو ٗ فتح یا شکست کا امکان آخری بال اورر آخری لمحے تک رہتا ہے۔ بدھ کو افغانستان کے خلاف ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم میچ تقریباً ہار چکی تھی مگر نوجوان فاسٹ بولر نسیم شاہ نے آخری اوور میں دو گیندوں پر یکے بعد دیگر دو زور دار چھکے لگا کر پانسہ پلٹ دیا ۔ نسیم شاہ کو سب سے زیادہ شاباش لیکن فتح ٹیم ورک کا نتیجہ ہے اور تمام کھلاڑی شاباش کے مستحق ہیں۔ کپتان بابر اعظم جن پر ٹیم کی کامیابی کا زیادہ انحصار کیا جاتا ہے ٗ ایشیاکپ کے دوسرے میچوں کی طرح اس میچ بھی ناکام ہو گئے مگر دوسرے کھلاڑیوں نے ذمہ دارانہ کھیل پیش کرکے صورتحال کو سنبھال لیا اس فتح سے بھارت کی مضبوط اور افغانستان کی ابھرتی ہوئی ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی جس سے دونوں ملکوں میں مایوسی پھیل گئی پاکستانی ٹیم فائنل میں پہنچ گئی۔ اب اتوار کو اس کا مقابلہ سری لنکا سے ہوگا جو ابتدائی میچ میں افغانستان سے ہار گئی تھی مگر ہمت نہ ہاری اور بھارت جیسی ٹیم کو ہرا کر فائنل میں پہنچی ۔ توقع ہے پاکستان روایتی کھیل کا مظاہرہ کرکے ایشیائی چیمپئن شپ جیت لے گا بدھ کو کھیل کے دوران اور بعد میں کچھ ناخوشگوار واقعات پیش آئے جن کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ افغان شائقین شکست کا صدمہ برداشت نہ کر سکے اور پاکستانی تماشائیوں کو کرسیاں مارنا شروع کر دیں ۔ ادھر پشاور میں قومی ٹیم کی جیت کی خوشی میں شائقین کی ہوائی فائرنگ سے تین افراد جاں بحق اور بعض زخمی ہو گئے ٗ کھیل میں ایک ٹیم جیتتی ہے تو ایک ہارتی بھی ہے۔ اس پر غصے یا خوشی میں اخلاقیات کی حدود پامال نہیں کرنی چاہئیں آج ایک ٹیم ہاری ہے تو کل جیت بھی سکتی ہے مگر جن کی جانیں گئیں وہ واپس نہیں آئیں گے ۔ کھیل کو کھیل سمجھ کر اسے انجوائے کرنا چاہئے پاکستان کی کرکٹ ٹیم اچھا کھیل رہی ہے۔ توقع ہے کہ وہ اسی طرح قوم میں خوشیاں بانٹتی رہے گی۔ فتح پر اسے اپنی کارکردگی کو اورر بہتر بنانا اور شکست پر اپنی خامیاں دور کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔