اس مرتبہ سیلاب اور بارشوں سے پاکستان میں جتنی تباہی ہوئی، اس کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اسے ’’ماحولیاتی تبدیلی کی تباہی‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان ان 10ممالک میں شامل ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں افغانستان، بنگلہ دیش، ہیٹی، کینیا، ملاوی اور شمالی افریقا کا ملک نائجر شامل ہیں۔ یہ ملک خود اس ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ دار نہیں بلکہ اس کے ذمہ دار وہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں، جہاں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی ’’گلوبل وارمنگ‘‘ (عالمی حدت) کی وجہ سے ہو رہی ہے اور اس کا بنیادی سبب گرین ہائوس گیسز خصوصا ًکاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہے، جو زیادہ تر صنعتی ممالک سے ہوتا ہے اور اس کا خمیازہ غریب ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں گرین ہائوس گیسز کااخراج ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر ایسے اقدامات کئے جائیں، جو ’’ماحولیاتی انصاف‘‘ کے تصور پر مبنی ہوں۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ماحولیاتی انصاف کے حوالے سے کام کرنے کیلئے اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ بلاول بھٹو زرداری نے بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس معاملے پر ایک عالمی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ گلوبل وارمنگ ایک عالمی بحران بن گیا ہے، جس کے زیادہ خطرناک اثرات ان غریب ملکوں پر مرتب ہو رہے ہیں، جو اس کے کم سے کم ذمہ دار ہیں۔ ’’مرکیٹر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آن گلوبل کامنز اینڈ کلائمیٹ چینج‘‘ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی سے دنیا کی 85 فیصد آبادی متاثر ہو چکی ہے اور تیسری دنیا کی اقوام بہت تیزی سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے گرین ہائوس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ انہوں نے پورا نہیں کیا۔ ان کی وجہ سے جو غریب اقوام تباہ ہو رہی ہیں، ان کے نقصانات کا ازالہ کون کرے گا؟ پاکستان میں کتنی بڑی تباہی ہوئی ہے، ساری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ اس مرتبہ ملک کے مختلف علاقوں میں 5 سے 8 گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ اس وقت ایک تہائی پاکستان پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ 95ہزار مربع میل سیلاب کی زد میں ہے۔ 1300سے زائد لوگ جاں بحق ہو گئے ہیں، جن میں 450 بچے بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگ سیلاب سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں ۔ متاثرین میں خواتین اور بچوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ یونیسیف کے مطابق ایک کروڑ 60 لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے 34لاکھ بچوں کو انسانی بنیادوں پر فوری امداد کی ضرورت ہے۔ 80سے 90فیصد فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ 8لاکھ سے زیادہ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ 10لاکھ سے زیادہ گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ شاہراہوں، سڑکوں اور پلوں سمیت انفراسٹرکچر کی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ پاکستان کے 80اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ ان میں بلوچستان کے 31 ، سندھ کے 23 ، خیبرپختونخوا کے 17، گلگت بلتستان کے 6 اور پنجاب کے 3 اضلاع شامل ہیں۔ پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ سیلاب سے اب تک پاکستان کو 10ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے، جو پاکستان کے جی ڈی پی کا 3 فیصد ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا یہ ہے کہ نقصانات کا تخمینہ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔
مکانات منہدم ہونے، فصلیں ڈوبنے اور مویشی ہلاک ہونے سے نہ صرف متاثرین بے گھر ہیں بلکہ ان کی معیشت بھی تباہ ہو گئی ہے۔ صرف سندھ میں 14 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، جن میں چاول، کھجور، گنا، ٹماٹر، پیاز، مرچ اور خریف کی دیگر فصلیں شامل ہیں۔ پانی اترنے اور زمین کے قابل کاشت ہونے میں ابھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔ اس لیے شاید گندم کی بوائی میں بھی مشکلات ہوں۔ متاثرین کی معیشت کی بحالی کیلئے بہت وسائل درکار ہوں گے۔ فصلوں کی تباہی اور مویشیوں کے مرنے کے پاکستان کی معیشت پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سال پیاز ، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کی قیمتیں 2021 کے مقابلے میں 98 فیصد زیادہ ہیں۔ پاکستان کو سبزیاں اور دیگر اجناس درآمد کرنا پڑیں گی۔ اس سے پاکستان کے امپورٹ بل میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان کی معیشت پر اس کےمزید گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے، جو پہلے ہی کورونا سے متاثر تھی اور سابقہ حکومت کی وجہ سے شدید بحران کا شکار تھی۔ متاثرین کی بحالی کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے بھی بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہو گی۔
یہ ٹھیک ہے کہ نجی فلاحی ادارے اور تنظیمیں متاثرین کو ریلیف دینے کیلئے بہت کام کر رہی ہیں، جو قابلِ ستائش ہے لیکن ان کا کام کچھ عرصہ میں ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد ساری ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر عائد ہو گی۔ انہیں متاثرین کو گھر بنا کر دینے ہیں۔ ان کی معیشت کی بحالی کیلئےبھی ان کی مدد کرنی ہے۔ اس دوران صحت کی سہولتیں بھی معمول سے بڑھ کر فراہم کرنا ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر کو بھی بحال کرنا ہو گا ۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے وسائل سے بڑھ کر کام کر رہی ہے۔ مخالفین بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ساتھ ساتھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے تمام ذمہ داران ہر جگہ نظر آ رہے ہیں اور اپنے لوگوں کے دکھوں میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ ان کی ہر ممکن ضرورت پوری کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ کوششیں متاثرین کی مکمل بحالی تک جاری رہیں گی لیکن سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا ہے کیونکہ اتنی بڑی تباہی سے نکلنا اور وہ بھی صرف اکیلے پاکستان کیلئے بہت مشکل ہو گا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی اپیل پر عالمی برادری نے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا نے پاکستان کی امداد کا جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہو گا۔ مگر یہ مسئلہ صرف اس سال کا نہیں ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک آئندہ بھی بڑی تباہی کا شکار ہوتے رہیں گے ۔ دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک کو اب مستقل ایسے اقدامات کرنے ہوں گے، جو بلاول بھٹو زرداری کے بقول ماحولیاتی انصاف کے تصور پر مبنی ہوں۔
(مصنفہ رکن سندھ اسمبلی ہیں)