پاکستان کے کئی علاقے ڈوبے ہوئے ہیں، خاص طورپر سندھ، جس کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شہروں، دیہات اور زمینوں میں پانی کھڑاہے۔چیلنج یہ ہے کہ پانی کیسے نکالا جائے؟ پانی کا پھیلاؤ ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ خیرپور ناتھن شاہ ڈوب چُکا ہے اور اس کے گرد و نواح کے کئی بڑے شہر میہڑ، جوہی، دادو اپنے آپ کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ایل بی او ڈی سیم نالے سے منسلک اضلاع پربھی مزید ڈوبنے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ سندھ کے حوالے سے اگر ہم 2010، 2011، اور 2012 میں آنے والی سیلابی تباہی کو اِکھٹا کرلیں تو پھر بھی شاید 2022 کے مجموعی نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
اس سال مون سون کی شدید بارشوں کی ابتدا میں کراچی اور حیدرآباد میں آنے والے پانی نےہر ایک کو پریشان کر دیا تھا، لیکن اگر اب کے حالات کا موازنہ ان دنوں سے کیاجائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ بڑے شہروں سے پانی نسبتاً جلد نکل گیا۔ کراچی کی ہی مثال لے لیں تو اس کا ایک بنیادی سبب یہ نظر آئے گا کہ کراچی میں برساتی ندیاں اور نالے ہیں (اگرچہ ان میں سے زیادہ ترپر قبضے کئے جا چکے ہیں)، اور ساتھ ہی کراچی واٹر بورڈ کا نکاسیٔ آب کا نظام موجود ہے۔اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود حکومت سندھ شہر سے پانی نکالنے میں کامیاب رہی۔ دنیا بھر کے شہروں میںعام نکاسی کے نظام کے ساتھ بارش / طغیانی کے پانی کو نکالنے کا بھی سسٹم موجود ہوتا ہے، جس کو اسٹورم واٹر سسٹم (Storm Water System) کہا جاتا ہے۔پاکستان کے تمام بڑے شہر اسٹورم واٹر سسٹم کے بغیر ہیں۔ سندھ میں کشمور سے کراچی تک یہ سسٹم موجود نہیں۔ سندھ کے پُرانے شہر یا شہروں کے پرانے حصوں کو دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ وہ اونچائی والی زمین پر بنےہوئے ہیں۔ اس طرح شہروں کو آباد کرنے کا سبق سندھ کے باسیوں نے دریائے سندھ میں متواتر آنے والے سیلابوں سے صدیوں میں سیکھا ۔ جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی، چھوٹے بڑے شہروں پر دباؤ بڑھنے لگا اور شہروں سے منسلک نشیبی علاقوں میں آبادیاں بسنے لگیں۔ اب ہمیں سندھ میں کئی شہر، قصبوں اور شہروں کا پھیلاؤ دریائے سندھ کے پُرانے راستوں اور پانی کی قدرتی گزرگاہوں کے اندرملے گا۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ سندھ کے کئی چھوٹے شہر اور دیہات زرعی زمینوں کے بیچوں بیچ بنے ہوئے ہیںجہاں نکاسی کا نظام موجود نہیں ہے۔ اس وجہ سے جب زمینیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں تو ساتھ ہی گاؤں اور شہر بھی ڈوبتے ہیں۔ جہاں پرنکاسی کا نظام موجود ہے،یا تو ناکافی ہے یا اس میں اور کمزوریاں ہیں جس کی وجہ سے اس میں شگاف ہونے یا ٹوٹنے کی وجہ سے بہت بڑا علاقہ زیرِ آب آ جاتا ہے۔ ایک بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ بارش کے حجم کے لحاظ سے نکاسی کا نظام ہونے کے باوجود پانی نکلنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ نکاسی کے نظام کو قائم کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتاہے کہ کتنی تیز بارش کی صورت میں کتنے پانی کو نکالا جا سکتا ہے۔ اس لئےکچھ دن یا ہفتے پانی کے ساتھ ضرور رہنا پڑتا ہے۔2010 کے بارشی سیلاب کے دوران حکومت سندھ نے پانی کے قدرتی راستوں کا نقشہ بنوایا تھا اور ایک اسٹڈی بھی کروائی گئی تھی، جس سے پتا چلا کہ جو نئی شاہراہیں، نہریں یا دیگر ترقیاتی کام ہوئے ہیں، ان کے نتیجے میں پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستے 10اضلاع میں 300 جگہوں پر بند ہو گئے تھے، جس کی وجہ سےپانی کی پاکٹنگ (Pocketing) ہو گئی تھی۔ہم شاید دنیا کی وہ واحد قوم ہیں جو نہ بڑے حادثات سے سبق سیکھتی ہے اور نہ ہی تاریخ سے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہمارے ادارے اپنی اداراتی یادداشت بھی کہیں کھو بیٹھے ہیں۔ انگریز کے برصغیر کو زیر کرنے اور اس پر حکومت کرنے کے کئی اسباب میں سے ایک سبب یہ تھا کہ وہ بہت اعلیٰ سروے انجینئر تھے۔ جب انہوں نے نقشے تیار کئے، ریلوے اور نہروں کا نظام بنایا، تو ہر نقشے پر پانی کی قدرتی گزرگاہیں اچھی طرح مارک کر لیں اور محکمۂ مالیات کیلئے ان نقشہ جات پر عمل کرنا لازمی قرار دے دیا۔ لیکن آہستہ آہستہ ہمارے ادارے یہ سب کچھ بھول گئے، اور آئینی و قانونی بندشوں کے باوجود پانی کے قدرتی راستوں پر شہر آباد ہوتے چلے گئے۔
اس وقت ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے کئی علاقوں کے لوگ اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانےکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حکومت اور ادارے ان کی مدد کیلئےدوڑے پھرتے ہیں مگر کئی جگہوں پر بہت دیر ہو چکی ہے۔ ان حالات میں ہنگامی حالات میں سربراہی اور موثر فیصلہ سازی بہت اہم ہے۔ یہ فیصلہ سازی کرنے میں اگردیر کی جاتی ہے اور ہر ایک کو راضی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں نقصان بہت زیادہ اور بہت سوں کا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ پُرانے سیلابوں کے دنوں میں ہم نے کون سی چیزیں بہتر کی تھیں جو اب رابطہ کاری اور ہم آہنگی بڑھانے میں بہت موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بہتر فیصلہ سازی کر کے، پانی کو راستہ دیں۔ جہاں پر قدرتی بہاؤ ہو سکتا ہے وہاں پر وہ عمل میں لائیں اور کئی جگہوں پر ہمیں پمپوں اور مشینوں کے ذریعے پانی نکالنا پڑے تو نکالیں، جس طرح 2011 اور 2012 میں کیا گیا تھا۔
سندھ میں خریف کی فصل سے کروڑہا لوگوں کا چولہا جلتا ہے، جوکہ اس وقت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ربیع کی فصل کا موسم آنے تک لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑے پانی کو نکالا جائے۔ ہم اگرآئندہ تین مہینوں میں 90فیصد پانی نکالنے میں بھی کامیاب ہو گئے تو لاکھوں خاندانوں کو جینے کا ایک اور موقع میسرآجائے گا۔