روایتی طور پر ہر سال جون میں بجٹ آتا ہے۔ بڑے بڑے دعویٰ کئے جاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس سال عوامی بجٹ دیا گیا ہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں کم ہونگی۔ عام آدمی کا بوجھ کم ہوگا لیکن جب آنکھ کھلتی ہے تو وہی لق ودق صحرا ، وہی معاشی سراب ہوتا ہے جس میں انسان روٹی، پانی کی تلاش میں دیوانہ وار بھاگ رہا ہوتا ہے اور حادثات و حالات کے ’’گدھ‘‘ اس پر منڈلا رہے ہوتے ہیں۔ حالیہ بجٹ میں بھی کسانوں کو کئی خوشخبریاں دی گئی ہیں لیکن ان کی محنت کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا صرف کھاد کی قیمت میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ بھارت سمیت دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک میں کسانوں کے ٹیوب ویلوں پر بجلی فری ہوتی ہے۔ زراعت کی ضروریات پر سبسڈی دی جاتی ہے اور ہر حکومت کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسانوں کو اس کی محنت کا مناسب معاوضہ ملے۔ امداد باہمی کے تحت کاشتکار کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اجناس ، دودھ پولٹری کی فروخت کا انتظام کیا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بھارت کی ریاست کرناٹک سے دودھ دہلی لایا جاتا ہے تاکہ قیمتوں کو متوازن رکھا جائے اور کوآپریٹو سسٹم کے تحت ایسا کیاجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں کوآپریٹو کے شعبے کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ماضی میں کوآپریٹو بینک قائم کئے گئے اور امداد باہمی کے تحت قرضوں کی اسکیم کا اجرا کیا گیا۔ لیکن بڑے بڑے لوگوں نے سب کچھ لوٹ لیا اور یہ اچھا شعبہ ذاتی لوٹ مار کی نذر ہوگیا۔ ضرورت ہے کہ اس پر توجہ دی جائے اور کوآپریٹو کے تحت دیہی علاقوں میں فش فارم، ڈیری فارم اور پولٹری فارم قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پاکستان میں بہت ہی صلاحیت ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات درست نہیں جس کی وجہ سے مسائل ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ بجلی کا بحران عذاب بن چکا ہے۔ چاہئے یہ تھا کہ بھاشا ڈیم کے ساتھ کالا باغ ڈیم پر بھی توجہ دی جاتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور نہ ہی ہنگامی طور پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنانے کی کوئی تجویز زیر غور ہے۔ ہوا اور سورج سے بجلی بنانے کے کسی منصوبے کے لئے فنڈز نہیں رکھے گئے۔ یورپ میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ونڈ اور سولر انرجی سے پورا ملک روشن ہے۔ ڈنمارک، ناروے میں ونڈ انرجی کی چکیاں میلوں تک چلتی نظر آتی ہیں۔ سندھ میں بدین اور دوسرے علاقوں میں ایسی بے شمار جگہیں موجود ہیں جہاں ہوا سے بجلی بنائی جاسکتی ہے اور پنجاب میں بھی سولر بجلی بنانے کے مواقع موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس حوالے سے اقدام کئے ہیں اور بہاولپور کے علاقے میں قائداعظم سولر پارک قائم کیا ہے اس پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اسے اولین ترجیح قرار دیا جائے کیونکہ بجلی ہوگی تو صنعت کا پہیہ چلے گا۔ ٹیوب ویل چالو ہونگے، وزیراعظم ہو یا کوئی اور ذمہ دارسب ہیں کہتے ہیں کہ بجلی کا بحران حل کردیا جائے گا۔ جب سے یہ برسراقتدار آئے ہیں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لئے تاریخیں دے رہے ہیں۔ ان کی یہ ڈیٹنگ ہے کہ ختم نہیں ہورہی۔ ایسا کیوں ہے کیا ہمارے حکمرانوں کو عوام کے مصائب کا احساس نہیں یا جان بوجھ کر بات 2018ء تک لے جانا چاہتے ہیں تاکہ عام انتخابات میں اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ مذاق ہے اور سب سے اہم یہ کہ بجٹ کے اعلان سے مہنگائی میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوگیا ہے۔ پہلے ہی یہ کیا کم تھا کہ رمضان المبارک کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آگیا ہے اور حکومت کی جانب سے یوٹیلٹی اسٹوروں پر جو کمی کی گئی ہے وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف اور عوام سے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔