• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جاتا ہےکہ لیڈر قومیں بناتے ہیں۔ لیڈر کا طرزِ عمل کسی بھی قوم کا طرزِ عمل ہوتا ہے۔ جیسا کردار ایک لیڈر کا ہوتا ہے ویسا ہی قوم کا کیوں کہ قوم لیڈروں کو فالو کرتی ہیں۔ مگر افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ بحیثیتِ قوم ہم نے اپنے نام نہاد لیڈروں سے سوائے بد زبانی، بد اخلاقی، گالم گلوچ اور مخالف کی ذاتیات پہ کیچڑ اچھالنے کےاور کچھ نہیں سیکھا۔ ہمارے لیڈر جلسوں میں اپنی کارکردگی اور اپنی پالیسیاں بتانے کی بجائے فریق مخالف پر فقرے کسنے کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتے۔ ویسا ہی حال ہماری قوم کا ہے کیونکہ قومیں اپنے لیڈر کو فالو کرتی ہیں۔ پہلے ہم پاکستانی تھےپھر آہستہ آہستہ بعض سیاسی لیڈروں نے ہمیں پاکستانی سے پنجابی، بلوچی، سندھی، کشمیری اور پختون قوم پرستی کے خانوں میں تبدیل کر دیا۔ آج ان سیاستدانوں کی وجہ سے ہم اپنے گھروں میں بھی تقسیم ہو چکے ہیں۔ باپ بیٹے کا اور بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے۔ اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ اپنے لیڈر کی غلط بات کو بھی سچ ثابت کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پہ ایک دوسرے کو سرِ عام گالیاں دی جاتی ہیں،اقبالؒ نے 100 سال قبل جو بات کہی تھی وہ سچ ثابت ہو رہی ہے۔

تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عوام سیلاب پر سیاست کرنے والوں سے حساب لیں گے۔عوام کو پتہ ہے کہ کون سیلاب پر سیاست اور کون خدمت کر رہاہے ۔وہ خاموش ہیں لیکن ان کے اندر ناراضی ،دکھ اور تکلیف ہے جسے وہ بیان نہیں کر پا رہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا۔دوسری جانب سیلاب کے باعث سندھ کے کئی علاقے تاحال پانی میں ڈوبے ہو ئے ہیں ۔ملک بھر میں بارشوں اور سیلابی صورتحال کے باعث مزید 45سے زیادہ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔رواں سال سیلاب کی شدت بھی زیادہ ہے اور اب کی بار2010کی نسبت ملک کا زیادہ علاقہ متاثر ہوا ہے ۔حالیہ سیلاب کے بعد بحالی کی سرگرمیوں کے لئے کثیر رقم درکار ہو گی۔ملکی معیشت کا حال سب کے سامنے ہے ،ان حالات میں سیاسی استحکام یقینی بنانا تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے ۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے درد ناک واقعات کی رپورٹنگ اور پروگرام دیکھ کر دل کٹ جاتا ہے ۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سڑکوں اور نہروں کے کنارے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کھلے آسمان تلے موجود ہیں ، اگرچہ بڑی حد تک ریلیف کا کام شروع ہو چکا ہے مگر مستحقین کی ایک بڑی تعداد کو اب تک کوئی امداد نہیں ملی ۔بہت سے علاقوں میں سیلابی پانی میں پھنسے لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ۔ چاروں طرف سے گندے پانی میں گھرے لوگوں کو پیاس بجھانے کے لئے پینے کے قابل صاف پانی بھی میسر نہیں اور وہ آلودہ پانی پینے کے سبب وبائی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ ہر دوسرا شخص ملیریا، ڈینگی ،پیٹ یا جلد کی بیماری کا شکار ہو چکا ہے خدانخواستہ صورتحال یہی رہی تو بڑی تعداد میں انسانی اموات ہو نے کا خدشہ ہے ۔سیلاب سے متاثرہ عوام اسی وجہ سے پانی اترنے کے بعد بھی مستقبل سے متعلق خدشات میں مبتلا ہیں،جس وسیع رقبے پر سیلاب کا پانی موجود ہے، بہ ظاہر یہ لگتا نہیں کہ 2ماہ میں پانی اتر جائے گا۔کپاس اور گنے کی فصل نقد تصور ہوتی ہے، جنوبی پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں سارے سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے لوگ ان فصلوں کی آمد نی پر تکیہ کرتے ہیں ۔پانی میں ڈوبنے سے کپاس کی فصل مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور گنے میں بھی کیڑا لگنا شروع ہو چکا ہے ۔ 10سے 15روز مزید گنے کی فصل ڈوبی رہی تو وہ بھی خراب ہو جائے گی ۔نومبر کے مہینے میں گندم کی بوائی ہوتی ہے ۔اکتوبر تک اگر زرعی زمینوں سے پانی مکمل طور پر نہ نکل سکا تو گندم کی فصل بھی کاشت نہیں ہو سکے گی،یعنی جو خوش قسمت سیلاب میں ڈوب کرمرنے سے بچ جائیں گے لا محالہ اگلے سال بھی وہ قحط اور بھوک کا سامنا کر رہے ہوں گے۔کس کس جگہ کانوحہ لکھا جائے ؟ دیکھتے ہی دیکھتے تونسہ اور ڈیرہ غازی خان میں دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ۔بلوچستان میں پہلے کم بدحالی اور غربت تھی ، اب وہاں حالات زیادہ خراب ہو نے کا خدشہ ہے ،کے پی بھی تباہی سے محفوظ نہیں رہا ۔ سوات ،چار سدہ اور بحرین کے مناظر دل دہلاینے والے ہیں ، نوشہرہ تو مکمل طور پر ڈوب چکا ہے ۔ سکھر ،لاڑکانہ اور خیر پور میں بھی بہت تباہی ہو ئی ہے۔خیر پور ،ناتھن شاہ،جھڈو، میہڑ،جوہی اور نوشہروفیروز میں سنگین المیہ برپا ہے۔ سانگھڑ بھی بلا مبالغہ مکمل سیلاب برد ہو چکا ہے ۔

ضروری ہے کہ اس وقت عدلیہ ،فوج،سیاستدان اور بیورو کریٹس مل کر اس سیلاب کی مصیبت سے نکلنے کا کوئی حل نکالیں ۔معیشت تو پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے ،رہی سہی کثر اس سیلاب نے نکال دی ہے ۔لہٰذا مل بیٹھ کر ہی ان مشکل حالات سے نکلا جا سکتا ہے۔

کراچی پاکستان کا دل اور معاشی شہ رگ ہے لیکن اس کے انفرا سٹر کچر کی جو حالت کر دی گئی ہے بالخصو ص 15برسوں میں شہر کی سڑکوں کا جو حال ہو گیا ہے ،کچرے کے ڈھیر گلی محلوں میں ہی نہیں مرکزی شاہراہوں پر بھی جا بجا نظر آتے ہیں ۔پانی کے لئے لوگ ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں نکاسی کا نظام بھی مکمل طور پردرہم برہم ہو چکا ہے۔ایک طرف شہر کی یہ حالت ہے تو دوسری جانب شہریوں سے ٹیکس وصولی کے نئے نئے طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے اب خاموشی کے ساتھ کراچی کے شہریوں پر سالانہ 3ارب روپے کا مزید بوجھ ڈال دیا ہے اور کے الیکٹرک کے ساتھ معاہدے کر لیا ہے جس کے تحت شہریوں سے میونسپل ٹیکس بجلی کے بلوں کے ساتھ وصول کیا جائے گا ۔کراچی میں بجلی کے صارفین کی تعداد 24لاکھ کے قریب ہے جس سے یہ بلدیاتی ٹیکس وصول کر نا طے پایا ہے۔

تازہ ترین