اسلام آباد کی عدالت نے سینئر صحافی ایاز امیر کو 1 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
بیوی کے قتل کے مرکزی ملزم شاہ نواز کے والد اور صحافی ایاز امیر کو ریمانڈ کے لیے ایف 8 کچہری میں جوڈیشل مجسٹریٹ سید محمد زاہد ترمذی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
ایاز امیر کے وکیل زعفران اعوان ایڈووکیٹ، تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن اور ڈی ایس پی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر ایاز امیر نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ قتل کے واقعے کی میں نے خود پولیس کو اطلاع دی، ایس ایچ او کو فارم ہاؤس کا پتہ تک میں نے دیا۔
وکیلِ صفائی نے عدالت کو بتایا کہ ایاز امیر کا نام ایف آئی آر میں نامزد نہیں ہے۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ ہائی پروفائل کیس ہے، ملزم کے والد کو شاملِ تفتیش کرنا ہے۔
وکیلِ صفائی نے کہا کہ ایاز امیر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔
پولیس حکام نے عدالت کو بتایا کہ واقعے کی اطلاع ایاز امیر نے دی۔
تفتیشی افسر حبیب الرحمٰن نے کہا کہ مقتولہ کے ورثاء نے ایاز امیر کے خلاف درخواست دائر کی ہے، مقتولہ کے ورثاء نے کہا کہ ایاز امیر چکوال میں ہوئی شادی میں دھوکا دہی میں ملوث رہے ہیں۔
ایاز امیر نے عدالت کو بتایا کہ میں نے ایک بار سارہ سے پوچھا کہ اسے شاہ نواز کی سابقہ شادیوں کا معلوم ہے یا نہیں، سارہ سے یہ بھی پوچھا کہ اسے شاہ نواز کی نشے کی عادات کا معلوم ہے یا نہیں، سارہ نے کہا کہ شاہ نواز دل کا بہت اچھا ہے، مجھے سارہ اور اس کی فیملی سے ہمدردی ہے۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم ایاز امیر کو شاملِ تفتیش کرنا ہے، ان کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائے۔
وکیلِ صفائی نے کہا کہ میرے مؤکل ایاز امیر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، محض ہائی پروفائل کیس ہونے پر ایاز امیر کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
ایاز امیر نے بتایا کہ قتل کے وقت میں اسلام آباد میں نہیں چکوال میں تھا، شاہ نواز امیر کا قتل میں کوئی دفاع نہیں بنتا، اگر شاہ نواز کو بچانے کی نیت ہوتی تو ایک ڈمبل چھپانا مشکل نہیں ہوتا۔
ڈیوٹی جج محمد زاہد ترمذی نے ایاز امیر کے ریمانڈ کی استدعا پر پہلے فیصلہ محفوظ کیا، پھر کچھ دیر بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے ایاز امیر کو ایک روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔
پولیس نے ایاز امیر کے 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔
واضح رہے کہ پولیس نے ایاز امیر کو اعانتِ جرم کی دفعہ کے تحت گرفتار کیا تھا۔