زیر نظر مضمون اُن صوبوں اور علاقوں کے اقتصادی حالات اور امکانات کے بارے میں عمومی آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کا حصہ ہے جنھیں ملک کے دیگر ترقی یافتہ حصوں جیسے فوائد حاصل نہیں ۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون بلوچستان کی ترقی کی بابت چند ماہ پہلے شائع ہوا تھا۔ یہ مضمون گلگت بلتستان کے معاشی اور اقتصادی حالات کا جائزہ لیتا ہے ۔
ملک کے شمالی حصے میں واقع گلگت بلتستان دنیا کے چار بلند ترین پہاڑی سلسلوں میں گھرا ہوا ہے ۔ یہ خطہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے ۔ یہاں دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے ، ہمالیہ ، ہندوکش اور قراقرم آپس میں ملتے ہیں ۔ قراقرم کی بلندترین چوٹیاں زیادہ تر اسی صوبے میں واقع ہیں ۔گلگت بلتستان کا 90 فیصد علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے ۔ چار فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جبکہ 4.2فیصد رقبے پر خودرو نباتات ۔ کل رقبے کے تقریبا 1.2فیصد حصے پر کاشت کاری ہوتی ہے ۔کاشت کاری کے قابل اس علاقے پر بیس لاکھ کے قریب آبادی کی گزر بسر ہے ۔ یہ آبادی شمال میں چین کی سرحد سے لیکر جنوب میں خیبرپختونخوا تک مختلف مقامات پر دس اضلاع میں بکھری ہوئی ہے ۔ آبادی کا ارتکاز بہت کم ہے جو 24 افراد فی مربع کلومیٹر ہے ۔ اسلئے انسانی آبادیوں کے درمیان طویل فاصلہ ہے ۔ شدید اور طویل موسم سرما کے دوران یہاں عملی طور پر تمام سرگرمیاں معطل ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ اس دوران کچھ مقامی آبادی کی پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرف ہجرت دیکھنے میں آتی ہے۔
گلگت بلتستان پاکستان کی شہ رگ کا بھی درجہ رکھتا ہے کیوں کہ دریائے سندھ کا 70فیصد پانی اسکے گلیشیروں سے بہہ کر آتا ہے ، جب کہ اسکے جنگلات دریاکے بہائو کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ گلیشیروں کے تیزی سے پگھلنے کا عمل پاکستان میں خوراک اور توانائی کی پیداوار اور پانی کے استعمال کے امکانات کیلئے خطرناک ہے ۔ حالیہ دنوں میں نہ صرف گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا بلکہ سندھ اور بلوچستان (کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے تک ) پر جو شدید موسلادھار بارشیں ہوئیں، ماضی میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ ہزاروں انسانی جانوں کا نقصان،33 ملین افراد کی نقل مکانی، وسیع پیمانے پر فصلوں اور مویشیوں کی تباہی نے گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے کی بھی تصدیق کردی ہے ۔ جس سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات درکار ہونگے۔
سرکاری پالیسی کے تحت ہونیوالی دو اہم سرگرمیوں نے گلگت بلتستان کے عام شہریوں کی زندگیوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ یہ قراقرم ہائی وےکی تعمیر اور رورل سپورٹ پروگرام ہیں۔ معاشی مواقع کی عدم دستیابی کی وجہ سے آبادی نہ صرف جغرافیائی بلکہ نسلی اور فرقہ وارانہ سطح پر بھی تقسیم ہے۔ تین اہم برادریاں اپنے عقیدے کی بنیاد پر ایک دوسرے پر بھروسا نہیں کرتیں ۔ ان کے درمیان تعاون کی فضا مکدر رہتی تھی لیکن ترقیاتی پروگرام سماجی فضا پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی پہاڑی وادیاں جو گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے ناقابل رسائی تھیں قراقرم ہائی وے کی تعمیر کے بعد کھول دی گئی ہیں ۔ اس نے مقامی معیشت کا بڑی قومی مارکیٹ کے ساتھ رابطہ قائم کرکے زبردست تبدیلی برپا کی ہے۔قراقرم ہائی وے اس خطے کو جدید خیالات، طرز زندگی، پیداوار کی تکنیک سے متعارف کرانے کے علاوہ اس کاملک کے دیگر حصوں سے رابطہ بہتر اور آسان بناتی ہے۔ یہ سڑک درحقیقت انسانی ذہانت کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے ۔ درہ خنجراب ہائی وے کا ٹرمینل پوائنٹ دنیا کی سب سے بلند بین الاقوامی سرحدی گزرگاہ ، اورقراقرم ہائی وے پر سب سے اونچا مقام ہے۔ آخر کار، بہت سی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد قراقرم ہائی وے صوبے کو باقی ملک کے علاوہ چین سے بھی جوڑنے میں کامیاب ہو گئی۔ اب یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر نسلی اور مذہبی گروہ کو تعمیر اور ترقیاتی پروگراموں سے فائدہ ہواہے ۔اس سے کشیدگی کم ہوئی ہے ،گرچہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ غربت میں کمی آئی ہے اور یہ بعض اضلاع، خانہ بدوش اور غیر مقامی آبادی تک محدود ہے۔ اس انضمام کے مکمل ہونے میں اب بھی بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات حائل ہیں۔ مثال کے طور پر، اسکردو اور گلگت سے ہوائی رابطے قائم ہو چکے ہیں اور نجی ہوا باز کمپنیوں کو چارٹر پروازوں کی اجازت مل گئی ہے لیکن ہوائی اڈے کی سہولیات کو اپ گریڈ کرنا باقی ہے۔ قراقرم ہائی وے نے نہ صرف دنیا کے کونے کونے سے آنیوالے ٹریکروں، ہائیکرز، کوہ پیماؤں کو اجازت دی ہے بلکہ پاکستان کے دوسرے حصوں سے بھی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ قراقرم ہائی وے کے تھاکوٹ سے رائے کوٹ تک کے حصے کی تعمیر نو کیلئے موجودہ سی پیک منصوبے سے لگنے والے وقت میں مزید کمی آئے گی اور دو بڑے دیامر بھاشا اور داسو ڈیموں کی تعمیر میں بھی مدد ملے گی جو تعمیر شدہ سڑک کے 279 کلومیٹر کے دائرے میں آتے ہیں۔ حسن ابدال سے تھاکوٹ تک فور لین ہزارہ موٹروے پہلے ہی وقت کی بچت کیساتھ ساتھ محفوظ ڈرائیونگ کی سہولت فراہم کرتی ہے ۔ ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کیے گئے ۔ ہنزہ وادی میں سات سوسال پرانے بالیت قلعے ، نو سوسال پرانے علیت قلعے اور شیگار قلعے کی بحالی اور خپلو محل کے تحفظ سے گلگت بلتستان کی کشش میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔
اس خطے کی بہتری کے لیے کی جانے والی ابتدائی سرگرمی 1982 ء میں سماجی اورفلاحی ترقیاتی کاوش کی صورت دیکھنے میں آئی تھی جو آغاخان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت کی گئی ۔ اُس وقت یہ ایک دور افتادہ اور سفر اور قیام کے لیے بہت مشکل علاقہ تھا۔ زیادہ تر آبادی غربت کی لکیر سے نیچے تھی ۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام نے تعلیم، صحت اور زراعت کی بہتری پر توجہ مرکوز کی ۔ اس نے مقامی انفراسٹرکچر ، جیسا کہ آبی گزرگاہیں تعمیر کیں۔ اس پروگرام کی کوششوں سے مقامی افراد کی آمدنی میں اضافہ اور غربت میں کمی ہونے لگی ۔ اس کاوش کو ملکی اورغیر ملکی ایجنسیوں ، جیسا کہ عالمی بینک تک نے تسلیم کیا۔ اس سپورٹ پروگرام کے مثبت تجربے نے حکومت کو بھی گلگت بلتستان رورل سپورٹ پروگرام قائم کرنے کی تحریک دی۔ اس کی کاوشوں کے خدوخال وہی تھے جو آغا خان رورل سپورٹ پروگرام طے کرچکا تھا۔ جس کے تحت چھ سو دیہی تنظیمیں پورے علاقے میں قائم کی گئیں ۔ یہ تنظیمیں مقامی وسائل کو متحرک کرنے میں بہت فعال ہیں۔ وسائل جمع کرنے کے لیے بچت کی اسکیمیں متعارف کرائی گئیں۔ ایسی سرگرمیاں شروع کی گئیں جو مقامی آبادیوں کی ضروریات سے عین مطابقت رکھتی تھیں۔ کاشت کاروں کو چھوٹے قرضے دیے گئے تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے اپنے کاروبار کو وسیع کرسکیں ۔ لوکل سپورٹ آرگنائزیشنز نے مقامی آبادی کو ٹیکنکل معاونت فراہم کی۔