• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک ایسی تحریر ہے جو آپ کے چودہ طبق روشن بھی کرسکتی ہے یا پھر آپ کو مزید ذہنی عیاش بھی بناسکتی ہےیہ سب منحصر ہے اس بات پر کہ آپ اسے پورا پڑھیں ۔ آج کل پوری پاکستانی قوم ایک ایسےٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہے جو اس وقت تورا بورا کی پہاڑیوں پر سفر کررہا ہے اور اگر قوم نے لائن نہ بدلی تو جلد ٹرک سمیت تورا بورا کی پہاڑیوں سے ہزاروں فٹ نیچے جاگرے گی ۔دراصل ٹرک کی بتی کے پیچھے لگناہمارا قومی مشغلہ ہے اور اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو اس کام کے ہم چیمپئن نظر آئیں گے کبھی یہ ٹرافی مسلم لیگ نون جیتتی ہے کبھی پی پی پی کبھی تحریک انصاف کبھی کوئی ادارہ اور کبھی کوئی تحریک ۔ گزشتہ چندسالوں سے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بیانیہ نامی ایک لفظ متعارف ہوا ہے پاکستانی سیاست میں دراصل بیانیہ کا مطلب ہے ٹرک کی بتی جس کے پیچھے وقتی طور پر قوم کو لگایا جاتا ہے اور جب قوم اُکتانے لگتی ہےنئی بتی نیا ٹرک آجاتا ہے کبھی ٹرک کی جگہ جیپ بھی آجاتی ہے اور قوم پیچھے پیچھے چل رہی ہوتی ہے ۔ بیانیہ بنانے والے دراصل اس قوم کی ایک کمزوری بہت اچھی طرح بھانپ گئے ہیں اور وہ کمزوری ہے ذہنی عیاشی کی کیونکہ ہم ایک غریب ملک ہیں اس لیے دوسری عیاشیاں عام لوگوں کو میسر نہیں اس لیے وہ ذہنی عیاشی سے ہی کام چلالیتی ہے اس قدر فارغ قوم ہیں کہ دفتروں میں دکانوں میں اسکولوں میں کالجوں میںگھروں میں نوے فیصد وقت بیکار کی گفتگو الزام تراشی مبالغہ آرائی قصے کہانیاں ایک دوسرے کو بتانے یاپھیلانے میں صرف کرتے ہیں اور دس فیصد توجہ کام پر دیتے ہیں کیونکہ ذہنی عیاشی ہمارے خون میں شامل ہے ستر سالوں سے ،پھر ہم اپنی سرشت سے کیسے ہٹ سکتے ہیں ۔ یہ باغی وہ غدار ، یہ چور اور وہ پرہیزگار ،یہ غاصب اور وہ حقدار ، یہ جاہل اور وہ تمیز دار ، یہ حرافہ اور وہ باکردار بس پہلے دن سے اسی کھیل میں پھنسی ہوئی ہے پوری قوم ۔بس چہرے بدلتے رہتے ہیں کبھی جنرل رانی کی کہانیاں قوم کو ذہنی عیاشی فراہم کرتی ہیں تو کبھی حریم شاہ ، کبھی وینا ملک کا فوٹو شوٹ تو کبھی سیاسی لیڈرز کی ویڈیوز ، کبھی فاطمہ جناح قصوروار تو کبھی کلبھوشن بے گناہ ، کبھی علیحدگی کی تحریکیں کبھی اسکینڈلز ۔ سوشل میڈیا نے اس ذہنی عیاشی کو فروغ دینے میں بڑا طاقتور کردار ادا کیا ہے ۔ ماضی قریب کی مشہور ذہنی عیاشیوں جس سے یہ قوم لطف اندوز ہوتی رہی، میں، سر فہرست عیاشی ووٹ کو عزت دو تھی جہاں بڑے بڑے ترانے بنے نعرےبنے میمز بنیں اور انھیں بیانیہ بنایا گیا ایسا لگتا تھا کہ پورا ملک ہی ووٹ کو عزت دینے میں لگ گیا ہے، بڑےبڑے جلسے اور گھنٹوں کے ٹاک شوز ، ووٹ خود حیران تھا کہ اتنی عزت ، ٹوئٹر، وٹس ایپ، فیس بُک توبھرے پڑے تھے ذہنی عیاشی سے بھرپور دعووں اور نعروں سے کوئی حق میں تھا کوئی خلاف ، کچھ پنڈتوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا بھائی بدل گیا ہے اب پاکستان اب اس عوام نے کسی کو نہیں چھوڑنا اور پھراس ذہنی عیاشی کے اوپر ایک اور نئی ذہنی عیاشی آگئی اور پرانی والی سے عوام اُکتاگئے اور وہ ہے کہ غلامی سے نجات اب اس نئی ذہنی عیاشی کو لے کرروز ایک نیا نعرہ آجاتا ہے تاکہ قوم اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی رہے جب تک کوئی نئی ذہنی عیاشی نہ آجائے، غلامی سے نجات کے نعرے میں ہر اُس شخص کو غدار قراردے کر گھسیٹ لو جس کی شکل پسند نہیں جس کے عہدے سے تکلیف ہے جتنا چورن بک رہا ہے کہیںمذہب کی پُڑیا میں بیچ دو کہیں وطن پرستی کی پُڑیا میں بیچے جاؤ اور قوم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی رہے ۔جس طرح آج ووٹ کو عزت دو کی ذہنی عیاشی کو بیچنے والے اپنے ہی نعرے سے چھپتے ہیں ویسے ہی غلامی سےنجات کا نعرہ لگانے والے چھپیں گے مگر قوم کا کیا وہ تو پیدا ہی ذہنی عیاشی کے لیے ہوئی ہے کل کو کسی اورنعرے کے پیچھے چل پڑے گی اور پرانے کو بھول جائے گی ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تونکالے جانے والے بار بارپلٹ کر نہ آتے ۔ ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ آج بھی اختیار اور طاقت کہیں اور ہی ہےاور اگر وہ نہ چاہیں تو کسی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا کچھ پیار سے اُن کی بات مان جاتے ہیں کچھ بار بارانکار کے باوجود بھی اُن کی بات مان جاتے ہیں مگر آخر میں وہ ہی مسیحا و نجات دہندہ جیت جاتا ہے جس کی خودی کوخودداری اور غداری کے تعویز بیچنے والے بھی کم نہ کرسکے ۔ اداروں کے خلاف جو مہم چلی میرا خیال ہےاس سے بدتر مہم شاید ہوہی نہیں سکتی تھی جس میں مسلسل پروپیگنڈہ کے ذریعے اداروں کو دباؤ میں لینے کی کوشش کی گئی اور آخر میں ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد الزامات لگانے والے حالت شرمندگی میں ہیں اوریہ ہی ان کی شکست اور اداروں کی فتح ہے ۔ ان انتخابات کے نتائج کے بعد قوم کو ایک بات تو سمجھ آجانی چاہیے کہ سیاست میں شکست یا کامیابی کو ریاست کی سلامتی کو متاثر کرنے سے دور رکھنا چاہیے جس طرح باربار قوم کو سری لنکا کے عوام کی طرح گھروں سے نکل کر احتجاج کے لیے اُکسایا جارہا تھا اس سے ملکی سلامتی کو داؤ پر لگانے کی کوشش کی جارہی تھی جسے وقتی طور پر کچھ لوگوں کی ذہانت اور کچھ لوگوں کی قربانی نےٹال دیا اور وقتی شرمندگی کوقبول کرلیا گیا ہے مگر آگے ابھی بہت کچھ باقی ہے۔

تازہ ترین