عرفان جاوید اُردو دنیا کے ایک موقر، ممتاز اور محبوب قلم کار ہیں۔ ان کا تخلیقی، تحریری سفر افسانوں سے شروع ہوا۔ بعد ازاں، شخصی خاکوں پر مشتمل خیال آفریں، فکر افروز تحریریں ’’دروازے‘‘ ، ’’سُرخاب‘‘ کے عنوانات سے اور تحقیقی و دانش افروز مضامین ’’عجائب خانہ‘‘ کے زیرِ عنوان شرمندۂ اشاعت ہوئے اور اِن مضامین نے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں سلسلے وار اشاعت کے بعد کُتب کی شکل میں بھی عوام و خواص میں بےحد مقبولیت حاصل کی۔
اب عرفان جاوید کی تحقیقی و تخلیقی کاوشوں کا حامل یہ تازہ سلسلہ ’’آدمی‘‘ قارئین کی نذر کیا جارہا ہے۔ چند معروف، کم معروف، غیر معروف مگر نادر ونایاب شخصیات کے اِن خاکوں میں فاضل مصنّف کے مشاہدے کی توانائی اور بیان کی دل کشی بہ درجۂ کمال نظر آتی ہے۔ یہ کون، کہاں، کیوں اور کیسے، کیسے لوگ تھے۔ اِس دل چسپ، زندگی آمیز سلسلے میں اِن اَن مول، ’’بے پناہ‘‘ صاحبان سے ملاقات کیجیے۔
چَھٹا اور آخری خاکہ، بانسری کی لَے کی طرح مدھر، سرسراتی ہوا جیسے نرم، کوئل کی کُوک ایسے فطرت سے ہم آہنگ اورجنگلی پھولوں سے کشیدکردہ شہد کے سے کھرے، سچّے، سُچّے، میٹھے بانسری بابا کا ہے۔ ملاحظہ کیجیے،ایک لازوال تحریر۔
سلسلے سے متعلق اپنی آرا سے آگاہ کرنا مت بھولیے گا۔ آپ اِن ای میل آئی ڈیز پر اپنی ہر طرح کی رائے یا ذہن میں آنے والا کوئی بھی سوال شیئر کر سکتے ہیں۔
sundaymagazine@janggroup.com.pk
irfanjaved1001@gmail.com
(ایڈیٹر، سنڈے میگزین)
بابا اقبال پہرے دار، پتوکی سے آٹھ ہزار روپے میں بہو خرید کر لایا تھا۔ بہو شوخ، کم عُمر، کھلنڈری لڑکی تھی۔ وہ سارا دن گھر میں اُچھلتی کھیلتی رہتی۔ ایک لمحہ گھر کے سامنے والے باغ میں ارجن کے درخت کے سائے میں ہوتی تو دوسرے لمحے پچھلے باغیچے میں بوگن ویلا کی بیل کے ساتھ ہوتی۔ اِدھر وہ سنگِ مرمر کے فرش والے پشتی ورانڈے میں بیٹھی نظرآتی، اُدھر وہ سُرخ اینٹوں والی دیوار کے برابرسفید ستونوں کے پیچھے چُھپی ہوتی۔ بابا اقبال کو مجبوراً اپنے بیٹے اسلم کے لیے منڈی سے بیوی خریدنا پڑی تھی۔ چونتیس پینتیس سالہ اسلم اعصاب اورپٹھوں کی بیماری میں مبتلا تھا۔ اُس کا زیادہ وقت ملازموں کے سکونتی حصّے میں بان کی چارپائی پر لیٹے گزرتا یا وہ لاٹھی کے سہارے چلتا ہوا گھر کے باہر سبزے پر پھولوں کی کیاریوں کے برابر آبیٹھتا۔
ایک سچّے، سُچّے، کھرے، خالص شخص کااحوالِ زیست
اسد جان روڈ، لاہور چھاؤنی کی راج دَور میں لگائے گئے چھتنار درختوں کےبیچ میں لیٹی خاموش سڑک تھی، جس پر اپنے موسموں میں جامن، شہتوت اور دیگر پھل ٹپ ٹپ زمین پرگرتے رہتے تھے۔ چھاؤنی کے پھل دار درختوں کا باقاعدہ ٹھیکا دیاجاتا تھا۔ اس سڑک پر اِکاّدُکّا راہ گیر اور چند گاڑیاں، سائکلیں گزرتی تھیں۔ اسلم پتھرائی نظروں سے اُنھیں دیکھتا رہتاتھا۔ بابا اقبال سردیوں میں زیتون اور گرمیوں میں سرسوں کے تیل سے روزانہ بیٹے کے بدن کی مالش کرتا۔ سردیوں میں مالش کر کے وہ لنگی پہنے اسلم کی چارپائی دھوپ میں ڈال دیتا۔ اُس کا کہنا تھا کہ اِس سے بدن میں حدّت پیدا ہوتی ہے، مسام کُھل جاتے ہیں اور آدمی چست ہوجاتا ہے۔ وہ اسلم کو صدر چوک کے قریب واقع حکیم شریف جگرانوای کے مطب بھی لے جاتا تھا، واپسی پر معجون، مرکب، شربت، پھکی لےآتا تھا۔
کئی برس کی مالش، علاج معالجے کے بعد اسلم اس قابل ہوگیا تھا کہ اپنے قدموں پر چلنے لگا تھا اور سائکل تھامے پیدل چلتا ہوا قریبی اٹھائیس بازار میں حجام، دودھ جلیبی والےشیرفروش یا قتلمے پراٹھے والے ہوٹل تک چلا جاتا تھا اور وہاں یک سوئی سے ایک ٹک لکڑی کے اونچے پھٹّے پر رکھے چھوٹے سے ٹی وی پر چلتی فلموں، ڈراموں کو پرُشوق نگاہوں سے دیکھتا رہتاتھا۔ وہ سلطان راہی کا عاشق صادق تھا۔ شاید اس کی جسمانی کم زوری کے احساس کو سلطان راہی کی بڑھکیں، گنڈاسے، چُھرے، چاقو اور للکاریں مطمئن کرتی تھیں۔اسلم کی جِسمی بہتری تادیر نہ چلی اوربیماری اُسے گھسیٹ کر چارپائی تک لے آئی۔
بابا اقبال ایک مذہبی عقیدت سے اپنے بیٹے کی خدمت میں جُت گیا۔ مقررہ وقت پر لیٹرین لے جانے، غسل دلانے، نیم گرم تیل سے اُس کے جسم کی مالش کرنے، پتیلی، کیتلی میں کھانا چائے رکھنے، نوالے بنا کر اُسے اپنے ہاتھ سے کھلانے، بروقت دیسی ولایتی ادویہ دینے، اُس کے لیے پنجابی فلمی ڈائلاگز کے ساتھ گانوں والی کیسٹیں لانے اور رات کو تھپک تھپک کر سُلانے تک وہ سب کام بڑی محبّت اور توجّہ سے کرتاتھا۔اُنھی دنوں اُسے یہ فکر ستانے لگی کہ اُس کے بعد اُس کے بیٹے کا خیال کون رکھے گا۔ بیوی کے شریکِ حیات اور ہم سفر ہونےکاتصوّر مغربی اورنیا تھا۔
بابا اقبال کے مطابق شوہر کا کام کمانا اور گھر کی حکم رانی، جب کہ شوہر کی خدمت اور گھرداری بیوی کا فرض تھا۔ یہ اُس دَور کے بعد کی بات ہے کہ کوٹ مٹھن سے تعلق رکھنے والے اپنے دوست طارق بخاری سے ایک مرتبہ مَیں نے کہا کہ اُس کے ساتھ لکشمی چوک جانے کے لیے مَیں اپنی امّی سے اجازت لے لوں تو اُس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’امّی کا تصوّر تمھارے علاقے (یعنی لاہور) میں رائج ہے، ورنہ ہمارے ہاں تو صرف ابّا ہوتا ہے۔‘‘
بہرحال، پینسٹھ ستّر سالہ بابا اقبال نے بیٹے کے لیے رشتے تلاش کرنے شروع کیے۔ لوگ اسلم کو دیکھنے آتے تو بابے کے چہرے پر تشویش آمیز محبّت عود کر آتی۔ وہ رشتے والوں کے سامنے اسلم کے مزاج کی خوبیاں بیان کرتا، اُنھیں یقین دلاتا کہ ابھی بابے کے بدن میں جوانی کا سارا زور موجود ہے اور وہ خُوب کمالیتا ہے، اس لیے اُس کے بیٹے کو ملازمت کی ضرورت نہیں۔ وہ مہمانوں کے سامنے دودھ پتّی، میوہ جات والا گُڑ، باقرخانیاں، نمک پارے، بوندی (بدانہ) وغیرہ رکھتا۔ اس دوران وہ اسلم کے بچپن کے واقعات، اُس کی فرماں برداری کی قصّے سُناتا رہتا۔ وہ مہمانوں کی آمد سے پہلے اسلم کو اہتمام سے چارپائی سے اُٹھا کر ٹیک لگا کر کرسی پربِٹھا دیتا۔
مہمان کھاتے پیتے، گپ شپ کرتے اور کبھی لوٹ کر نہ آتے۔ یہ سلسلہ یوںہی چلتا رہا۔ بابا اقبال انسانی فطرت کے اصولوں کے تحت زندگی گزارتا تھا اور معاشرتی رسوم کو خاص خاطر میں نہ لاتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ معاشرتی رسوم زمانے کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں، جب کہ فطرت کے تقاضے ازل سے وہی ہیں۔ ایک مرد کو عورت کے ساتھ کی ضرورت رہتی تھی، ہے اور رہے گی۔ وہ اپنے بیٹے کا باپ بن کر سوچتا تھا، آنے والی بہو کا باپ بن کر نہیں کہ وہ اپاہج شوہر کے ساتھ کیسے گزارہ کرے گی۔ جہاں اولاد کا معاملہ آجائے، وہاں ماں باپ کا خود غرض ہوجانا قرینِ فطرت ہے، حالاں کہ ڈاکٹر بتاچُکےتھے کہ بیٹے کے ہاں اولاد ہونے کا امکان نہیں۔
بابا اپنی جمع کردہ تن خواہ میری والدہ کے پاس رکھوایا کرتا تھا۔ اُسے صحیح طرح سے لمبی گنتی نہیں آتی تھی۔ ضرورت آن پڑتی تو وہ جمع شدہ رقم سے پیسے لے لیا کرتا تھا۔ ’’جب مَیں برما کے محاذ پر تھا، تو وہاں بھی میری تن خواہ صوبے دار کے پاس جمع رہتی تھی۔ گھر واپسی پر مَیں رقم لےلیاکرتاتھا۔ ساری زندگی میرا کھاتا بھروسے پرچلتا رہا ہے۔‘‘ ایک مرتبہ اُس نے مجھے پنجابی میں بتایاتھا۔ وہ اپنی جمع شدہ رقم کو’’گِدڑ پروانہ‘‘ کہتا تھا۔
ایک صبح وہ جمع پونجی میں سے دس ہزار روپے لے کر صاف ستھرے سفید کپڑے زیب تن کیے، سَر پر صافہ پگڑی کی طرح باندھے، تِلّے والا کُھسا پہنے، عطر لگا کر روانہ ہوگیا۔ اگلے روز وہ واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں دیسی برفی کا ڈبّاتھا۔ اُس نے بتایا کہ وہ آٹھ ہزار روپے میں اسلم کا رشتہ طے کر آیا ہے۔ اُس نے پتوکی کے چنگڑوں، خانہ بدوشوں میں رشتہ طے کیا تھا۔ اسلم پتوکی نہ جاسکتا تھا، سَو تھوڑے دنوں بعد چند عورتیں، مرد گھر پر آئے، اُن کے ساتھ نکاح خواں تھا اور دلہن بھی تھی۔ وہیں نکاح ہوا، شیرینی تقسیم ہوئی اوروہ لوگ لڑکی کوچھوڑکر چلے گئے۔
ابتدائی چند دن تو لڑکی سہمی، چھوئی موئی بنی دوسروں سے چُھپی رہی۔ تھوڑے دنوں میں وہ سامنے آئی اور گھر کے دیگر ملازمین کے ساتھ گُھل مِل گئی۔ لڑکی اپنی عُمر سے بدرجہا تیز تھی۔ سارا دن گھر بھر میں پِھرتی، گپ شپ کرتی، کھیلتی کُودتی، گھر کے معاملات کی ٹوہ لیتی، ہم سایوں کی خبریں سُناتی، کھانے پینے کی چھوٹی موٹی اشیا بھی اُٹھالے جاتی، مگر اسلم کے پاس نہ بیٹھتی۔ بابا اُسے کھینچ کھانچ کر اسلم کے پاس بٹھاتا، وہ اپنے اوپر جبر کرکے تھوڑی دیر بیٹھتی اور پھر آنکھ بچا کر نکل جاتی۔ اُس کے میکے سے بھی کبھی کبھار کوئی اُسے ملنے آجاتا تھا۔ دو ایک ماہ بعد ایک روزمَیں صبح سَوکراُٹھا تو بابے کے ہاں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی۔ وہ با آوازِ بلند واویلا کررہا تھا۔ اُس کی بہو گھر سے بھاگ گئی تھی۔ تھوڑی دیر میں جو کپڑے اُس نے پہنے ہوئے تھے، اُنھی میں وہ پتوکی روانہ ہوگیا۔
واپس آکر اُس نے دُکھی آواز میں بتایا کہ لڑکی کے گھر والے اپنے خیمے اُٹھا کر نامعلوم مقام کو روانہ ہوگئے تھے۔ اُن لوگوں کا قیام خیموں میں تھا، جو ایک کائی زدہ تالاب کے قریب اِستادہ کیے گئے تھے۔ اب وہاں کوئی خیمہ نہ تھا۔ گنجے میدان میں دھول اُڑ رہی تھی۔ خیمہ دار اپنے ساتھ بابا اقبال اور اسلم کے ارمان بھی لے گئے تھے۔ اگلے چند دنوں میں جب مزید تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ ان چنگڑ، خانہ بدوشوں کا کاروبار ہی یہ تھا کہ وہ اپنی لڑکیوں کی شادیاں قیمتاً کہیں کروا دیا کرتے تھے،چند ہفتے لڑکیاں، لڑکےوالوں کے گھر رہتی تھیں، اس دوران خانہ بدوش چھوٹی موٹی چوری چکاری، دھوکا دہی، جیب تراشی وغیرہ کرتے تھے، بعد ازاں، وہ معیّنہ مدت کے بعد اپنی لڑکیوں کو لے کر غائب ہوجاتے تھے۔
لڑکیوں کی ایسی تربیت کی گئی تھی کہ وہ کسی کو اِن ارادوں کی ہوا بھی نہ لگنے دیتیں، موقع ملتا توزیورات وغیرہ بھی اڑالے جاتی تھیں۔ اُن میں سے چند لوگ پکڑے جاتے تھے اور معمولی سزائیں بھی پاتے تھے۔ مگر یہ سزائیں اُن کے حوصلے نہ توڑتی تھیں کہ وہ پیشہ ور چور، عادی دھوکےباز تھے۔ اُنھی لوگوں میں سپیرے، سانپ، نیولے کی لڑائی کروانے، بندر کا تماشا لگانے، معمولی دست کاری والے اور اِسی نوع کے دیگر کاموں سے منسلک لوگ ہوتے تھے۔
پولیس میں کیس کردیا گیا۔ بابا اقبال کئی ماہ تک کیس کی پیروی میں جاتا اور نامُراد لوٹتا رہا۔ پھر اُس کی ہمّت جواب دے گئی اور اُس کے تھانے کے دورے گَھٹتے گَھٹتے ختم ہوگئے۔ بیماری نے اُس کا گھر دیکھ رکھا تھا۔ بابا اقبال میانے قدکا تھا، چہرے پر لکیروں کا جال بچھا تھا اور رنگت پختہ تھی، بیوی صُغراں گوری چِٹّی ادھیڑ عورت تھی۔ دنداسہ کرنے کے بعد اُس کے گورے چہرے پر سُرخ خوں رنگ ہونٹ مسوڑھے خُوب نمایاں ہوجاتے تھے۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹا باپ پر تھا، بیٹیاں ماں پر۔
صُغراں خوب میل ملاپ والی عورت تھی۔ اُس کے ہوتے ہوئے اُن کے سکونتی حصّے میں خُوب رونق اور چہل پہل رہتی تھی۔ وہ خود بھی سارا دن اپنے جان پہچان والے لوگوں کے گھروں میں آتی جاتی رہتی تھی۔ بابا اقبال اور صُغراں جب ہمارے ہاں منتقل ہوئے تھے، تو اُس علاقے میں اُن کی کوئی خاص شناسائی نہ تھی لیکن صُغراں کےہم دردانہ اور میٹھے مزاج کی وجہ سے جلد ہی اُس نے کئی گھرانوں میں واقفیت پیدا کرلی۔ صُغراں کانام عمومی دیسی رواج کے مطابق صُغری کردیا گیا تھا۔ اُن دونوں میاں بیوی میں ایک بات منفرد تھی کہ وہ ایک دوسرے کی زندگی میں دخیل وحارج نہ ہوتے تھے، ایک چھت تلے اپنی اپنی زندگی گزارتے تھے۔
صُغراں دن بھر اپنے جاننے والوں کے ہاں آتی جاتی، شام کو گھر لوٹتی تھی۔ بابا اپنی ہانڈی روٹی خود کرلیتا تھا، بیوی سے زیادہ پوچھ گچھ نہ کرتا تھا اور نہ ہی پابند کرتا تھا۔ چند برس میں صُغراں کو ایک عجیب عادت پڑگئی تھی۔ اُسے کسی ڈھیری پر، کسی گوشے میں، راہ چلتے کوئی قابلِ استعمال شے مل جاتی تو اٹھا لایا کرتی، کرسی پر رکھنے والی گدّی ہو، المونیم کی پچکی ہوئی پتیلی، اُدھڑی ہوئی چادر، ہتھی سے ٹوٹی لکڑی کی چَھڑی ہو یا ٹوٹی ٹانگ والا اسٹول۔ بابا اقبال اُس کی اِس عادت پر بہت چیں بہ جبیں ہوتا۔ ’’مَیں سابق فوجی، میرے خاندان میں میری عزت، اپنا کماتا، اپنا کھاتا ہوں اور اِسے دیکھو بھکاریوں، چنگڑوں، منگتوں والے شوق پال رہی ہے۔‘‘وہ ٹھٹیھ پنجابی میں کہتا تو اُس کی سُرمہ لگی چھوٹی چھوٹی آنکھیں سُرخ ہوجاتیں۔
کبھی صغراں مجہول انداز میں ہنس کر اُس کی بات ٹال جاتی تو کبھی جھگڑ پڑتی۔ جب جھگڑا بڑھتا تو وہ چند روز کے لیے اِس عادت سے گریز کرتی یا کوئی چھوٹی موٹی شے، اَدھ ٹُوٹا کانچ کا شمع دان، پتیل کا موم بتی اسٹینڈ وغیرہ لاکر ٹرنک میں چُھپا دیتی۔ میرے گھر والوں کو اس بات کا علم ہوا تو اُن میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ہم خُوب جانتے تھے کہ وہ یہ چھوٹی موٹی چیزیں کہیں سے چوری کر کے نہیں لاتی بلکہ راہ پڑی اُٹھالاتی تھی مگر یہ خوف دامن گیر رہتا کہ کہیں کوئی اِس سادہ دل اور خوش مزاج عورت پر چوری کا الزام نہ دھردے اور وہ بے وجہ کسی مسئلے میں گرفتار ہوجائے۔ دوسری پریشانی یہ دامن گیر تھی کہ اُن کی اقامت ہمارے گھر کے پچھواڑے تھی، ایسی صورت میں بلاواسطہ الزام ہم پر بھی آتا۔
ایک شام ابھی جھٹ پٹے کا وقت تھا کہ وہ گھر میں صدر دروازے سے داخل ہوئی اور سامنے کے باغ سے گزر کر گھر کے پچھلے حصے کی جانب جارہی تھی کہ ورانڈے میں کھڑی میری والدہ نے اُسے پیار سے روک لیا۔ اُس نے اپنی چادر تلے کچھ چُھپایا ہوا تھا۔ والدہ نے مشفقانہ انداز میں پوچھا کہ وہ کیا لے جا رہی ہے۔ ’’کچھ بھی نہیں‘‘ اُس نے کچھ جھجکتے، جھینپتے ہوئے کہا۔ میری والدہ نے محبّت بَھرا اصرار کیا کہ وہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ وہ کیا مٹھائی یا تحفہ ان سے چُھپا کر چُپکے چُپکے گھر لے جارہی ہے تاکہ اُنھیں دینا نہ پڑجائے تو اُس نے اپنی چادر کھول دی۔ اُس نے چادر تلے ایک پوٹلی باندھ رکھی تھی۔ پوٹلی کھولی تو وہ مختلف قسم کی ادویہ سے بَھری ہوئی تھی۔ والدہ کو تشویش ہوئی کہ کہیں وہ کسی بیماری کا شکار نہ ہو۔ اُنھوں نے اُس کی طبیعت کا پوچھا تو اُس نے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے، بس وہ ادویہ اُسے مختلف جگہوں پر گِری پڑی مِلی تھیں، تو وہ اُنھیں اُٹھا لائی ہے۔ (جاری ہے)