اُس کی آمدنی کا ایک بڑا حصّہ اپنی بیوی کی بیماری کے علاج پر خرچ ہو رہا تھا۔ وہ خود بھی بلڈپریشر اور شوگر کا مریض تھا۔ ابھی اُس کی عُمر پچاس پچپن برس تھی کہ اِسی دوران اُس کا گھرانا ایک دل چسپ سانحے سے گزرا۔ اُس کی بیوی اونچی ناک والی خاتون تھی، جو اپنے معیار سے کم پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہ ہوتی تھی۔ وہ جوہرٹاؤن میں ایک کنال کےگھر میں کرائے پر رہتے تھے، اچھی گاڑی رکھی ہوئی تھی اور ملازم وغیرہ بھی تھے۔ مطیع جو کماتا تھا، اُس سے زیادہ خرچ ہو جاتا تھا، بچت ندارد۔
اُس نے لبرٹی مارکیٹ میں واقع ایک ہوٹل میں دفتر کھول رکھا تھا۔ ایک روز دوپہر کے قریباً ایک بجے اُن کے گھر کی اطلاعی گھنٹی بجی۔ مطیع اُس وقت گھر پر ہی تھا۔ ملازم کے بیٹے نے دروازہ کھولا۔ باہر چند لڑکے کھڑے تھے۔ اُن میں سے ایک لڑکے نے پوچھا۔ ’’خان صاحب گھر پر ہیں؟‘‘ ’’جی…‘‘ ملازم کے بیٹے نے جواب دیا۔ ’’اُنھیں بتاؤ کہ کچھ مہمان آئے ہیں۔‘‘ملازم کا بیٹا اندر گیا اور مطیع کو بتایا۔ ’’پاپا! باہر کچھ مہمان آئے ہیں۔‘‘ملازمین کے بچّے بھی اسے پاپا کہتے تھے۔ مطیع نے سوچا کہ نہ جانے کون بِن بُلائے مہمان آگئے۔ اِسی دوران وہ لڑکے کُھلے گیٹ سے اندر آچُکے تھے۔
مطیع کو گھر کے دروازے سے باہر نکلتے دیکھ کر انھوں نے اس پر بندوقیں، پستولیں تان لیں اور گھر کے اندر لے گئے۔ ملازم سمیت گھر میں موجود افراد اور اس کے بیٹے کو اُنھوں نے یرغمال بنالیا۔ اتنے میں گھر کی پہلی منزل سے مطیع کی بیوی معمول کے مطابق نیچے اُتری تو اس نے دیکھا کہ اُس کا شوہر اور بچّے ڈاکوؤں کی زد میں ہیں۔ ڈاکوؤں نے بیوی کی جانب بھی اسلحہ تان لیا۔ بیوی ایک دبنگ عورت تھی۔ اُس نے اونچی اور پاٹ دار آواز میں اُنھیں للکارا کہ خبردار! گھر کے کسی فرد سے نہ تو کوئی بدتمیزی کرے اور نہ ہی کوئی انھیں چُھوئے، وگرنہ وہ خود تو مرجائے گی مگراُن کا قیمہ کردے گی۔ یہ سُن کر ڈاکو ٹھٹھک گئے۔ اُنھیں تذبذب اور اپنی للکار کے اثر میں آتے دیکھ کر بیوی نے گھر کی بیٹھک میں پڑا اپنا بٹوا نکالا، ڈاکوؤں کو کھول کر دِکھاتے ہوئے اُس میں سے دو سو روپے نکالے اوراُنھیں وہ روپے دیتے ہوئے بولی۔
’’اگر اس گھر میں تمھیں ان دو سو روپوں کے علاوہ رقم ملے تو سب سے پہلے مجھے گولی مارنا۔‘‘یہ کہہ کر وہ پیچھے ہٹ گئی اور ڈاکوؤں کو رستہ دے دیا۔ ڈاکو ایک بجے دوپہر کے قریب آئے تھے۔ اُنھوں نے باہر کا گیٹ بند کردیا تھا۔ ڈھائی تین بجے تک وہ پورا گھر چھان چُکے تھے۔ خواب گاہ کی الماری کے پَٹ کھلے تھے اوروہ ادویہ سے اَٹی پڑی تھی۔ بیوی نے اُس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈاکوؤں سے کہا کہ جس گھر میں اتنی دوائیں آتی ہوں، وہاں بھلا بچت کیسے ممکن ہے۔ گھر کی تلاشی کے دوران اُن کے ہاتھ مطیع کے جمع کردہ نوادر لگے تھے۔
وہ ان کی اہمیت نہ جانتے تھے، سو اُنھوں نے ان میں سے صرف چاندی کی اشیا اُٹھالیں۔ اب تک ماحول میں تناؤ کم ہو چکا تھا۔ مزید یہ کہ مطیع الرحمان نے اُنھیں لطیفے سُنانے اور جُگتیں لگانا شروع کردیں۔ البتہ مطیع کی بیوی انتہائی سنجیدگی سے اُنھیں گھورتی رہی۔ وہ تلاشی مکمل کرچُکے تو اُنھوں نے مطیع کی بیوی سے، جسے وہ آپا کہہ رہے تھے، لجاتے ہوئے درخواست کی کہ اُنھیں بہت زور کی بھوک لگی ہے، گھر سے تو کوئی خاص شے ملی نہیں، تو وہ کم ازکم اُنھیں کھانا ہی کِھلا دے۔ دوپہر کا کھانا ڈاکوؤں کے آنے سے پہلے ہی تیار ہو چُکا تھا۔ بیوی نے ملازم سے کہا کہ تازہ پُھلکے بنا لے۔ کھانا کھا کر ڈاکوؤں نے بیوی کا شکریہ ادا کیا، تکلیف پر معذرت کی اور پانچ بجے کے قریب چاندی کے نوادرات والی پوٹلی اُٹھا کر نکل گئے۔
اُن کے جاتے ہی بیوی نے اپنے ایک عزیز کو فون کیا، جو پولیس میں اعلیٰ عُہدے پر تھا اور واردات کی رُوداد سُناتے ہوئے اُسے طعنہ دیا کہ وہ کیسا بھائی ہے، جس کی بہن کے گھر ڈکیتی ہوگئی ہے اور وہ مزے سے دفتر میں بیٹھا ہے۔ نتیجتاً پولیس متحرک ہوگئی۔ چند روز میں ڈاکو لڑکے پکڑے گئے۔ پتا چلا کہ وہ مطیع کے دفتر کے ملازم کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے تھے۔ وہ اُس سے مطیع کی شہرت، اُس کی اہم لوگوں سے ملاقاتوں، بیگم کے ناز نخرے وغیرہ کا سُنتے رہتے تھے۔ سو، اس تاثر میں مطیع کے گھر ڈکیتی کرنے چلےگئے تھے کہ وہاں خُوب مال پیسا ہوگا۔ جب وہ پکڑے گئے، تو ڈاکوؤں کے عزیز مطیع کے گھر آکر اس کی بیوی کے قدموں میں گِرپڑے کہ گھر کا فیصلہ کُن اختیار اُس کے پاس تھا۔ اُس نے اُنھیں یہ کہہ کر معاف کردیا کہ ڈاکوؤں نے اہلِ خانہ کو کوئی تکلیف دی تھی اور نہ ہی بدتمیزی کی تھی بلکہ احترام سے پیش آئے تھے۔ البتہ عدالت نے اُنھیں سزائیں سُنائیں اور پابند ِسلاسل کردیا۔
ایک مرتبہ مَیں نے مطیع سے پوچھا کہ اُس کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے۔ وہ بولا کہ میری تمنّا ہے کہ کسی طرح میرے بڑے بیٹے کو بھارت جانے کا موقع مِل جائے۔ وہ وہاں تباہی مچا دے گا، بالی وُوڈ میں اُس جیسا ہیرو اُس سے پہلے آیا ہوگا، نہ بعد میں آئے گا۔‘‘ مطیع کی آنکھوں میں ستارے تھے۔ جب مَیں نے پوچھا کہ بھارت پہنچ کر وہ ایسا کیا رستہ اختیار کرے گا، جس سے وہ سُپراسٹار بن جائے،تو اِس کا مطیع کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ وہ فقط اتنا بولا ’’آپ دیکھتے جائیں۔‘‘ آخری مرتبہ مطیع مجھے لبرٹی مارکیٹ میں کتابوں کی دکان ورائٹی بُکس کے سامنے پارکنگ میں مِلا۔ وہ وہاں رکشے پر آیا تھا۔ جلدی میں تھا، گلے مِل کر چلا گیا تھا۔ تب تک اُس کی بیوی کی وفات ہوچُکی تھی اور وہ خاصا مضمحل نظر آرہا تھا۔
حال ہی میں مَیں نے مطیع کے دوست، عامر میاں سے رابطہ کیا، جو اُس کے ساتھ سیال کوٹ بھی آیا تھا۔ مَیں نے پوچھا کہ مطیع کے بچّوں کا کیا حال ہے۔ اُس نے میرا سوال ٹال دیا اور بولا’’مطیع کو اپنے دونوں بیٹوں اور بیٹی سے عشق تھا، بیٹی سے زیادہ تھا۔ مطیع کی بیٹی بہت ہی پیاری اور معصوم بچّی تھی۔ کم گو اور تابع فرمان، گڑیا جیسی بچّی۔ مجھے چاچا کہتی تھی۔ میری گود میں کھیلی ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ کی بات ہے، جب وہ بارہ تیرہ برس کی تھی، گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ پوز بنا کر اُس نے مجھ سے کہا کہ مَیں کیمرے سے اُس کی تصویر بنالوں۔
مَیں نے تصویر اُتار کر ڈویلپ کروائی اور مطیع کے پاس لے کرگیا۔ تصویر تھماتے ہوئے مَیں نے مطیع سے کہا کہ دیکھو، بچّی کتنی پیاری لگ رہی ہے۔ تصویر دیکھ کر مطیع خوش ہونے کے بجائے گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ مَیں نے وجہ پوچھی تو بولا ’’یار! مَیں اپنی بیٹی کو باپ کی نظر سے دیکھ رہا ہوں۔ یہ تو دِنوں میں جوان ہوتی جارہی ہے۔ مَیں کیسا باپ ہوں کہ اب تک اپنی بچّی کے لیے کچھ نہ کرسکا، مَیں کیسا باپ ہوں۔‘‘مَیں نے ایک بات کی تصدیق چاہی، جو ہمارے ایک مشترکہ جاننے والے نے مجھے بتائی تھی۔ ’’کیا یہ سچ ہے کہ مطیع نے اپنے اُس بیٹے کی شادی، جسے وہ بالی ووڈ میں ہیرو دیکھنا چاہتا تھا، آخری دنوں میں مایوس ہو کر کینیڈا کی قومیت کی خاطر ایک پاکستانی نژاد کینیڈین نیشنل معذور بچّی سے کردی تھی۔‘‘
اُس نے اِس بات کی تائید کی۔ اُس نے بتایا کہ مطیع کا دوسرا بیٹا بھی معمولی نوعیت کی ملازمت کر رہا ہے۔ ’’اور اُس گڑیا سی بیٹی کا کیا بنا؟‘‘مَیں نے پوچھا۔ مطیع کا دوست خاموش ہوگیا اور آہ بھر کے بولا ’’اُس پیاری بچّی کوایک شوہرسےطلاق ہوئی اور دوسری جگہ سے دھوکا۔‘‘میری آنکھوں کے سامنے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والے صحت مند وتوانا، زندہ دل، یار باش مطیع کا مسکراتا چہرہ گھوم گیا۔ ایک ایسے باپ کا چہرہ، جو اپنی اولاد سے عشق کرتا تھا۔ وہ یک دَم مرگیا، اپنی پیاری اولاد کو زمانے کے رحم وکرم پر چھوڑ کے۔ چند ایک ہی خوش قسمت بیٹیاں ہوتی ہیں، جن کے اگر اوائل عُمری میں باپ مرجاتے ہیں، تو اُنھیں سہارا دینے والے میسّر آجاتے ہیں۔
ہم جو ہروقت اِس جملے کی جگالی کرتے رہتے ہیں ’’اللہ بیٹی کے نصیب اچھے کرے‘‘ جانے کتنوں کی بیٹیوں کے نصیب اپنے ہاتھوں سے بگاڑ دیتے ہیں۔ مَیں نے اَن جانے اندیشے کے تحت پوچھا۔ ’’اب بچّی کس حال میں ہے؟‘‘ ’’ناز ونعم میں پَلی، لاہور کے اچھے علاقے میں رہنے والی اور عُمدہ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والی وہ بے چاری ٹوٹی پھوٹی، ماں باپ سے محروم بچّی واپس مانسہرہ کے اُس پس ماندہ گاؤں چلی گئی ہے، جہاں سے کبھی اُس کے دادا آنکھوں میں خواب لیے ہجرت کر کے لاہور آئے تھے۔‘‘
مطیع کی کہانی پاکستان کے ہزاروں خاموش اور سوگ وار گھرانوں کی کہانی ہے۔ مَیں نے عامر میاں سے پوچھا کہ اگر وہ مطیع کو چند الفاظ میں بیان کرنا چاہے تو کیا کہے گا۔ اُس نے کہا۔ ’’ترسا ہوا آدمی۔‘‘ بےشک، وہ ایک محبّت اور توجّہ کو ترسا ہوا آدمی تھا۔ شاید اس لیے بھی خواب نگر میں رہتا تھا اور لوگوں کو بھی خوش کرنے کے لیے، مسرت بانٹنے کے لیے، خواب دِکھایا کرتا تھا۔