• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوانی کی دہلیز پر

آقائے دوجہاں، حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جب عنفوانِ شباب کو پہنچے، تو دیکھا کہ مکّہ مکرّمہ سمیت پورا عرب فسق و فجور، بدکاری و بے حیائی، فحاشی و عریانی، لہو و لعب اور شرک و کفر کی خرافات میں غرق ہے، لیکن اس دُرّیتیم نے پاکیزگی و نیکوکاری کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے اپنے پاک و صاف دامن کو کبھی برائی کی پرچھائیں تک سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ اپنے بے داغ اور پاک کردار کے ساتھ بزرگوں جیسی سنجیدگی و بُردباری کے حامل، اہلِ علم و فکر جیسی فہم و فراست، غور و فکرکرنے والے اور عفو و درگزر و حُسنِ اخلاق کی عملی تصویر تھے۔ 

مہر و محبت کا خزینہ، امانت و دیانت اور عدل و انصاف کے خُوگر، شیریں کلام ایسے کہ لبوں سے پُھول جھڑیں اور الفاظ کانوں میں رَس گھولیں، صادق ایسے کہ اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل اور ابولہب بھی تسلیم کرتے کہ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ عادل اور منصف ایسے کہ جن کے فیصلے کفّار کے سردار بھی سر جُھکا کر تسلیم کریں، اور امین ایسے کہ خون کے پیاسے مشرکینِ مکّہ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواکر سب سے زیادہ محفوظ تصوّر کرتے۔ انسانی اقدار اور مکارمِ اخلاق کا وہ اعلیٰ نمونہ کہ جن کے ایفائے عہد اور اتمام وعدہ کی نظیر نہیں ملتی۔ 

پورے عرب میں صادق اور امین کے لقب سے جانے پہچانے جانے والے اس عظیم انسان نے جب رفیقۂ حیات کا انتخاب کیا، تو قریش کی ایک سے ایک حسین و جمیل، خُوب رُو دوشیزائوں کو چھوڑ کر اپنے سے 15؍سال بڑی ایسی بُردبار خاتون کا انتخاب کیا، جنہیں معاشرہ ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے یاد کرتا تھا۔ زندگی کے پُرسکون لمحات تھے کہ جہاں عزّت بھی تھی اور دولت بھی، پھول جیسی معصوم بچّیوں کے مُسکراتے چہرے بھی تھے اور ہم سفر رفیقِ حیات کا اُلفت بھرا ساتھ بھی۔

مکّہ مکرّمہ کی مشہور جنگِ فجار

ابنِ ہشام کے بیان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عُمرِ مبارک 15؍سال تھی، جب حربِ فجار ہوئی۔ ابنِ جریر اور طبری کا بیان ہے کہ ’’یہ جنگ 20؍عام الفیل میں ہوئی۔ اُس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عُمرِ مبارک 20؍سال تھی۔‘‘ اُس جنگ میں ایک فریق بنی کنانہ تھے، جن میں قریش بھی شامل تھے اور دوسری طرف قیس عیلان تھے، جن میں ثقیف اور ہوازن وغیرہ شامل تھے۔ اسے حربِ فجار اس لیے کہتے ہیں کہ یہ اُن مہینوں میں لڑی گئی، جن میں جنگ کرنا، فجور یعنی حرام تھا۔ (ابنِ ہشام، صفحہ 1/188)۔

معاہدہ حلف الفضول

آنحضرتؐ کی عمرِ مبارک 20؍سال تھی کہ جب قریش کے چند قبائل نے ایک معاہدہ کیا، جسے حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ فضل کی جمع فضول ہے۔ مؤ رخ ابن قتیبہ کے مطابق فضل نام کے تین افرادنے اس معاہدے میں شرکت کی، جن کے نام فضل بن فضالہ، فضل بن وداعہ اور فضل بن حارث تھے۔ اس لیے یہ معاہدہ حلف الفضول کے نام سے مشہور ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے چچائوں کے ساتھ خیر کے اس معاہدے میں شرکت فرمائی تھی۔ (سیرت ابنِ ہشام، صفحہ 1/141) ۔

حجرِ اسود کی تنصیب کا واقعہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 35؍سال تھی کہ جب قریش نے خانۂ کعبہ کی تعمیرِنَو کا فیصلہ کیا۔ سب قبائل نے کام کو آپس میں تقسیم کرلیا اور سب نے مل کر کعبے کی تعمیرِ جدید کے لیے اس کی دیواروں کو منہدم کرنا شروع کردیا۔ جب بنیادوں تک پہنچے، تو وہاں سبز رنگ کے پتھر ملے، جو باہم جُڑے ہوئے تھے۔ جیسے ہی ان پر کدال پڑی، ایک نہایت زوردار دھماکے کے ساتھ مکّے کے درودیوار لرز اٹھے، جیسے کہ بھونچال آگیا ہو۔ اس کے بعدکام فوری طور پر روک دیا گیا۔ 

پھرچند روز بعد مشورے سے پرانی بنیادوں پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بعد حجرِاسود کی تنصیب کے مسئلے پر مکّہ کے سرداروں میں شدید اختلاف پیدا ہوگیا۔ ہر سردار کی خواہش تھی کہ یہ اعزاز اُسے نصیب ہو۔ اس سے پہلے کہ خون خرابے کی نوبت آتی، ایک بزرگ امیّہ بن مغیرہ بنِ عبداللہ نے تجویز پیش کی کہ جو شخص کل صبح سب سے پہلے مسجد ِحرام میں داخل ہو، اُسے منصف مان لیا جائے۔ دوسرے دن صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ معمول صبحِ صادق کے وقت حرم شریف کی جانب چل دیئے۔ 

آپؐ جیسے ہی اندر داخل ہوئے، لوگ پکار اٹھے۔ ’’ارے یہ تو محمّد ہیں۔ یہ امین و صادق ہیں، ہم سب اِن سے راضی ہیں۔‘‘ پھر سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا اورکہا کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے حق میں چاہیں، فیصلہ کردیں، ہم آپ کے فیصلے پر رضامند ہیں۔‘‘آپ نے معاملے سے آگاہ ہوکر اُسی وقت جھگڑاختم کردیا۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر منگوائی، اُسے بچھا کر اس کے بیچ میں اپنے دستِ مبارک سے حجرِاسود کو رکھا اور تمام سرداروں سے فرمایا کہ وہ چادر کے کناروں کو پکڑ کر اٹھائیں۔ حجر ِاسود کے مقام پر پہنچ کر آپؐ نے خود حجرِاسود کو اٹھایا اور اس کی مقرر کردہ جگہ پر نصب کردیا۔ اس فیصلے سے پوری قوم مطمئن و خوش ہوگئی اور اس طرح ایک بہت بڑا خونیں تنازع ظہور پذیر ہوتے ہوتے رہ گیا۔ (سیرت ابنِ ہشام، جلد1 صفحہ198)۔

بیت اللہ کی تعمیرِ جدید

قریش کے پاس حلال مال کم پڑگیا، تو انہوں نے شمال کی جانب کعبہ کی لمبائی 3؍میٹر کم کردی۔ یہ اب حطیم کا حصّہ بن گیا، باقی دیواریں پرانی بنیادوں پر کھڑی کیں، لیکن 3؍میٹر کم ہونے سے خانۂ کعبہ تقریباً چوکور شکل کا ہوگیا۔ رکنِ یمانی سے حجراسود تک 11.52؍میٹر، ملتزم کی سمت لمبائی 12.84؍میٹر، رکنِ یمانی سے حطیم تک 12.11؍میٹر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلندی 4.32؍میٹر رکھی تھی۔ قریش نے بلندی کو 8.64؍میٹر کردیا۔ (موجودہ بلندی 14؍میٹر ہے)۔ پہلے کعبہ شریف پر چھت نہیں تھی۔ 

قریش نے چھے ستون بنا کر چھت ڈال دی اور چھت پر حطیم کی جانب ایک پرنالہ بھی نصب کیا، جسے میزابِ رحمت کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زمین کی سطح سے ملا کر دو دروازے رکھے تھے۔ ایک مشرق اور ایک مغرب میں! قریش نے مغرب والا دروازہ بند کردیا اور مشرقی دروازے کو دو میٹر بلند کردیا۔ کعبہ شریف کی اس تعمیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس شرکت فرمائی۔ (تاریخِ مکّہ مکرّمہ، صفحہ42)ابنِ سعد نے لکھا کہ ’’قریش نے بیت اللہ کا دروازہ اس لیے بلند رکھا تھا کہ جسے چاہتے داخل ہونے دیتے، جسے چاہے روک دیتے۔‘‘

خلوت نشینی کے تین سال

ہر گزرتے دن کے ساتھ مکّہ معظمہ کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے تھے۔ کفر و شرک، شراب نوشی و بدکاری، جوا، سود خوری، ظلم و زیادتی،مقدس رشتوں کی پامالی اپنے عروج پر تھی۔ ان سب کے باوجود اہلِ مکّہ اگر کسی ایک شخص سے محبت کرتے تھے، تو وہ آپؐ کی ذاتِ گرامی تھی۔ آپؐ کی پاکیزہ و محترم شخصیت اہلِ مکّہ کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی، لیکن ان سب محبّتوں اور چاہتوں کے باوجود آپؐ اپنی قوم کی رسومِ قبیحہ، باطل عقائد اور واہیات تصوّرات سے بہت زیادہ افسردہ و غم گین رہاکرتے تھے۔ 

نبوّت سے تین سال پہلے ہی آپؐ کی طبیعت میں غیر معمولی تغیّر پیدا ہونے لگا۔ طبیعت کی بے چینی کسی پُرسکون جگہ کی متلاشی تھی، چناں چہ دنیاوی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے ستّو اور پانی ساتھ لے کر مکّے سے 3؍میل دُور جبلِ نُور پر تشریف لے جاتے اور غارِحرا کے پُرسکون ماحول میں عبادت و ریاضت اور کائنات کے مشاہدات پر غور فرماتے رہتے۔ یوں اس خلوت نشینی کے دوران توجّہ الی اللہ، غور و خوض اور فکرو جستجو میں تین سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔ 

امّ المومنین، سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ابتدائی دَور میں نزولِ وحی سے پہلے اچھے اور سچّے خوابوں کا سلسلہ شروع ہوا، یعنی جو کچھ آپؐ خواب میں دیکھتے، وہی پیش آجاتا۔ (صحیح بخاری، حدیث3) حضرت عمروؓ سے روایت ہے کہ ’’میں نے عبید بن عمیرؓ سے سُنا کہ وہ کہتے تھے کہ انبیاء کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث138)۔

وحی کا نزول

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عُمر مبارک 40؍سال ہوچکی تھی۔ آپؐ حسبِ معمول غارِ حرا میں عبادت و ریاضت میں مصروف تھے کہ اچانک جبرائیلِ امین سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات پر مشتمل وحی لے کر آپؐ کے پاس تشریف لائے۔ یہ ماہِ رمضان المبارک، شب قدر کی مقدّس و متبرّک رات تھی، جب اللہ نے آپؐ کو نبوت کے عظیم منصب سے سرفراز فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ، ’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت185)۔ 

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ، ’’ہم نے اِسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا۔‘‘ (سورئہ دخان، آیت3)۔ زمانہ نبوت کی کُل مدّت 23؍برس ہے۔ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ ’’سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنماز فرض کی گئی، جو ابتدا میں 2؍رکعت فرض اور ہجرت کے فوراً بعد چار رکعت ہوگئی، لیکن دورانِ سفر دو رکعت ہی رہی۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث3935،350)۔

دعوت وتبلیغ کے ادَوار و مراحل

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ زندگی کو دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، جو مکمل طور پر نمایاں اور ممتاز ہیں۔ دونوں حصّےاس طرح ہیں۔ (1)مکّی زندگی، جو تقریباً 13 برس پر محیط ہے۔ اور (2)مدنی زندگی، جس کی مدّت10سال ہے۔ آپؐ کی مکّی زندگی تین مراحل پر مشتمل تھی۔(1)پسِ پردہ دعوت کا مرحلہ… جو تین سال پر مشتمل ہے۔(2)اہلِ مکّہ میں علانیہ دعوت و تبلیغ کا مرحلہ… یہ چوتھے سال نبوت کے آغاز سے دسویں سال کے اواخر تک ہے۔(3)مکّہ مکرّمہ کے باہر اسلام کی دعوت کی مقبولیت اور اس کے پھیلائو کا مرحلہ… یہ دسویں سال نبوت کے اواخر سے ہجرت ِمدینہ تک ہے۔ (الرحیق المختوم، صفحہ107)۔

مکّہ مکرّمہ میں آفتابِ اسلام کی پہلی کرن

دعوتِ دین سینہ بہ سینہ: مکّہ مکرّمہ اور اس کے گردو نواح میں سب سے محبوب و شفیق اگر کوئی شخصیت تھی، تو وہ قبیلۂ قریش کے صادق و امین، دانا و حکیم، نفیس و بلند کردار، مایہ ناز نوجوان، محمّدؐ بن عبداللہ کی تھی۔ اس کے باوجود آپؐ نے نہایت حکمت و دانش مندی کے ساتھ تبلیغِ دین کے کام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اپنے چند بہت قریبی احباب کو دینِ حق کی دعوت دی۔ چناں چہ پہلے ہی دن آپؐ کی غم گسار رفیقۂ حیات امّ المومنین، سیّدہ خدیجۃ الکبریٰؓ، رفیقِ خاص حضرت ابوبکرصدیقؓ، نو عُمر سیّدنا علی مرتضیٰؓ اور خادمِ خاص سیّدنا زید بن حارثہ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ 

سیّدنا ابوبکر صدیقؓ مکّے کے ممتاز دولت مند اور فیاض تاجروں میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور اہلِ قریش میں ہردل عزیز اور مقبول تھے۔ انہوں نے نہایت رازداری کے ساتھ اپنے احباب میں دعوتِ دین کا کام شروع کردیا، جس کے خاطرخواہ اثرات ہوئے اور چالیس سے زیادہ احباب نے اسلام قبول کرلیا۔ ابتدائی خفیہ دُور کے یہ احباب سابقینِ اوّلین کہلائے۔ (سیرت ابن ہشام 1/252)۔ دعوتِ اسلامی کا کام سینہ بہ سینہ ایک دوسرے میں منتقل ہورہا تھا۔ اصحابؓ کی تعداد بڑھتی چلی جارہی تھی، جس کے پیشِ نظر ایک صحابی حضرت ارقمؓ بن ابی ارقم نے کوہِ صفا کے دامن میں واقع اپنا مکان دینی کاموں کے لیے وقف کردیا۔

دعوتِ عام: تین سال کے ابتدائی خفیہ دَور میں تربیت کے مراحل سے گزر کر جاں نثاران کی ایک جماعت کفر و باطل کے بُت کدوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرنے کے لیے تیار تھی کہ ایک دن حکمِ الٰہی نازل ہوگیا۔ ترجمہ، ’’(اے نبیؐ!) آپ اپنے نزدیک ترین قرابت داروں کو (عذابِ الٰہی سے)ڈرایئے۔ (سورئہ شعرا آیت 214)۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے بعد آپ ؐنے بنی فہر، بنی عدی سمیت قریش کے مختلف قبیلوں کو بلایا۔ (صحیح بخاری 3525/3526)۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے خاندان کے افراد کو کھانے پر مدعو کیا۔ 

اس مجلسِ ضیافت میں تمام چچائوں سمیت 45؍قرابت دار شریک تھے۔ کھانے کے بعد جب آپؐ نے دعوت دی، تو چچا ابولہب سخت چراغ پا ہوگیا۔ غصّے کے عالم میں اس کی تلخ گفتگو سے پوری محفل میں سکوت طاری ہوگیا۔ اس موقعے پر بارہ سال کے نو عُمر حضرت علی مرتضیٰؓ کھڑے ہوئے اور اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ 

حضرت علیؓ کی بات سن کر ابو لہب مزید طیش میں آگیا، لیکن اس مرتبہ جناب ابوطالب کو ابولہب کی اشتعال انگیزی پسند نہ آئی، چناں چہ انہوں نے نہایت بلند آواز میں کہا۔ ’’خدا کی قسم! جب تک جان میں جان ہے، ہم ان کی حفاظت کرتے رہیں گے۔‘‘ پھر مزید کہا۔ ’’بھتیجے! تمہیں جس کام کا حکم ملا ہے، تم اُسے پایہ تکمیل تک پہنچائو اور میں تمہاری حمایت و حفاظت کرتا رہوں گا۔ (تاریخِ طبری1/89)۔ (جاری ہے)