• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف سارا سندھ سوائے چند شہروں کے برساتی اور سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور دوسری طرف ایک سیاسی پارٹی کے رہنما ملک بھر میں لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔

 اطلاعات کے مطابق اس تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں نصف سندھ کے لوگ اپنے گھروں سے باہر میدانوں یا جھونپڑیوں یا ایک بڑی تعداد کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک رپورٹ آئی تھی کہ صوبہ سندھ کے 23 اضلاع میں سے فقط 4 اضلاع میں سے اب تک پانی نکالا جاسکا ہےجب کہ باقی اضلاع بدستور سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اوروہاں سرِدست کشتیاں چل رہی ہیں۔

 26 ستمبر کو سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک بیان میں کہا کہ دادو اور جامشورو اضلاع کی زمینیں مکمل طور پر سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں جب کہ دیگر اضلاع میں 85 فیصد اراضی پر پانی کھڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قمبراور شہداد کوٹ ضلع میں 85 فیصد‘ خیرپور میں 72 فیصد‘ نواب شاہ اور سکھر میں 64 فیصد اور لاڑکانہ ضلع میں 66 فی صداراضی پر ابھی تک پانی کھڑا ہے‘ سندھ کے محکمۂ زراعت کی طرف سے جاری کی گئی .

رپورٹس کے مطابق بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے سندھ کے کسانوں اور آبادکاروں کو اب تک اندازاً 344 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔

 ان رپورٹس کے مطابق صوبہ بھر میں 9 سے زیادہ فصلیں تباہ ہوچکی ہیں جن میں تقریباً 205 ارب روپے مالیت کی کپاس‘ 18 ارب 34 کروڑ روپے مالیت کی کھجوریں‘ 17 ارب 97 کروڑ روپے مالیت کا گنا‘ 5 ارب 45 کروڑ روپے مالیت کی دھان کی فصل‘ 3 ارب 93 کروڑ روپے مالیت کی سبزیاں‘ 11 ارب 75 کروڑ روپے مالیت کی ٹماٹر کی فصل اور سوا 5 ارب روپے مالیت کی مرچ کی فصل تباہ ہوچکی ہے۔ دیگر رپورٹس کے مطابق سیلاب اور بارش کی وجہ سے سندھ بھر میں گندم کی تین لاکھ بوریاں ضائع ہوچکی ہیں ۔

 سندھ کے وسیع علاقوں میں چوں کہ ابھی تک پانی کھڑا ہے لہٰذا ربیع میں فصلیں اُگنے کے امکانات بہت کم ہیں۔

حالیہ سیلابی صورتحال کی وجہ سے کئی دنوں تک کراچی سے پشاور جانے والی ٹرینیں بھی نہ چلائی جا سکیں کیوں کہ ریلوے لائن اور اکثر ریلوے اسٹیشن بھی سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

اب 2 اکتوبر سے کراچی اور پشاور کے درمیان ٹرین سروس دوبارہ شروع کی گئی ہے‘ حکومت کی طرف سے 17 ستمبر کو ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھیلنے کی وجہ سے صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ ایک دن کے اندر 32 افراد فوت ہوگئےجب کہ صوبے بھر میں بیماریاں پھیلنے کی وجہ سے 678 لوگ جاں بحق ہوگئے۔

 علاوہ ازیں، سیلابی صورتحال کے دوران مختلف حادثات میں 8412 لوگ زخمی ہوچکے ہیں ۔

ایک تخمینے کے مطابق بارش اور سیلاب کے دوران ایک دن میں اوسطاً ایک لاکھ 40 ہزار گھر تباہ ہوئے جب کہ سیلاب کے دوران ہلاک ہونے والے جانوروں کی تعداد 2 لاکھ 8 ہزار 569 بتائی جارہی ہے۔

یہ فی الحال ابتدائی رپورٹ ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت سندھ کی کیا صورتحال ہے‘ سندھ تقریباً قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے اس صورتحال کا بین الاقوامی طور پر یقیناً نوٹس لیا گیا‘ .

مختلف ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے نمائندے پاکستان کے دورے پر آئے اور ملک کے متاثرہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور سب کی متفقہ طور پر یہ رائے تھی کہ نقصان تو سارے ملک میں ہوا ہے مگر سب سے زیادہ انسانی اور مالی نقصان سندھ میں ہوا ہے۔

 اس سلسلے میں خاص طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گرتیرس کے سندھ کے دورے کا ذکر کروں گا۔

یو این او کے سیکرٹری جنرل نے سیلاب زدہ علاقوں کے دوروں کے دوران اور بعد میں اخبارات کے نمائندوں سے بات چیت کرتےہوئے ساری دنیا کے ملکوں اور اداروں سے اپیل کی کہ وہ پاکستان اور خاص طور پر سندھ کے سیلاب زدہ لوگوں اور علاقے کے لئے فوری امداد دیں۔ انہوں نے یو این او کی طرف سے بھی امداد کا اعلان کیا۔

 ان دوروں میں وزیر اعظم شہباز شریف بھی ان کےساتھ تھے‘ وزیر اعظم شہباز شریف نے جہاں پاکستان بھر کے سیلاب زدہ علاقوں کی مدد کرنے کا اعلان کیا وہاں سندھ میں سیلاب سے ہونے والے نقصان کا خاص طور پر ذکر کیا۔

ایک طرف بین الاقوامی شخصیات اور وزیر اعظم اس قسم کے تاثرات کا اظہار کرتے رہے تودوسری طرف سندھ کے لوگ سوال کررہے ہیں کہ ملک کا ایک ایسا سیاستدان جو خود کو پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی رہنما منوانے پر بضد ہے، اس کااس صورتِ حال میں ردعمل کیا رہا‘ کیا وہ چند منٹوں کیلئے بھی سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میںسے کسی ایک کے بھی دورے پر گیا؟

 کیا اس سلسلے میں اس نے اپنے کارکنوں کو ہدایت دی کہ سندھ جائیں اور سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کی امداد کریں؟ انہوں نے یہ تو نہیں کیا البتہ یہ اعلان ضرور کیا کہ وہ ایک ہفتے میں ملک میں لانگ مارچ کی قیادت کریں گے‘.

 ان کی یہ ’’انسانی توپیں سندھ سے گزرتے وقت فوت ہونے والوں اور زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا لوگوں کی لاشوں پر لانگ مارچ کرکے اسلام آباد پر اپنا پرچم لہرائیں گے؟ میں فی الحال 29ستمبر کو اس جماعت کے ایک اہم رہنما اسد قیصر کے اس بیان پر اپنا یہ کالم ختم کررہا ہوں جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ایک ہفتے میں لانگ مارچ کریں گے اور ساری گولیوں کا استعمال کریں گے‘‘۔یہ گولیاں کس پر استعمال ہوں گی؟اس کا جواب دینا فی الحال ممکن نہیں۔

تازہ ترین