• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کا’’ لانگ مارچ‘‘ اور نواز شریف کی ’’واپسی‘‘

’’بازارسیاست‘‘ میں تین مقبول ترین موضوعات زیر بحث ہیں۔ ایک عمران خان کا’’ لانگ مارچ‘‘ دوسرا نواز شریف کی وطن ’’واپسی‘‘ اور تیسرا نئے آرمی چیف کی ’’تقرری‘‘۔ ہر سیاسی و غیر سیاسی محفل کا موضوع گفتگو یہی تین امور ہیں ہر کوئی قیاس کےگھوڑے دوڑاتاپھرتا ہے لیکن بغیر کسی نتیجے کے محفل برخواست ہو جاتی ہے۔ عمران خان پچھلے 6ماہ سے اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکیاں دے رہے ہیں ،پی ٹی آئی کی سوشل میڈیاٹیم نے ہر پلیٹ فارم پر طوفان بد تمیزی برپا کر رکھا ہے بس عمران خان کی کال دینے کا انتظار ہے،اسلام آباد میں سب کچھ الٹ پلٹ ہو جائے گا 27کلومیٹر کے دار الحکومت کا ’’محافظ ‘‘ رانا ثنا اللہ مورچے میں شست باند ھ کر بیٹھا ہے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے کنٹینر اکھٹے کر رہا ہے۔تاحال عمران خان نے ادھر کا رخ نہیں کیا ۔وہ 25مئی2022کی اسلام آباد کی کال کی ناکامی کے بعد ایک ہفتے میں آنے کی دھمکی دے کر گئےاور تاحال واپس نہیں آئے، البتہ وہ اس دوران جلسوں سے خطاب کے دوران اسلام آباد کی کال دینے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک اعلان نہیں کیا ،کبھی وہ اگست کی بات کرتے ہیں کبھی ستمبر کی اب انہوں نے کہہ دیا ہےکہ اکتوبر میں حتمی کال دوں گا ۔ وہ شہر شہر جلسوں سے خطاب کرنے کے بعد پارٹی کارکنوں کے اجتماعات میں’’حقیقی آزادی‘‘ کے ’’جہاد ‘‘ میں حصہ لینے کے حلف رہے ہیں اگر ان کی جانب سے کارکنوں سے حلف لینے کی تقریبات کو دیکھیں تووہ ’’لانگ مارچ‘‘ کرنے کیلئے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں لیکن سیاسی مارکیٹ میں کہا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان مارچ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پھردھمکیاں دینے کی بجائے تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟ جہاں تک میری ذاتی رائے ہے عمران خا ن دن کے اجالے میں دھمکیاں دیتے ہیں رات کو ’’طاقت ور ‘‘ لوگوں سے مذاکرات کرکے این آراو لینے کیلئے مذاکرات کی میز سجا لیتے ہیں اس سلسلے میں ایوانِ صدر میں ان کی جنرل باجوہ سے ون آن ون ملاقات کی بڑی دھوم ہےجو بے نتیجہ رہی جس کے بعد عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں،انہوں نے اچانک یو ٹرن لیا اور سائفر کی تحقیقات کرنے کی شرط پر پارلیمان میں واپس آنے کا عندیہ دے دیا لیکن حکومت کی طرف سے ان کی اس پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہ آیا۔ یارلوگوں نے ان کی ’’سائفر‘‘ بارے میں دو آڈیوز لیک کر دیں جن سے ان کے امریکہ مخالف بیانیے کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔16اکتوبر کو پی ٹی آئی کے ارکان کی خالی کی گئی آٹھ نشستوں پر ضمنی انتخاب رُکوانے کیلئے پی ٹی آئی کے ارکان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے ،یہ وہی ارکان ہیں جنہوں نے سپیکر کی طلبی پر اپنی اعلیٰ قیادت کی ہدایت پر استعفوں کی تصدیق کرانے سے انکار کر دیا تھا،اب جبکہ ضمنی انتخابات کے انعقاد میں چند روز رہ گئے ہیں پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان نےضمنی انتخابات رُکوانے کے لئے اسلام ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے ! یہ بات قابل ذکر ہےکہ خالی ہونے والی تمام نشستوںپر ’’کپتان‘‘ اس خدشے کے پیشِ نظر انتخاب لڑ رہے ہیں کہ کسی حلقے میں پی ڈی ایم کوئی نشست نہ لے جائے لیکن اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پی ٹی آئی ضمنی انتخابات میں سو فیصد نتائج حاصل نہ ہونے کے خدشے کے پیش نظر انتخابات سے راہِ فرار اختیار کر رہی ہے۔ ممکن ہے جب تک یہ سطور شائع ہوں اس وقت تک ’’کپتان ‘‘ بھی اپنی ’’پٹاری ‘‘ سے لانگ مارچ کا ’’سانپ‘‘ نکال چکے ہوں ،جو ان کے پاس آخری حربہ ہے واقفانِ راز کا کہنا ہےکہ اصل صورت حال مختلف ہے، دونوں اطراف کی بی ٹیم اپنی قیادت کوخوش کرنے کے لئے طبل جنگ بجا رہی ہے بہر حال رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو کہہ دیا ہے’’ ہم نے تو تیاری کرلی ہے آپ بھی تیاری کریں‘‘ ۔

سینیٹراسحٰق ڈار کی وطن واپسی اور مریم نواز کی بریت اور لندن روانگی کے بعد ہر سیاسی و غیر سیاسی محفل کا موضوع گفتگو نوازشریف کی واپسی ہے مریم نواز پاسپورٹ ملنے کے اگلے روز ہی لندن چلی گئیں ان کی ’’لندن یاترا‘‘کو نواز شریف کی واپسی سے منسلک کیا جا رہا ہے۔لندن میں مسلم لیگی ذرائع نے بتایا ہے کہ نواز شریف عام انتخابات کے انعقاد سے کچھ روز قبل پاکستان آکر پارٹی کی قیادت کریں گے اور ان کی قیادت میں انتخابی معرکہ سر کیا جائے گا اس کے لئے انہیں ’’ لیول پلئنگ فیلڈ ‘‘ فراہم کی جائے گی۔ عمران خان سرِ دست گلیوںمیں تنہا دندناتے پھررہے،اگرچہ عمران خان کے سر پر نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہےتاہم وہ اگرنا اہلی سے بچ گئے تو پھر یقیناً نواز شریف کو ان کا مقابلہ کرنے کے برابر کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ اس لئے فی الحال نواز شریف کی فوری واپسی کا کوئی امکان نہیں ۔دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی کہہ دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل62 کی شق ایف ون کالا قانون ہے ،چناں چہ تاحیات نا اہلی کا قانون ختم ہونے والا ہے اس طرح نواز شریف ،جہانگیر ترین اور دیگر تاحیات نا اہل قرا دئیے گئے ارکان پارلیمنٹ کو ریلیف ملنے کا امکان ہے اور نواز شریف کی بریت کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میںپیش کی جانے والی ہے۔

پاکستان میں نومبر کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اکثر و بیشتر اعلیٰ فوجی افسروں کی ریٹائرمنٹ اورنئی تقرریوں کا مہینہ ہےلیکن پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے اسے ایک ایشو بنا دیا ہے،اپنی پسند و ناپسند کا اظہار کر کے آرمی چیف کے عہدے کو متنازعہ بنانے کی شعوری کوشش کی ہے، آرمی چیف جنرل قمرباجوہ نےواشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ میں اپنے اعزاز میں دی جانے والی ضیافت میں ایک بار پھر اپنی دوسری تین سالہ مدتِ ملازمت مکمل ہونے کے بعد ریٹائر ہونے کا عندیہ دیا ۔اس کے بعد ان کی ذات کے حوالے سے کی جانے والی قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم ہو جانا چاہئے۔ جنرل باجوہ نے کہہ دیا ہے کہ’’ فوج خود کو سیاست سے دور کر چکی ہے اور دورہی رہنا چاہتی ہے‘‘۔ خان صاحب بہت ہو گئی، خدا را فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔

تازہ ترین