• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

آج سے کوئی پچاس سال پہلے مَیں اپنے قصبے کے اکلوتے ہائی اسکول میں ٹیچر تھا۔ وہاں حافظ عبیدالرحمٰن نامی ایک بچّہ بھی ساتویں جماعت میں زیرِتعلیم تھا۔ میں اُس کی پُروقار، سنجیدہ شخصیت سے بہت متاثر تھا۔ وہ ہماری جامع مسجد کے مدرسے میں رہتا تھا۔ اُس کی علم سے محنت و لگن کی وجہ سے مَیں اُس کی ضروریات کا بھرپور خیال رکھنے کے ساتھ اُسے گھر پر انگریزی گرامر بھی پڑھانے لگا تھا۔ اُس کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ لودھراں کا رہنے والا ہے، اُس کے والد کو جائیداد کے تنازعے میں قتل کردیا گیا، تو ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی جان بچانے کے لیے یہاں بھیج دیا۔ 

دوسرے طلبہ کے برعکس اس کا رویّہ انتہائی شائستہ اورمؤدبانہ تھا۔ پھر اُس نے اچانک ہی اسکول آنا چھوڑ دیا۔ مَیں نے کھوج لگائی تومعلوم ہوا کہ عُمر کچھ زیادہ ہونےکی وجہ سے اس نے اسکالر شپ لے کر میٹرک کا امتحان پاس کرلیا ہے۔ پھر اس نے قصبے ہی میں ’’حافظ کتاب گھر‘‘ کھول کر قصبے کے غریب طلبہ کی مدد اور حوصلہ افزائی شروع کردی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اُس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آگئے۔ 

وہ مختلف گھروں میں بچّوں کو قرآن شریف پڑھانے بھی جاتا اور جن گھروں میں قرآن پاک پڑھانے جاتا، وہ اس کی طلسماتی شخصیت سے اتنا متاثر ہوتے کہ پھر اُسے کسی صورت واپس نہ جانے دیتے۔ ایک بار وہ مجھ سے کہنے لگا کہ’’آپ میرے ساتھ حج پر چلیں۔‘‘ مَیں نے انکار کیا، تو رونے لگا کہ ’’دوسروں کی طرح آپ بھی مجھ پر شک کرتے ہیں۔‘‘ بہرحال، مَیں نے یہ کہہ کر اُسے مطمئن کردیا کہ ’’حج تو اپنے وسائل سےکیا جاتا ہے، اللہ جب توفیق دے گا، تو خود اپنے وسائل سے کروں گا۔‘‘

پھر وہ اکثر مجھے قیمتی تحفے تحائف لاکر دینے لگا، لیکن میں بڑی تہذیب سے واپس کردیتا۔ ایک روز وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا، ’’مجھے ضلعے کے سب سے بڑے کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ مل گیا ہے، لیکن میں آپ سے ہمیشہ رابطہ رکھوں گا۔‘‘ پھر کافی عرصے تک اُس سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ ایک روز پتا چلا کہ اس نے ضلعے کے پہلے فور اسٹار ہوٹل کا افتتاح کیا ہے۔ بہرحال، دن یوں ہی گزرتے چلے گئے۔ اس دوران گاہے بگاہے اُس سے فون پر رابطہ رہا۔ ایک روز مَیں اپنے ایک عزیز کی عیادت کے لیے سی ایم ایچ اسپتال جارہا تھا، جیسے ہی بس اسٹینڈ سے اُترا تو وہ سامنے فوجی وردی میں ملبوس کھڑا نظر آیا۔ 

میں نے حیرت سے دریافت کیا، تو مسکرا کر بولا ’’سر! دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔‘‘ پھر وہ مجھے اسپتال کے اندر لے گیا، جہاں اُسے خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔ واپسی میں وہ مجھے اپنے سرکاری بنگلے پر لے گیا۔ جہاں مَیں نے فوجی وردی میں اُس کے بہت سے گروپ فوٹوز بھی دیکھے۔ مَیں نے پوچھا ’’فوج میں کب گئے؟‘‘ تو مختصراً جواب دیا،’’سر! ایف ایس سی کے بعد۔‘‘ مجھے چوں کہ جلدی گھر پہنچنا تھا، تو وہ مجھے بڑے ہی احترام سے بس اسٹینڈ تک چھوڑنے آیا۔ پھر کافی عرصے تک اس سے رابطہ منقطع رہا۔

اِسی طرح وقت گزرتا چلا گیا۔ اس دوران میرا چھوٹا بھائی آرمرڈ کور میں بھرتی ہوگیا۔ پھر ہم نے اُس کی شادی کردی، لیکن شادی کے بعد وہ واپس جانے کی بجائے فوج سے مفرور ہوکر کراچی چلاگیا۔ اس کی نوبیاہتا بیوی سخت آزردہ رہنے لگی، تو میں نے بڑی مشکل سے اُسے قائل کیا کہ وہ دوبارہ فوج جوائن کرلے۔ میرے سمجھانے بُجھانے پر اس نے دوبارہ کور جوائن کی، تو وہاں اسے 28دن کی سخت قید ہوگئی۔ وہ رو رو کرمجھے ڈسچارج کروانےکے لیے خط لکھتا۔ دوسری طرف مجھ سے اپنے بوڑھے والدین کا رونا بھی نہیں دیکھا جاتا تھا۔ بیٹے کی جدائی میں اُن کے آنسو کسی صُورت نہیں تھمتے تھے کہ اچانک ایک روز ظہر کے بعد میرا وہی شاگردخلافِ توقع گھر آگیا۔ 

مَیں اُسے اپنی موجودہ ناگفتہ بہ صورتِ حال بتانا چاہتا تھا، لیکن اس نے میری باٹ کاٹتے ہوئے کہا ’’سر! مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے، پہلے کھانا کھلائیں۔‘‘ گھر میں جو کچھ رکھا تھا، مَیں نے اس کے سامنے رکھ دیا، وہ سب چَٹ کرگیا۔ کھانا کھانے کے بعد کہنے لگا کہ ’’ایک عرصے بعد استادِ محترم کے گھر کا کھانا نصیب ہوا ہے۔‘‘ پھر خود ہی گویا ہوا کہ ’’مَیں فلاں گائوں سے اپنے ایک معتقد آرمرڈ کور کےکمانڈنگ آفیسر سے مل کر آرہا ہوں۔ 

وہ کہہ رہے تھے کہ فلاں قصبے سے بوڑھے والدین کی طرف سے اپنے بیٹے کو ڈسچارج کروانے کی کئی درخواستیں آئی ہیں۔‘‘ مَیں ہکّا بکّا رہ گیا اوراُسے بتایا کہ وہ میرا چھوٹا بھائی ہے، تم فوراً اس کے ڈسچارج کے لیے کچھ کرو، تو تسلّی دے کر چلا گیا۔ چند دنوں کے بعد میرا بھائی ڈسچارج ہوکر گھر آگیا۔

اس کے بعد سے حافظ عبیدالرحمٰن کے بارے میں میرا شک یقین میں بدل گیا کہ وہ کوئی انسان نہیں، بلکہ انسانی رُوپ میں ایک فرشتہ ہے۔ لیکن.....وہ دن اور آج کا دن، پھر کبھی مجھے اُس فرشتے کی کوئی خیرخبر کہیں نہیں ملی۔ (غلام محمد خان، سوڈے والی کالونی، ملتان روڈ، لاہور)