• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راہِ حق میں حائل کوہِ گراں: وہ مکّہ مکرّمہ کی ایک پُرنور صبح تھی کہ جب کوہِ صفا سے بلند ہوتی صدائے حق نے پتھر کے بے جان بُتوں کی حقیقت بے نقاب کرکے کفر و شرک کے خرافات و اباطیل کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔ یہ اعلانِ حق اہالیانِ مکّہ کے اعصاب پر بجلی بن کر گرا۔ جو شخص کل تک صادق و امین اور مکارمِ اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھا، وہ اب دشمنوں کی فہرست میں صفِ اوّل پر تھا۔ کیا اپنے، کیا پرائے، کیا دوست، کیا احباب سب خون کے پیاسے ہوگئے۔ شروع میں پُرکشش مراعات، قبیلوں کی سرداری، جاہ و منصب اور مال و دولت کا لالچ دیا گیا، لیکن جب پائے استقامت میں ذرّہ برابر بھی جنبش نہ ہوئی، تو ظلم و استبداد، استہزاء و تحقیر، دشنام طرازی، غنڈہ گردی اور تشدد کے حربے استعمال کیے گئے۔ 

جب صورتِ حال ناقابلِ برداشت ہوگئی، تو آنحضرتؐ نے اپنے صحابہؓ کو ملکِ حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی۔ گزرتے وقت کے ساتھ کفار مکّہ نے آپؐ کے قبیلے بنو ہاشم اور بنو مطّلب پر دبائو مزید بڑھادیا۔ یہاں تک کہ کفار نے ان کا اقتصادی و سماجی بائیکاٹ کر ڈالا۔ جناب ابو طالب نہایت مجبور ہوکر بنو ہاشم اور بنو مطّلب کو شعب ابی طالب میں لے گئے، جہاں یہ دونوں قبیلے تین سال تک محصور رہے۔ اس بائیکاٹ کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، ان کے اہلِ خانہ اور قبیلے والے جن سخت ترین، سنگین حالات سے گزرے، اُن کے تصوّر سے بھی انسان لرز اٹھتا ہے۔ ان محصورین کو کھانا میسّر تھا، نہ پانی۔ بھوک مٹانے کے لیے درختوں کے پتّے چبانے پر مجبور تھے، سوکھے چمڑے کے ٹکڑے، درختوں کی چھال اور جڑوں کو ابال کر اور بھون کر پیٹ بھرا جاتا۔

حضوراکرمؐ اور صحابہ کرامؓ پیٹ پر پتھر باندھ لیتے۔ تین سال کے اس بائیکاٹ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ وہ خود بائیکاٹ ختم کرنے پر مجبور ہوگئے، لیکن اس اذیت ناک اسیری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو عزیز ترین ہستیوں کی صحت پر بُرے اثرات مرتّب کیے۔ واپس آنے کے چھے ماہ بعد جناب ابو طالب 80؍سال کی عُمر میں وفات پاگئے۔ جناب ابو طالب نے پوری زندگی جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا، وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے رقم ہے۔ ابو طالب کی وفات کے فوری بعد آپؐ کی مونس و غم گسار، رفیقۂ حیات حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ بھی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوگئیں۔ حضرت خدیجہؓ نے 10نبوی رمضان المبارک میں وفات پائی۔ اُس وقت ان کی عمر 65؍برس اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عُمر مبارکہ 50؍برس تھی۔ ان دو اہم شخصیات کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی مخالفت کا طوفان مزید شدّت اختیار کرگیا۔ مشرکین زیادہ نڈر ہوکر اذیّتیں اور تکالیف پہنچانے لگے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ یعنی غم کا سال کہا۔ (سیرت النبیؐ، علامہ شبلی نعمانی159/1)

مکّہ مکرّمہ سے باہر دعوتِ دین

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اس بنجر سرزمین پر فی الحال اسلام کی مزید آب یاری ممکن نہیں۔ اللہ نے مشرکین مکّہ کے دلوں پر مُہر ثبت کردی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ۔ ’’(اے محمّدؐ!) یہ لوگ جو کافر ہیں، انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو، اُن کے لیے برابر ہے۔ یہ ایمان لانے والے نہیں۔ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا رکھی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور اُن کے لیے بڑا عذاب تیار ہے۔ (سورۃالبقرہ، آیت6,7) چناں چہ آپؐ نے مکّے سے باہر طائف شہر میں دعوتِ دین کا فیصلہ کیا۔ طائف، مکّہ مکرّمہ سے 88؍کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پُرفضا مقام ہے۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے ایک ماہ بعد 10؍نبوی، شوال کے مہینے میں آپؐ، حضرت زیدؓ بن حارثہ کے ساتھ پیدل طائف تشریف لے گئے۔ 

راستے میں قبیلہ بنی بکر سے ملاقات کی، لیکن وہ مکّہ والوں کے ہم خیال تھے۔ وہاں سے قومِ قحطان کے پاس گئے، وہ بھی دشمنوں کے دوست نکلے۔ پھر طائف میں داخل ہوکر اہلِ طائف کو اسلام کی دعوت دی، تو انہوں نے نہ صرف دعوت سے انکار کیا، بلکہ شہر کے اوباش اور بدمعاش لڑکوں کو آپؐ کے پیچھے لگادیا۔ وہ لوگ آپؐ پرپتھر پھینکتے، برابھلا کہتے۔ اُن کے اس ظالمانہ سلوک کی وجہ سے آپؐ اور زید بن حارثہؓ زخمی ہوگئے۔ 

زیدؓ آپ ؐ کو طائف سے باہر لے آئے۔ آپؐ کے جوتے خون سے بھر چکے تھے۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ اس موقعے پر ایک فرشتہ آپؐ کے پاس آیا اور کہا، ’’اگر آپ ؐ حکم دیں، تو مَیں ان دونوں پہاڑوں کو ملا کر انہیں کچل ڈالوں؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا، جو ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث3231)۔ جس کے بعد آپؐ مکّہ مکرّمہ واپس تشریف لے آئے۔

معجزئہ شق القمر: ہجرتِ مدینہ سے پانچ سال پہلے آپؐ منیٰ میں تشریف فرما تھے کہ قریش کے ایک وفد نے نبوّت کی کوئی نشانی دکھانے کا مطالبہ کیا۔ وہ قمری مہینے کی چودہویں شب تھی۔ آپؐ نے نظر اٹھا کر انگلی سے چاند کی جانب اشارہ کیا۔ اچانک چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ یہاں تک کہ ان کے بیچ میں جبلِ حرا آگیا اور یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے۔ (صحیح بخاری، حدیث386, 386)

معراجِ نبویؐ: بارہ سال کے طویل عرصے میں دینِ حق کے سرفروش، ظلم و تشدّد اور غم و الَم کے جس دل خراش دَور سے گزرے، اس نے پوری انسانیت کو تڑپا کے رکھ دیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا، ’’اے نبی! اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑ دو، ہم نے اُن کے دلوں پر مُہر لگادی ہے۔‘‘ اور یہی وہ وقت تھا کہ جب ربِ کعبہ نے دین کے کام کو یہود و نصاریٰ سمیت دوسری قوموں تک پھیلانے کا فیصلہ کیا اور ہجرتِ مدینہ کی نوید سُنادی، لیکن مکّہ مکرّمہ کو الوداع کہنے سے پہلے معبودِ برحق نے اپنے محبوبؐ کو دربارِ الٰہی میں یاد فرما کر قُربِ الٰہی سے سرفراز کیا۔ براہِ راست گفتگو فرما کر ہدایاتِ خاص سے نوازا، پھر ان تمام نشانات و انعامات، جزا و سزا کے مقامات کا مشاہدہ کروایا، جن کا وعدہ ’’سورئہ اسراء‘‘ میں کیا تھا۔

ترجمہ: ’’تاکہ ہم آپ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔‘‘ صحیح بخاری میں بیان کی گئی احادیث کے مطابق، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک شب، بعد نمازِ عشاء حرمِ کعبہ میں آرام فرما تھے۔ (بعض روایات کے مطابق اپنی چچازاد بہن اُمّ ہانیؓ کے گھر میں سورہےتھے) کہ اچانک حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر جگایا، سینہ چاک کرکے زم زم کے پانی سے دھونے کے بعد اسے ایمان و یقین اور علم و دانائی سے بھر دیا، پھر آپؐ کو براق پر سوار کرواکے مسجدِ اقصیٰ لے گئے، جہاں آپؐ نے انبیاء کی نماز کی امامت فرمائی۔ وہاں سے آپؐ جبرائیل ِامین کے ساتھ سفرِ معراج پر روانہ ہوئے۔ ساتوں آسمانوں اور جنّت کی سیر کی۔ انبیائے کرام علیہ السلام سے ملاقاتیں کیں، ربّ العالمین سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ پچاس نمازوں کا تحفہ ملا، جو بتدریج کم ہوکر پانچ رہ گئیں، لیکن ثواب میں کمی نہیں کی۔ عبرت ناک سزائوں کے مناظر دیکھے۔

دینِ حق کی خوشبو، یثرب کی فضائوں میں: نبوّت کا گیارہواں سال تھا۔ اہلِ طائف کی بدترین بدسلوکی نے اہلِ قریش کی نفرتوں میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ مکّہ مکرّمہ کے خوف ناک ماحول اور وحشت ناک فضائوں میں اپنوں کی شدید ترین دشمنیوں کے باوجود اللہ کے نبی نسیمِ سحر کے جھونکوں سے معطر ایک صبحِ نو کے لیے پُرامید تھے۔ ماہِ ذی الحجہ شروع ہوچکا تھا۔ منیٰ کے میدان میں حاجیوں کی آمد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیت میں اضافہ کردیا تھا۔ ایک رات آپؐ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے ساتھ منیٰ میں عقبہ کی گھاٹی کے پاس سے گزر رہے تھے کہ یثرب کے قبیلے خزرج سے تعلق رکھنے والے چھے افراد ملے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دین کی دعوت دی، چناں چہ وہ مسلمان ہوگئے۔ پھر انھوں نے یثرب واپس جاکر اسلام کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانا شروع کردیا۔ (تاریخِ اسلام، اکبر شاہ نجیب آبادی113/1)

بیعتِ عقبہ اوّل و ثانی: اگلے سال یعنی ذی الحجہ 12؍نبوی مطابق جولائی 621؍ عیسوی بارہ افراد یثرب سے حج کی ادائی کے لیے مکّہ مکرّمہ آئے اور منیٰ میں عقبہ کے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد آپؐ کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ نبوت کے تیرہویں سال مطابق 622؍عیسوی ایّامِ حج میں2خواتین سمیت 72؍ افراد مکّہ مکرّمہ آئے۔ 12؍ذوالحج کو وادئ منیٰ میں عقبہ کی گھاٹی کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بیعت لی اور اس کے عوض انھیں جنّت کی بشارت دی۔ (مسندِ احمد)

ہجرتِ مدینہ: مکّہ مکرّمہ کے مشرکین کا قہر و غضب اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ ظلم و ستم کے تیر، جوروجفا کے پتّھر، طعن و تشنیع کے انگارے، نفرت اور آگ کے شعلے، شقاوت و سنگ دلی کے نشتر، غرض عقوبتوں کی میان میں رکھا وہ کون سا ہتھیار تھا، جو نہتّے اہلِ ایمان پر آزمایا نہ گیا ہو، لیکن اب ظلم و ستم کی تمام حدیں پار اورناقابلِ برداشت ہوچکی تھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا احتمال تھا کہ کہیں ان سرفروشانِ اسلام کے صبر کا پیمانہ چھلک نہ جائے، لہٰذا آپؐ نے انہیں یثرب جانے کی اجازت دے دی، لیکن تاریک راتوں میں دشمنوں سے چُھپ کر، اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر، اپنے پیاروں کو تڑپتا بلکتا چھوڑ کر، بے سروسامانی کی حالت میں، خالی ہاتھ، پُرنم آنکھوں اور اُداس دل کے ساتھ اجنبی راہوں کی جانب ہجرت اتنی آسان تو نہ تھی۔ کفّار قدم قدم پر موجود تھے۔ جنہیں روک سکتے تھے، انہیں روکا۔ جنہیں مارپیٹ سکتے تھے، انہیں اَدھ مُوا کر ڈالا۔ جنہیں قتل کرسکتے تھے، قتل کر ڈالا اور جن کے گھر لُوٹ سکتے تھے، اُن کے گھر لُوٹ لیے، لیکن ان سب رکاوٹوں کے باوجود حق کا قافلہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا۔

اللہ کے رسولؐ ،غارِ ثور میں: بیعت عقبہ ثانی کے تقریباً ڈھائی ماہ بعد 26؍صفر 14؍نبوی بمطابق 12؍ستمبر 622؍عیسوی کی ایک اُداس اور تاریک رات تھی کہ جب قریش کے جنگجو سردار شمشیر برہنہ لیے اللہ کے نبیؐ کے گھر کا گھیرائو کیے ہوئے تھے۔ اللہ کے نبیؐ اُن سب کی موجودگی میں اپنے گھر سے نکلے، سب کی بینائی سلب ہوچکی تھی۔ آپؐ نے حضرت صدیق اکبرؓ کو ساتھ لیا اور جبلِ ثور پر رونق افروز ہوئے۔ ہزارہا برس سے بے نامی میں رہنے والا پتھر کا یہ پہاڑ اُس روز اپنی قسمت پر نازاں تھا۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے یارِغار کے ساتھ غار ِثور میں تشریف لے گئے۔ آپؐ نے وہاں تین دن قیام فرمایا۔ دوشنبہ کی رات ربیع الاول یکم ہجری بمطابق 16؍ستمبر 622؍عیسوی کو چاند رات تھی کہ جب آپؐ نے مدینہ منورہ کی جانب روانگی کا فیصلہ فرمایا۔ صحرائی اور پہاڑی راستوں سے واقف عبداللہ بن اریقط طے شدہ پروگرام کے تحت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی دو اونٹنیاں لے کر حاضر ہوگئے تھے۔ (الرحیق المختوم، صفحہ232)

الوداع! اے شہرِ مکّہ: اللہ کے نبیؐ غارِ ثور سے باہر تشریف لائے، اپنا رُخِ انور بیت اللہ کی جانب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اے مکّہ! خدا کی قسم تُو اللہ کی سرزمین میں سب سے بہتر اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے۔ مَیں تجھے چھوڑ کر کبھی نہ جاتا، اگر تیرے لوگوں نے مجھے نہ نکالا ہوتا۔‘‘

امام الانبیاء، خاتم النبیّین، سیّدالمرسلین، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ الفاظ ادا فرمائے ہوں گے، تو تقاضائے بشریت کے تحت چشمِ انور پُرنم ہوئی ہوگی، اشکوں کا سیلاب پلکوں کے بند توڑ کر بہنے کے لیے بے تاب ہوگا، شعور کے پردے پر یادوں کے مناظر قوسِ قزح کے رنگوں کی طرح بکھرے ہوں گے۔ کعبے کی زیارت، مکّہ مکرّمہ کے مناظر، بیت اللہ کی رونقیں، امّاں ہاجرہ علیہ السلام کا مسکن، آلِ اسماعیل علیہ السلام کا شہر، بنو جرہم کی آمد، کعبۃ اللہ کی تعمیر، سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی دُعا، ربّ ذوالجلال کا مقدّس گھر، مرکزِ حق و یقین، مقامِ رشد و ہدایت، درِ عزّت و توقیر، جائے تطہیر و تقدّس، حُرمت و تعظیم کا مستقر، تجلّیاتِ ربّانی کا مظہر، کائناتِ ارض پر اللہ کی عبادت و بندگی اور ہدایت کا اوّلین مرکز، حرمِ کعبہ کا دالان، طوافِ کعبہ کی سعادتیں، حجرِاسود کے بوسے، ملتزم کی چوکھٹ پر لپٹنا، مقامِ ابراہیم علیہ السلام پر نمازیں، حطیم کی برکتیں، غلافِ کعبہ کی خوشبو، میزابِ رحمت کا تقدّس، زم زم کا پانی، حج کے ایّام، منیٰ میں قیام، مسجد حنیف کی نمازیں، عرفات کا وقوفِ اعظم، مزدلفہ میں قیامِ لیل، جَمرات کی رَمی، صفا و مروہ کی سعی، طوافِ زیارت کا اہتمام، کعبۃ اللہ کے اوپر ابابیلوں کی نغمہ سرائی، فضائوں میں لہراتے کبوتروں کے جھنڈ..... اور پھر یادوں کے پردے پر بچپن کے مناظر بھی یقیناً سامنے آئے ہوں گے۔ 

امّاں آمنہ کی ممتا، دائی حلیمہ کی آغوش، بنو سعد کا محلّہ، برکتوں کے ڈیرے، رضاعی بہن، بھائیوں کا پیار، شقِ صدر کا منظر، یثرب کا سفر، بنو نجار میں قیام، ابواء کے صحرا میں ماں کا بچھڑ جانا، معصوم ہاتھوں سے ماں کی مرقد پر مٹّی ڈالنا، اُمّ ایمن کی تسلّیاں، مکّہ مکرّمہ کو واپسی، دادا کی شفقت، پھر دادا کی جدائی، چچا کی محبت، مکّہ کے صحرائوں میں بکریوں کا چَرانا، مکّہ کی سہانی گلیاں، جوانی کی باتیں، صادق اور امین کے القاب، تجارت کا سفر، ابَر کا سایہ، درختوں کا جُھک جانا، بصرہ کے راہب کا پہچان جانا، حضرت خدیجہؓ سے نکاح، بچّیوں کی معصوم مسکراہٹیں، سکون کے دن، امن کی راتیں، غارِ حرا کی خلوتیں، سچّے خوابوں کے مناظر، جبرئیل امین علیہ السلام کی آمد، وحی کا نزول، ورقہ بن نوفل سے ملاقات، اپنوں کی مخالفت، چچا ابو طالب کی حمایت، اہلیہ خدیجہؓ کا ایثار، قریبی ساتھیوں کا اسلام لانا، سنسان گھاٹیوں کی عبادتیں، دارارقم کی نمازیں، اہلِ قریش کی دشمنی، ابوجہل کی سفّاکیاں، ابولہب کی شقی القلبی، شعب ابی طالب کی قید، چچا ابوطالب اور غم گسار اہلیہ کی وفات، غم کا سال، قوم کی جانب سے مصائب کی یلغار، طائف کا سفر، اہلِ طائف کی سنگ باری، پہاڑوں سے فرشتے کی آمد، جنوں کا ایمان لانا، قریش کی سازشیں، قتل کی سازش، کاشانہ نبوی کا محاصرہ، علی مرتضیٰؓ کی بہادری، دشمنوں کی امانتوں کی فکر اور اب یارِ غار ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ تاریک راتوں میں دیارِغیر کا طویل سفر…! مکّہ مکرّمہ سے وابستہ 53؍ سال کی تلخ و شیریں یادوں کے مناظر کے دوران ہی صدیقِ اکبرؓ نے سرگوشی میں کہا ہوگا۔ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! سفر کے لیے زادِراہ تیار ہے۔‘‘ اور پھر اپنے محبوب شہر مکّہ معظّمہ کی جدائی کے خیال سے آنسوئوں کے مقدّس قطرے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ریش مبارک میں جذب ہوگئے ہوں گے اور آپؐ نے آہستگی سے فرمایا ہوگا۔ ’’الوداع… اے شہرِ مکّہ! الوداع…‘‘ (جاری ہے)