• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہجرت کے بعد مکّہ مکرّمہ کے حالات

مکّہ کی فضا اُداس اور غم گین تھی، رونقیں ماند پڑ چکی تھیں، گھر ویران اور محلّے سنسان ہوچکے تھے، پُرہجوم بازاروں میں اب ویرانی کا سایہ تھا، قریش کے سرداروں کے چہرے فکر و پریشانی سے سیاہ پڑچکے تھے۔ اُن کے کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اُن ہی کے خاندان سے ایک ایسا فرد اُٹھے گا، جواُن کے تین سو ساٹھ پتّھر کے بُتوں کی خدائی بے توقیر کرکے اُن کے آباء و اجداد کے خود ساختہ دین کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گا۔ وہ سخت حیران بھی تھے اور پریشان بھی کہ ابو طالب کے بھتیجے کے پاس وہ کون سا جادو ہے کہ قید و بند کی صعوبتیں، تشدّد و بربریت، قتل و غارت گری، دھونس، دھاندلی سے لے کر پیار و محبّت، دولت و ثروت، سرداری، بادشاہت غرض کہ کوئی بھی حربہ و لالچ اُن کے عزائم کو متزلزل نہ کرسکا۔ 

کفّار کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مکّہ سے سیکڑوں میل دُور ایک اجنبی وادی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے جاں نثاروں کے لیے دارالسکون بن جائے گی اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دیوانہ وار اس دارالہجرت کو کوچ کرجائیں گے۔ یثرب مسلمانوں کی اسلامی ریاست، مدینہ منورہ بن چکا تھا۔ مسلمانوں کے اس عملی اقدام نے مشرکینِ مکّہ کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون برباد کردیا تھا۔ اُن کی معیشت کا سارا دارومدار یثرب سے گزرنے والی اُس شاہ راہ پر تھا، جو یمن سے شام اور بحرِاحمر سے مصر و روم تک اُنہیں محفوظ اور پُرامن تجارتی راہ داری فراہم کرتی تھی۔ 

صرف ایک مُلک شام ہی سے تجارت کا تناسب ڈھائی لاکھ دینار سے زیادہ تھا۔ قریش کے یہ شاطر سردار، عبدالمطلب کے پوتے، ابوطالب کے صادق و امین بھتیجے کی ایمانی صلاحیتوں سے واقف تھے اور اللہ کی کتاب قرآنِ مجید کی روحانی قوّت کے بھی معترف تھے۔ یہ بھی جانتے تھے کہ قریش کے مسلمان جنگجو مسلسل تیرہ برس تک ظلم و ستم کی دہکتی بھٹّی میں رہ کر کندن بن چکے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ اگر کوئی فوری سدّباب نہ کیا، تو یثرب سے اٹھنے والی اسلامی انقلاب کی پُرجوش فوجوں کا مدّوجزر اُن کے جابر اور مشرکانہ نظامِ حکومت، جاہلانہ رسم و رواج، شاہانہ کرّوفر اور سرداری کی آڑ میں قبیلوں کی بادشاہت، عیش و عشرت، دولت و ثروت سمیت سب کچھ بہا لے جائے گا۔

مشرکینِ مکّہ کی جانب سے جنگوں کا آغاز

کفارِ مکّہ کی بقا کا دارومدار اس بات پر تھا کہ مدینے سے اسلام کا خاتمہ کردیا جائے اور یہی اب ان مشرک سرداروں کی زندگی کا مقصد تھا۔ ابھی ہجرت کو دو سال بھی نہ ہوئے تھے کہ ابوجہل بن ہشام کی قیادت میں ایک ہزار ماہر جنگجوئوں کی فوج نے اپنے ایک تجارتی قافلے کی حفاظت و معاونت کا بہانہ بناکر مدینہ منورہ کی جانب پیش قدمی شروع کردی، چناں چہ مدینے سے 130؍کلومیٹر کے فاصلے پر بدر نامی ایک صحرائی وادی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں 313؍مجاہدین نے اُن کا راستہ روکا۔ 17؍رمضان المبارک 2؍ہجری مطابق 624؍عیسوی کو ایک خوں ریز جنگ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا قبول فرماتے ہوئے مسلمانوں کو فتحِ عظیم سے نوازا۔ 

کفّارِ قریش کے 140؍مشرکین کو نقصان پہنچا۔ ابوجہل سمیت 70؍مشرک واصلِ جہنّم ہوئے۔ ابوسفیان اور ابو لہب کے علاوہ قریش کے تمام سردار قتل کردیئے گئے، جب کہ 70؍مشرکین گرفتار ہوئے۔ (صحیح بخاری۔3986)۔ 14؍صحابہ کرامؓ نے جامِ شہادت نوش کیا، جن میں 8؍انصار اور 6؍مہاجر تھے۔ (طبقاتِ ابن سعد 208/1)۔ بدر کے میدان میں قریش کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا، چناں چہ اس کا بدلہ لینے کے لیے انہوں نے اگلے سال یعنی شوال 3؍ہجری مطابق 23؍مارچ 625؍عیسوی کو تین ہزار جنگجوئوں کے ساتھ مدینے پر حملہ کردیا۔ یہ جنگ جبلِ احد کے دامن میں لڑی گئی، جس میں مسلمانوں کی تعداد صرف 700؍تھی۔

ذی قعدہ 50؍ہجری مطابق 227؍عیسوی کو کفارِ مکّہ نے ایک بار پھر ابوسفیان کی قیادت میں عرب کے تمام قبائل پر مشتمل 10؍ہزار فوجی اور بے شمار سامانِ حرب کے ساتھ مدینہ منورہ پر چڑھائی کردی۔ یہ جنگ غزوئہ احزاب کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے پر مدینے کے اطراف ساڑھے تین میل لمبی، پانچ گز چوڑی اور پانچ گز گہری بیضوی شکل میں خندق کھدوالی۔ قریشِ مکّہ نے 27؍دن تک محاصرہ رکھا اور پھر ایک دن تند و تیز آندھی سے بدحواس ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔

مشرکینِ مکّہ سے معاہدہ

غزوئہ احزاب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا۔ ’’اب قریش میں تم پر چڑھائی کرنے کا دَم نہیں رہا۔ آئندہ تم لوگ اُن پر چڑھائی کروگے۔‘‘ چناں چہ یکم ذی قعدہ 6؍ہجری کی صبح آپؐ چودہ سو صحابہ کرامؓ کے ساتھ بغرضِ عُمرہ نکلے۔ حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر آپؐ نے حضرت عثمان غنیؓ کو گفت و شنید کے لیے مکّہ مکرّمہ روانہ کیا۔ حضرت عثمانؓ کو آنے میں دیر ہوئی، تو مسلمانوں میں اُن کی شہادت کی افواہ پھیل گئی۔ اس موقعے پر آپ ؐ نے ایک درخت کے نیچے تمام صحابہ ؓ سے جاں نثاری کی بیعت لی۔ (صحیح بخاری، حدیث4171) یہ بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہوئی، جس کا ذکر اللہ نے قرآن کریم میں بھی فرمایا۔ ترجمہ: ’’اللہ، مومنین سے راضی ہوا، جب کہ وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔‘‘ (سورئہ فتح18) بیعت کی خبر سے قریش کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوا اور انہوں نے سہیل بن عمرو کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔ کام یاب مذاکرات کے نتیجے میں ایک صلح نامہ ہوا، جسے تاریخ میں ’’صلحِ حدیبیہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 

اس صلح نامے کے مطابق ’’مسلمان اس سال واپس جائیں، اگلے سال صرف تین دن کے لیے آئیں۔ میان میں رکھی ایک تلوار کے علاوہ کوئی بھی سامانِ حرب ساتھ نہ ہوگا۔ قبائل کو اختیار ہوگا کہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں معاہدے میں شریک ہوجائیں۔ مکّے سے مدینے جانے والے شخص کو واپس کردیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مسلمان مدینے سے مکّہ آجائے گا، تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی۔‘‘ اس کے بعد آنحضرتؐ نے احرام کھولنے اور قربانی کرنے کا حکم دیا۔اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح میں اس صلح کو عظیم الشّان فتح قرار دیتے ہوئے فتحِ مبین کے نام سے یاد کیا ہے۔ (بیان القرآن445/6)۔

مسلمان مکّہ مکرّمہ میں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلحِ حدیبیہ کا پورا پورا پاس و لحاظ فرمایا اور ایک سال مکمل ہونے پر ذی قعدہ 7؍ہجری کو دو ہزار صحابہ کرامؓ کے ساتھ تلبیہ کا ورد فرماتے ہوئے مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ، آپؐ کے اونٹ کی مہار تھامے بآواز بلند رجز پڑھ رہے تھے۔ (تاریخِ کثیر186/4) آپؐ نے معاہدے کے تحت تین دن قیام فرمایا۔ اپنے چچا حضرت عباسؓ کی درخواست پر حضرت میمونہؓ سے نکاح فرمایا۔ (صحیح بخاری حدیث4259)۔

مکّہ مکرّمہ پر مسلمانوں کی حکومت

قریشِ مکّہ نے حدیبیہ کے مقام پر اپنی مرضی اور پسند سے شرائط طے کروائی تھیں، لیکن وہ معاہدے کی پاس داری نہ کرسکے اور صرف ڈیڑھ سال بعد ہونے والی عہد شکنی اُن کی تباہی کا باعث بنی۔ معاہدے کی رُو سے قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کا حلیف ہوا اور بنو بکر قریش کا۔ یہ دونوں قبائل ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ ایک رات بنو بکر نے اہلِ قریش کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ پر حملہ کرکے اُن کے بہت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا۔ بنو خزاعہ کے لوگوں نے مدینہ آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قتلِ عام کے خلاف مدد کی التجا کی۔ 

آپؐ نے قریش کے پاس قاصد بھیجا، لیکن کوئی خاطرخواہ جواب نہ ملا۔ قریش کی لگاتار بدعہدیوں، گستاخیوں اور شرانگیزیوں کے پیشِ نظر فتح مکّہ کا قصد فرمایا۔ 10؍رمضان المبارک 8؍ہجری کو آپؐ دس ہزار مجاہدین کے عظیم الشان لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ 17؍رمضان المبارک کو آپؐ انصار و مہاجرین کے لشکرِ عظیم کے ساتھ فاتحانہ طور پر مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے۔ یہ وہی شہرِ جاناں ہے کہ جہاں سے خون کے پیاسے کفار نے آپ کو رات کی تاریکی میں چُھپ کر نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔ 

آج آٹھ سال بعد اسی شہرِ تاباں کے ایک روشن دن، حکم راں کی حیثیت سے رونق افروز ہوئے ہیں اور وہی سردارِ مکّہ، امراء، روسائے شہر کہ جن کے ہاتھ معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے، شرمندہ چہروں کے ساتھ اپنی قسمت کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف فرمایا، اپنی کمان کے اشارے سے 360؍بُتوں کو منہ کے بَل گرایا۔ خانہ کعبہ کے اندر نوافل ادا فرمائے، باہر تشریف لائے۔ ابنِ ہشام نے ابنِ اسحاق کے حوالے سے لکھا ہے کہ مکّہ 20؍رمضان 8؍ہجری کو فتح ہوا۔ (سیرتِ سرورِ عالم 287/3)۔

عام معافی کا اعلان

قریش سے خطاب سے پہلے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے دروازے سے ایک طائرانہ نظر مجمعے پر ڈالی تو چشمِ مبارک سے نکلتی نُور کی شعائوں نے فضا میں قوسِ قزح کے رنگ بکھیر دیئے۔ قریش کے چہرے مزید سیاہ ہوگئے، ہزاروں کے مجمعے کو سانپ سُونگھ گیا اور پھر یوں لگا، جیسے جھلملاتے ستاروں سے حرم جگمگا اُٹھا ہے۔ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوح پرور آواز مکّہ کے درودیوار میں گونجی تو قریشِ مکّہ کے دلوں کی دھڑکنیں بے قابو ہوگئیں۔ اللہ کی حمد و ثناء کے بعد آپؐ نے فرمایا۔ ’’اے مکّہ کے لوگو…! کیا تم جانتے ہو کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ اگرچہ قریش خود سفّاک و بے رحم تھے، لیکن مزاجِ نبیؐ سے بخوبی واقف تھے۔ پُکار اٹھے۔ ’’آپؐ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘ 

نبیٔ رحمت، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حسین مسکراہٹ کے ساتھ اپنے سامنے سر جھکائے کھڑے قریش کے ان سورمائوں کی جانب دیکھا، جن کے ظلم و استبداد کی خونیں داستانیں ہر صحابیٔ رسولؐ کے دل پر نقش تھیں۔ ان کفّار کا کانپتا وجود اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ آج ان سب کو اپنے قتل ہونے کا یقین ہے اور پھر رحمۃ للعالمینؐ کے لب مبارک سے ادا ہونے والے محبّت و شفقت میں ڈوبے الفاظ کے پھولوں نے فضا کو معطر کردیا۔ ’’تو میں تم سے وہی بات کرتا ہوں، جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی۔ ترجمہ:’’آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘ (طبقاتِ ابن سعد283/1)۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ مکّہ مکرّمہ میں آپؐ نے 19؍روز قیام فرمایا۔ (صحیح بخاری حدیث1080, 4298) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے 10؍دن قیام فرمایا۔ قیامِ مکّہ کے دوران شعائر اسلام کی تبلیغ و تلقین فرمائی، تمیمؓ بن اسد خزاعی کو حرم کی حدود کی تجدید پر مامور فرمایا۔ مکّہ کے ایک قریشی نوجوان عتابؓ بن اسید کو مکّہ مکرّمہ کی ولایت سپرد فرمائی۔ اس وقت اُن کی عمر صرف 20؍سال تھی۔ عتابؓ اپنی وفات تک مکّہ کے گورنر رہے، لیکن مختصر عمر پائی۔(تاریخ ابنِ خلدون466/2)۔مکّہ مکرّمہ میں قیام کے دوران ہی آپؐ کو اطلاع ملی کہ وادی حنین میں بنو ہوازن کے سردار، مالک بن عوف نے دیگر قبائل کے ساتھ مل کر ایک بڑا لشکر جمع کرلیا ہے، چناں چہ آپؐ نے انصار و مہاجرین اور نومسلم قریش کے ساتھ حنین کا رُخ کیا۔ 

غزوئہ حنین سے فارغ ہوکر آپؐ نے طائف کا رُخ فرمایا۔ عزوئہ حنین و طائف سے فارغ ہوکر آپؐ نے جعرانہ کے مقام پر عمرے کا احرام باندھا اور عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ کا سفر شروع فرمایا۔ مکّہ مکرّمہ میں اہلِ قریش کو قرآن کریم اور دین کی تعلیم سے روشناس کروانے کے لیے حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو مامور فرمایا۔ (تاریخ مکّہ مکرّمہ، محمود محمد حمو، صفحہ16) مکّہ مکرّمہ اور قرب و جوار کے تمام معاملات و انتظامات کی تکمیل کے بعد 24؍ذی قعدہ 8؍ہجری کو آپؐ مدینہ منورہ تشریف لائے۔ یوں دو ماہ اور سولہ دن مدینہ منورہ سے آپ کی عدم موجودگی میں حضرت ابو رہم غفاریؓ مدینہ کے امیر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ (تاریخ امّتِ مسلمہ357/1)۔

مسلمانوں کا پہلا حج

9؍ذی الحج کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو امیرِحج بنا کر تین سو صحابہ کرامؓ اور قربانی کے بیس اونٹ دے کر مکّہ روانہ کیا، تاکہ سنتِ ابراہیمیؑ کے مطابق مناسکِ حج ادا کیے جاسکیں۔ اس اثنا میں سورئہ توبہ میں برأت کی آیات نازل ہوئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو قافلہ حج کے پیچھے روانہ فرمایا۔ 10؍ذی الحج کو منیٰ میں حضرت علیؓ نے آیات برأت پڑھ کر سنائیں، جس میں حکم دیا گیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک خانہ کعبہ میں داخل ہوسکے گا، نہ اسے حج کی اجازت ہوگی اور نہ ہی بیت اللہ کا طواف برہنہ حالت میں کرسکے گا۔ (صحیح بخاری احادیث369,4655,4656)۔

حجتہ الوداع

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس عظیم مقصد کے لیے دنیا میں مبعوث فرمایا گیا تھا، وہ پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا تھا۔ مکّہ مکرّمہ میں جبل نور کے ایک تنگ غار سے طلوع ہونے والے آفتابِ اسلام کی روشن کرنوں نے جزیرۃ العرب کے دس لاکھ مربع میل علاقے کو روشن و منور کردیا تھا۔ حق و انصاف پر مبنی ایک مضبوط مسلم معاشرے کی تعمیر و تشکیل عمل میں آچکی تھی۔ اب 23؍سالہ روزوشب کی کٹھن و سخت محنت و مشقت کا ثمر یہ سرسبز و شاداب لہلہاتا گل و گل زار اپنے جاں نثاروں کے سپرد کرکے ربِ کعبہ کے حضور پیش ہونے کا وقت آچکا تھا۔ 

چناں چہ آپؐ نے حج پر جانے کا اعلان فرمایا اور 26؍ذی قعدہ بروز منگل بعد نماز ظہر مسلمانوں کے عظیم الشان لشکر کے ساتھ مکّہ مکرّمہ روانہ ہوئے۔ 9؍ذی الحج 10؍ہجری عرفات میں آپ ؐ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرامؓ کے سامنے ایک مفصّل خطبہ ارشاد فرمایا۔ مناسکِ حج کی ادائی کا طریقہ سکھایا، جاہلانہ رسم و رواج سے روکا، سودی لین دین کو ممنوع قرار دیا، قتل و غارت گری پر پابندی عائد کی۔ خواتین کے ساتھ خیر خواہی اور اچھے سلوک کی تعلیم و تلقین فرمائی۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی ادائی اور قرآنِ کریم کے احکامات اور سنتِ نبوی ؐ کی پیروی کی تاکید فرمائی۔ پھر امّت کو ان الفاظ میں الوداع فرمایا۔ ’’شاید میں اس سال کے بعد تم سے نہ مل سکوں۔‘‘

حج سے فارغ ہوکر آپؐ مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور تھوڑی مدت کے بعد ہی آپ رفیق اعلیٰ اپنے پروردگار اللہ عزوجل سے جا ملے۔ یہ واقعہ 12؍ربیع الاول 11؍ہجری یوم دوشنبہ کو چاشت کی شدّت کے وقت پیش آیا۔ اس وقت آپؐ کی عمر مبارک 63؍سال اور 4؍دن تھی۔ (الرحیق المختوم، صفحہ630)۔ (جاری ہے)