• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز ملک کے مختلف حلقوں میں قومی اسمبلی کی آٹھ اور صوبائی اسمبلی پنجاب کی تین نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ قومی اسمبلی کی آٹھ میں سے سات نشستوں پر پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان خود امیدوار تھے۔ ان انتخابات کے جو نتائج آئے وہ سب کو معلوم ہیں۔

یہاں ان انتخابات میں ان سات نشستوں جو قومی اسمبلی کی ہیں اور جن پر پی ٹی آئی کی طرف سے واحدامیدوار پارٹی چیئرمین تھے سے متعلق کچھ سوالات ہیں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ ابھی تک اسپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان کے استعفے کو نہ تو منظور کیا گیا ہے نہ ہی اس کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔تو کیا آئین کی رُو سے قومی اسمبلی کا منتخب رکن جس نے باقاعدہ حلف بھی اٹھایا ہو اور اسی بنیاد پر ملک کا وزیر اعظم بھی رہا ہو وہ منتخب رکن ہونے کے باوجود دوبارہ ضمنی الیکشن میں حصہ لے سکتاہے؟ ۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی سات نشستوں پر بیک وقت کوئی ایک امید وارہی الیکشن میں حصہ لے اور الیکشن بھی ضمنی ہوں تو میرے علم کے مطابق ایک امید وار کا میابی کی صورت میں صرف ایک نشست رکھنے کا مجاز ہے۔ پھر کیا باقی نشستوں پر دوبارہ انتخابات نہیں ہونگے؟ اگر آئین کے مطابق ایسا ہی ہے تو ایک کو چھوڑ کر باقی خالی کردہ نشستوں پر الیکشن کی صورت میں قوم کے کروڑوں روپے دوبارہ خرچ نہیں ہونگے جبکہ ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے.

 دوبارہ الیکشن کی صورت میں کروڑوں روپے کے اخراجات کا ذمہ دار کون ہے امید وار یا یہ مفلوک الحال قوم ؟تیسرا سوال یہ ہے کہ ان ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے حصہ لینے کا مطلب کیا تھا جبکہ وہ پارلیمنٹ میں جانے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کیا اس کا مطلب بلاوجہ قومی خزانے سے ان انتخابات پر کروڑوں روپے خرچ کروانہ سکے؟ اور کیا یہ ان لوگوں کے ساتھ مذاق اور شغل میلہ نہیں تھا کہ ان کا منتخب امیدوار تواسمبلی میں جائےگا ہی نہیں۔ تو کیا ان ووٹرز نے اپنا ووٹ ضائع نہیں کردیا؟

چوتھا سوال یہ ہے کہ ان انتخابات میں حصہ لینے والی تین بڑی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں کس کو کیا فائدہ اور کس کو کیا نقصان ہوا۔ ان جماعتوں کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان اور جے یو آئی (ایف) کی پوزیشن کیا رہی۔

 آئینی معاملات اور ان سے متعلقہ سوالات کے جوابات تو ماہرین آئین ہی جانتے ہیں لیکن آخری دوسوالات کا مجموعی طور پر میرے نقطہ نظر سے یہ جواب بن سکتا ہے کہ پی ٹی آئی نے ان ضمنی انتخابات کو ایک کھیل تماشہ سمجھا اور بنایا۔ شاید ان کا اپنا کوئی سیاسی فائدہ تھا یا محض شوبازی تھی۔

 قومی اسمبلی کے ان چھ حلقوں میں جہاں سے عمران خان کامیاب ہوئے وہاں پیپلز پارٹی اور بطور خاص مسلم لیگ ن نے ان کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا۔ اگر عمران خان نے ان انتخابات کو کھیل تماشہ سمجھ کر قومی خزانے کے کروڑوں روپے اور اپنے ووٹرز کے ووٹ ضائع کرائے تو پیپلز پارٹی اوربالخصوص مسلم لیگ(ن) بھی اس گناہ میں برابر کی شریک ہیں۔مسلم لیگ (ن) نے اپنے امید واروں کو صرف ٹکٹ جاری کیے اور پھر ان بیچاروں کو میدان میں تنہا چھوڑ دیا۔

پارٹی قائدین بیرون ملک دوروں پر گئے اور جو ملک میں موجود رہے ان کو بھی شاید پارٹی امیدواروں کی حوصلہ افزائی اورتعاون کی ہدایت نہیں کی گئی تھی۔ یا انہوں نے خود کنارہ کشی کی۔

 مسلم لیگ(ن) کے ’’ ووٹ کوعزت دو‘‘ کے بیانیے کا خود پارٹی قائدین نے حشر نشر کردیا۔ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پھر امیدواروں کو ٹکٹ ہی جاری نہ کرتے ۔ اس عمل کا مسلم لیگ (ن) کو بہت بڑا نقصان ہواہے جس کے اثرات تادیر قائم رہیں گے۔

جہاں تک ایم کیو ایم پاکستان کا تعلق ہے وہ اپنی ناقابلِ تردید شکست کو جوبھی نام دے لیکن ایک بات واضح ہوگئی کہ بٹوارے کی سیاست نہیں چل سکتی۔ اب بھی اگر انہوں نے ناراض ساتھیوں کو راضی نہ کیا اور دھڑوں میں بٹنے کے بجائے ایک نہ ہوئے توسیاسی طور پر وہ کہیں قصۂ پارینہ ہی نہ ہو جائیں۔

 جے یو آئی(ف) نے ان ضمنی انتخابات میں صرف ایک قومی اسمبلی کی نشست مردان( کے پی کے) کے لئے اپنے امید وار کو میدان میں اتارا تھا جو بہت بڑے عالم، مفتی اور شیخ الحدیث تھے اور اس علاقے میں انکو بے داغ کردار کے مالک، نہایت پرہیزگار، دیندار اور بہت ہی عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

 ان کی شکست، اپنے آبائی حلقوں میں ایمل ولی خان اور حاجی غلام احمد بلور کی شکست کو اگر دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ اس صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کے پیش نظر نہ صرف دال میں کچھ کالا ہے۔

ان تینوں امیدواروں مولانا محمد قاسم، ایمل ولی خان اور حاجی غلام احمد بلور نے مخالف امیدوار عمران خان کا زبردست مقابلہ کیا۔ ان میں مولانا محمد قاسم اور ایمل ولی خان کی کامیابی کے تو واضح آثار نظر آرہے تھے لیکن نتائج برعکس آئے۔ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ میں کسی پر الزام نہیں لگاتا صرف ان حقائق کو بیان کررہا ہوں جو نظر آتے ہیں اور وہاں کے عوام کو بھی معلوم ہیں۔

مجموعی طور پر دونشستیں ہارکر پی ٹی آئی کا بھی نقصان ہوا۔ غرض یہ عجیب وغریب انتخابات تھے جن کا قومی خزانے اور حصہ لینے والی جماعتوں میں سب سے بڑا نقصان مسلم لیگ ن کا ہوا ۔

 سوائے پیپلز پارٹی کے باقی کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہوا۔ یہ بھی محض غلط فہمی ہوگی کہ ان انتخابات کا پی ٹی آئی کو کچھ فائدہ ہوگا ۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ پی ٹی آئی کی یہ جیت آگے جاکر اس کے لیے بہت بڑا خاموش نقصان ثابت ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین