آئرن، بُلٹ ،بم پروف لیڈی اور خطروں کی کھلاڑی کے نام سے پکاری جانے والی، ہر لمحے خطروں کا سامنا کرنے والی، مشکل سے مشکل وقت میں بھی ثابت قدم رہنے والی جناح اسپتال کی سابقہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے میڈیکل کی دنیا میں بہادر ی، دلیری اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گہراں قدر خدمات انجام دیں ،ان کی خدمات کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ِممالک میں بھی سراہا جاتا ہے۔ 1988 ء سے ای آر (ER) ڈیپارٹمنٹ میں خدمات انجام دینے کا آغاز کیا۔
انہوں نے عالمی ادارہء صحت کے قوانین کے مطابق جناح اسپتال میں عمل در آمد کیا اور یہاں کے حالات بد ل دئیے۔ ان کی رہنمائی میں تقریباً 200 بم دھماکوں میں زخمی ہونے والے کئی لوگوں کا علاج کیا گیا۔ مریضوں کو طبی سہولیتیں فرا ہم کرنے کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگا دی ،نہ دن کے چین کی پروا کی نہ رات کے سکون کی ،کئی مرتبہ اسپتال پر دہشت گردی کے حملے بھی ہوئے لیکن وہ ثابت قدم رہیں۔
جدید ترین سہولیات سے آراستہ ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں کام یاب ہوگئیں، جس کو آج سارے پبلک سیکٹر اسپتالوں میں قابل فخر سمجھاجاتا ہے ۔ان کی بے پناہ خدمات کی بناء پر انہیں تمغہ ٔ امتیاز اور پاک فوج کی جانب سے اعزازی لیفٹیننٹ کرنل کا ایوارڈ دیا گیا ہے ۔گزشتہ دنوں ہم نے ان سے تفصیلی انٹرویو کیا ،ہمارے سوالوں کے جواب میں انہوں نے جو کچھ بتایا، نذرقارئین ہے۔
س: سب سے پہلے ہمارے قارئین کو اپنی تعلیم اور خاندانی پس منظر کے بارے میں بتائیں ؟
ج: میری جائے پیدائش لاہور ہے ، چھ سال کی تھی تو امی کا انتقال ہوگیا، پھر اہل خانہ کے ساتھ کراچی ا،پنے دادا،دادی کے پاس آگئی ئم گلستان شاہ عبدالطیف بھٹائی اسکول سے میٹرک ، پی سی ایچ ایس گورنمنٹ کا لج سے انٹر میڈیٹ اور نواب شاہ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا ۔سول اسپتال میں ہاؤس جاب کی ،بعدازاں تین ٹیسٹس دئیے۔ پہلا ٹیسٹ پبلک ہیلتھ فیڈرل کمیشن ،دوسرا آغاخان یونیورسٹی اسپتال اور تیسرا این آئی سی وی ڈی کا دیا ۔ یہ تینوں ٹیسٹ پاس کرلیے ۔میں نے پبلک ہیلتھ سروس کمیشن میں جانے کا ارادہ کیا ۔1993 ء میں تھائی لینڈ چلی گئی وہاں سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا ،پھر امریکا سے پبلک ہیلتھ پالیسی پلاننگ اور روٹ انجری ایمرجنسی کئیر میں پوسٹ گریجویٹ فیلو شپ ٹریننگ کی۔
سنگاپور اور دیگر ممالک سے متعدد کورسرز کیے۔ہر ملک کےایمرجنسی وارڈز دیکھے ،کیوں کہ میرا مقصد تھا کہ میں جناح اسپتال کی ایمرجنسی کو مکمل طور پر بدل دوں۔2010 ء کے بعد یہاں کی ایمرجنسی بیرونی ممالک کی طرح کردی ۔میں ایمرجنسی وارڈکا بالکل اس طر ح خیال رکھتی تھی جیسے ایک ماں اپنے بچے کا رکھتی ہے ۔میری دو بہنیں ہیں، دونوں امریکا میں ہیں۔ میرے شوہر کا تعلق بھی میڈیکل کے شعبے سے تھا وہ بھی ریٹائرڈ ہو گئے ہیں ۔دو بیٹے ہیں دونوں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
س: ڈاکٹر بننے کا شوق بچپن سے تھا ؟
ج: شروع سے ہی ڈاکٹر بننے کا سوچا تھا اور شوق بھی تھا ،مگر اسکول جانے کے بعد اپنی ٹیچرز کو دیکھ کر ٹیچر بننے کا شوق ہوگیا لیکن والدین چاہتے تھے کہ ہم تینوں بہنیں ڈاکٹر بنے، ان کے خواب اور خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ یہاں ایک بات ضرور بتانا چاہوں گی کہ میر ی امی کا تعلق بھی میڈیکل کے شعبے سے تھا ۔
س: کیرئیر کا آغاز کب اور کس اسپتال سے کیا ؟
ج: 1988ء میں جناح پوسٹ گریجوئٹ میڈیکل کالج (جے پی ایم سی ) سےکیرئیر کا آغاز کیا ۔جے پی ایم سی میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیا،دن کا چین، رات کا سکون کسی کی بھی پروا نہیں کی ،بس ذہن پر ایک ہی بات سوار رہتی تھی کہ ایمرجنسی میں آئے ہوئے مریض کےعلاج میں کسی قسم کی لاپرواہی نہیں کرنی۔
جب میں سنگاپور ، تھائی لینڈ ،لندن اور امریکا گئی تھی تو میں نے وہاں کی ایمرجنسی سے بہت کچھ سیکھا تھا ۔ان تمام چیزوں کو جی پی ایم سی میں عمل کرانے کی کوشش کی اور اس میں کافی حد تک کام یاب بھی رہی ۔وقت کے ساتھ ساتھ میں ایمرجنسی میں تبدیلیاں لاتی رہتی تھی ۔میری پہلے دن سے یہی کوشش تھی کہ ایمرجنسی میں موجود تمام مریضوں کو بہترین طبی سہو لت فراہم کروں ۔کسی کو کوئی شکایت نہ ہو ۔کوئی بھی مریض یہاں سے مایوس ہو کر نہ جائے ۔
س: جناح اسپتال میں آپ نے پہلے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا، بعدازاں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ،اس حوالے سے کچھ بتائیں ؟
ج: 1988 ء میں جناح اسپتال میں میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے جوائن کیا تھا، 2010 ء میں جوائنٹ ایگز یکٹیو ڈائریکٹر، پھر چھ سال بعد ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہد ہ ملا۔ 2021ء میں ریٹائرڈ بھی اسی عہدے پر ہوئی ہوں ۔میں یہ بات فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ، میں نے ان تمام عہدوں پر بہت ہی محنت، ہمت ،لگن ،دل چسپی ،دیانتداری اور ایمانداری سے کام کیا۔ آج مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ میں نے اپنی تمام تر ذمہ داریاں بہ خوبی بنھائیں ۔وہ کہتے ہیں ناں ڈاکٹر بننے کے بعد اپنا آرام وسکون سب بھولنا پڑتا ہے ،بالکل صحیح کہتے ہیں، کئی مرتبہ تو فیملی تقریبات چھوڑ کر اسپتال جانا پڑا۔
میرے بیٹے کی سالگرہ تھی لیکن ڈیوٹی کی وجہ سے شر کت نہیں کرسکی۔ اپنی سالگرہ پر فیملی کے ساتھ ڈنر پر گئی ۔اسپتال سے کال آگئی سب کچھ چھوڑ کر مریضوں کو طبی امداد دینے پہنچ گئی ،غرض یہ کہ آپ کو اپناغم، خوشی سب قربان کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلی ترجیح مریض ہوتے ہیں ۔یہاں ایک بات ضرور بتانا چاہوں گی کہ، میرا سفر بہت مشکل تھا ،اس میں طرح طر ح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسپتال میں کام کرنا کوئی آسان نہیں ہوتا، خاص طور پرایمر جنسی وارڈ میں ایسے ایسے حالات کا سامنا کیا ،جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
کئی دفعہ تو فائرنگ ہوئی ،2010 ء میں بم دھماکہ ہوا ۔لیکن ہر کھٹن وقت کا مقابلہ ہمت اور بہادری سے کیا ،کسی بھی لمحے ہمت نہیں ہاری ،مگرمشکل سے مشکل حالات کے باوجود میری پہلی ترجیح اسپتال کا نظم وضبط قائم رکھنا ہوتا تھا ،میں یہ بالکل بھی برداشت نہیں کرسکتی تھی کہ، میری موجودگی میں کوئی ڈاکٹر کسی مریض سے بدتمیزی کرے یا بدسلوکی سے پیش آئے۔دوسری بات میں وقت کی پابندی کرتی تھی اورمیرے ساتھ جواسٹاف تھا ان کو بھی وقت کی پابندی کرنے کا نہ صرف کہتی تھی ۔بلکہ کراتی تھی۔زندگی میں نظم و ضبط ضروری ہے۔
س: جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں سر براہ کے طور پر بھی کام کیا ؟اس بارے میں بتائیں ؟دورانِ ملازمت کن باتوں کو ترجیح دیتی تھیں؟
ج :پوسٹ گریجوئٹ اسٹیڈیز کو بہتر کیا ،اداروں کی توثیق کروائی، گریجوئٹس اور ہائوس جابز کے نمبر بڑھوائے۔مردہ خانہ بنوانا چاہتی تھی، ریٹائرمنٹ سے کچھ وقت پہلے وہ بھی بنواکر اسپتال کے حوالے کردیا، اس میں وہ تمام سہولیتیں ہیں جو عام طور پر کسی اسپتال میں نہیں ہو تیں ۔ہر عہدے پر میں نے نظم و ضبط کا خاص خیال رکھا ،مجھے کسی صورت برداشت نہیں تھا کہ لوگ کسی سے بھی بدزبانی یا بد کلامی کریں۔
اسپتال میں لوگ ویسے ہی پریشانی کے عالم میں ہوتے ہیں ،وہ وقت ان سے ہمدردی کرنے ،پیار سے پیش آنےکا ہوتا ہے نہ کہ ان سے بدتمیزی کرکے ان کی تکلیف کو مزید بڑھانے کا۔اس شعبے میں صبر و ضبط بہت ضروری ہے۔ڈاکٹرز کا رویہ مریض کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بعض ایسے مریض بھی آتے تھے، جن کے ساتھ کوئی فیملی ممبر نہیں ہوتا تھا تو ان کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا ،میری ہر ممکن کوشش ہوتی تھی کہ، ان کے علاج میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ ہو۔ میں نےاپنے اسٹاف کی اس طرح تربیت کی تھی کہ وہ میری غیر موجودگی میں بھی کسی مریض سے بدتمیزی نہیں کرتے تھے۔
ایک کام میں نے یہ بھی کیا تھا کہ پورے ایمرجنسی وارڈ میں سیکیورٹی کیمرے نصب کروادئیے تھے ،جن کو میں اپنے آفس میں بیٹھ کر چیک کرتی رہتی تھی ،جس سے اسٹاف کو یہ ڈر بھی رہتا تھا کہ میں نے ان پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ اکیلے ادارے بنانا آسان نہیں ہوتا۔ ان کو بنانے میں بہت محنت درکارہوتی ہے ،سالہاسال لگتے ہیں اداروں کو کھڑا کرنے میں، لیکن ان کو خراب کرنے میں چند دن لگتے ہیں۔ یہ بات فخریہ کہہ سکتی ہوں کہ میں نے جناح اسپتال میں’’ انسٹی ٹیوشن بلڈنگ‘‘ بہت کی ہے ۔تگ و دوبہت کی اس کی ایمرجنسی کو بہترین ایمرجنسی بنانے میں ۔ہر ممکن کوشش کی کہ، مریضوں کا علاج بہتر سے بہتر کیا جائے ۔ یہاں میں ایک نام ضرور لینا چاہوں گی ،وزیر صحت سندھ ،عذرا پیچوہو کا جنہوں نے میری اس کاوش میں ہر لمحے مدد کی ۔ وہ ہر قدم پر میرے شانہ بشانہ رہی ۔جب کبھی بھی ان سے کسی بھی چیز کے لیے کہا انہوںنے انکار نہیں کیا۔
س: دوران ِڈیوٹی کن باتوں کا خاص خیال رکھتی تھیں ؟
ج: اس بات کا خیال لازمی رکھتی تھی کہ ،اپنے اسٹاف کو کسی بھی صور ت ِحال میں اکیلا نہیں چھوڑوں۔ آج میں یہ سوچ کر بہت خوش ہوتی ہوں کہ، میرے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹر ز ،نرسز ،پیمرا میڈیکل اسٹاف سب ہی لوگ بہت تعاون کرتے تھے ،ان کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ ،میں ہر حالات میں ان کے ساتھ کھڑی ہو ۔حقیقت ہے کہ اگر آپ اپنے اسٹا ف کو اکیلا چھوڑ دیں تو وہ اس طرح سے کوالٹی ورک نہیں کرتے ،جیسا کرنا چاہیے۔ بہتر ین کام کے لیے آپ کوخود بھی ان کے ساتھ قد م سے قدم ملا کر چلنا پڑتا ہے ،جس طر ح گھر کا سر براہ لوگوں کا خیال رکھتا ہے میں بھی بالکل اسی طرح اپنے اسٹاف کا خیال رکھتی تھی ،ان کی ہر پریشانی میں ان کا ساتھ دیتی تھی،یہی وجہ تھی کہ جب میں بیمار ہوئی تو میرا سٹاف بہت پریشان ہوا ،انہوں نے میرا بہت خیال کیا ۔یہ سب محبتیں ہوتی ہیں۔
س: پہلے آپ کو Brain Hemorrhageہوا ،کچھ وقت کے بعد آپ colon cancer کے مرض میں مبتلا ہو گئیں ۔ان بیماریوں کامقابلہ کس طر ح کیا ؟
ج: ان دونوں بیماریوں کا مقابلہ ہمت اور بہادری سے کیا۔ جب مجھے برین ہیمبرج ہو اتو میں کئی دنوں تک اسپتال نہیں گئی ،جس دن میں نے اپنے آپ کو بہتر محسوس کیا ،اسی دن سے کام پر جانا شروع کردیا ،بغیر یہ سوچے کہ ابھی تو میں اتنی بڑی بیماری سے اُٹھی ہوں ۔میرے اسٹاف کو لگتا تھا کہ میں کافی عر صے تک کام نہیں کرسکوں گی۔ لیکن اللہ کا بہت شکر ہے کہ اُس نے مجھے مکمل طور پر صحت یاب کیا۔
کچھ عر صے بعد مجھے کولن کینسر (colon cancer ) کا مرض لاحق ہوگیا۔اس بیماری میں آپ کو پوزیویٹیٹی دکھانی پڑتی ہے ،کیوں کہ یہ جنگ ہوتی ہے جو آپ کو خودلڑنی ہوتی ہے ،اگر ہمت کا مظاہرہ کریں گےتو ہی مقابلہ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی مرض میں سب سے اہم کردار قوتِ ارادی ادا کرتی ہے ۔ڈھائی سال سے کینسر کا مقابلہ کررہی ہوں اور آہستہ آہستہ صحت یاب ہورہی ہوں ۔اسی طر ح دلیری کے ساتھ مقابلہ کرتی رہی تو بہت جلد اس بیماری کو بھی نجات دے دوں گی۔ کینسر سے جنگ کے دوران اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،ہر کام بہ خوبی کیا ،حالاں کہ سب مجھے کہتے تھے کہ اپنی صحت کا خیال رکھیں ،آرام کریں لیکن مجھے اپنی جان سے زیادہ ایمرجنسی میں موجودمریضوں کی زندگی عزیز تھی ،ا ن کی پروا تھی۔
س: ڈاکٹر کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لیے بھی کام کیا، اس بارے میں بتائیں ؟
ج: انسانیت کی خدمت کے لیے بہ تحاشاکام کیے، ان کو لفظوں میں بتانا آسان نہیں ہے ۔کورونا کے وقت تو بہت زیادہ فلاحی کام کیے۔ اگر میں یہ کہوں کہ میں نے اپنی جان کی بازی تک لگا دی تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ لیکن اس کے بدلنے میں اللہ نے مجھے بہت نوازا ہے، جس پر میں جتنا شکر ادا کروں کم ہے ،شاید اسی وجہ سے اور لوگوں کی دعاؤ ں سے ہر بیماری کا سامنا بہادری سے کررہی ہوں۔ وہ کہتے ہیں ناں اگر آپ کوئی بھی کام خلوص اور لگن سے کریں تو اس میں کام یابی ضرور ملتی ہے۔
س: آپ کو آئرن لیڈی ،بُلٹ لیڈی اور بم پروف لیڈی کے خطاب بھی ملے ہیں ،یہ کس کار کردگی پر دئیے گئے ؟
ج: جب شہرِکراچی میں بڑے بڑے حادثات ہوئے ،دھماکے ہوئے ، سب کو جناح اسپتال لایا جات اتھا۔ ایک وقت میں کئی کئی لوگ ایمرجنسی میں لائے جاتے تھے۔ اُس وقت سب کی حالت تشویش ناک ہوتی تھی ،اُس لمحے بہت ہمت کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا ۔ایسے وقت میں سب کچھ سنبھالنا آسان نہیں ہوتا۔ لاشیں ورثہ کے حوالے کرنا ،اُنہیں دلاسہ دینا بہت مشکل ہوتا تھا ۔لیکن سب کرنا پڑتا تھا اور کیا بھی ۔کسی بھی مو ڑ پر ہمت نہیں ہاری اسی لیے مجھے’’آئرن لیڈی‘‘ کہا گیا۔
شہر میں ہونے والے تقریباً200 دھماکوں میں شہید اور زخمی ہونے والے لوگوں کو سنبھالا ہے۔ جناح اسپتال متعدد بار فائرنگ کی گئی ،ہنگامہ آرئی ہوئی لیکن میں بالکل بھی نہیں ڈری اسی لیے مجھے ’’بلٹ لیڈی‘‘ کہا گیا، ایک مرتبہ جناح اسپتال میں دھماکہ ہوا ،اس وقت وہاں قیامت کا منظر تھا ،ہر طرف اندھیرا چھا گیا تھا،ہر کوئی زخمی حالت میں پڑا ہوا تھا ،ہر طرف سے چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں ،میں بھی بہت زیادہ زخمی ہوگئی تھی، یہ سمجھیں ہر سو موت کا سماء تھا۔
دھماکے کے وقت کی صورت ِحال میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی ، اس سب کے باوجود میں قطعاً خوف زدہ نہیں ہوئی، دلیری سے اُس وقت بھی کام کیا، اسی بنا ء پر مجھے’’ بم پروف‘‘ کا خطاب دیا گیا ۔ جب جناح اسپتال میں دھماکہ ہو اتو یہاں کے ڈاکٹرز کام کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور میں یہ نہیں چاہتی تھی کہ میرا اسٹاف کسی بھی وجہ سے اپنے کام میں لا پرواہی کرے۔
س: آپ میں اتنی ہمت اور جرات کیسے پیدا ہوئی؟
ج: ایک سر براہ ہونے کی حیثیت سے مجھے اپنی ذمہ داریوں کا بہت اچھے طریقے سے احساس تھا، اگر میں گھر بیٹھ جاتی تو کورونا میں مبتلا مریضوں کا علاج کیسے ہو تا ۔جب کہ ان دنوں میری کیموتھراپی بھی چل رہی تھی ،مگر میں نے اس کی فکر نہیں کی ،نہ کسی مریض کے علاج میں لاپروائی کی ۔خود تکلیف میں رہ کر بھی دوسروں کی تکلیف کو ختم کرنے کی کوشش ہمیشہ کرتی تھی۔ یہ سب کام کرنے کی ہمت اللہ نے دی، ورنہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میں یہ سب کام کرسکتی ہوں۔
آج سوچتی ہوں تو یقین نہیں آتا کہ میں نے یہ سب کیسے کرلیا ،کیسے ان حالات کا مقابلہ کیا ۔ ہاں ایک بات ہے میں ڈرتی تھی ، نہ گھبراتی تھی اورنہ ہی دورانِ ملازمت کبھی یہ خیال آیا کہ اگر مجھے کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا ۔کورونا کے وقت تو اسپتال کا برا حال تھا ،بے شمار مریض داخل تھے۔ لوگ ایک دوسرے سے خوف زدہ تھے ،ڈاکٹرز مریضوں کا چیک اپ کرنےسے ڈر رہے تھے، تاہم میں نے اس کی بھی پروا نہیں کی کہ، کہیں مجھ کووڈنہ ہو جائے ،حالاں کہ میرے بہنیں بہت غصہ کرتی تھیں ،وہ کہتی تھیں کہ چھوڑ دو کام، اسپتال نہیں جاؤ ۔ لیکن مجھے اس وقت بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ مریضوں کا علاج ہر صورت کرنا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
میں ایمرجنسی چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔فلم میکر شرمین عبید چنائی نے میری تمام خدمات کی بنا ء پر مجھ پر ایک ڈاکومینٹری بنائی تھی جو، میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے ۔دبئی کی ائیر لائن نے میری خدمات پر ایک ویڈیو بنائی تھی ۔ان تمام چیزوں کو دیکھ کر دل کو ایک اطمینان ہے کہ میری دن رات کی محنت رنگ لائی ہے ۔میری جرأت اور بہادری رائیگاہ نہیں گئی۔
س: ریٹائر ہونے کے بعد کیا مصروفیات ہیں ؟
ج: فیڈرل گورنمنٹ نیشنل ہیلتھ ٹاسک فورس کی چیئر پرسن کی حیثیت سے کام کررہی ہوں ،آئی سی آرسی نامی ادارے میں لیب کنسلٹنٹ کے طورپر کام کررہی ہوں ،ڈبلیو ایچ او کے ساتھ بھی کام کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ بھی میں بہت کام کررہی ہوں۔
س: میڈیکل کی دنیا میں بے شمار خدمات دینے کی بناء پر آپ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اعزازت سے نوازا گیا ؟اس حوالے سے بتائیں ؟
ج: حکومت ِپاکستان کی جانب سے 2018 ء میں تمغہ امتیاز ملا ،جو کہ میرے لیے بہت فخرکی بات ہے ، اس کے قبل ویمن اچیومنٹ ایوارڈ ملا۔ تعمیر ِپاکستان ایوارڈ سے نوازا گیا۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی سطح پر بھی بے شمار ایوارڈ ملے ۔ان کے ریٹائر ہونے پر نہ صرف پاکستانی اخبارات بلکہ دبئی ،بھارت اور امریکا کے اخبارات میں بھی ان کے میڈیکل کے سفر کےبارے میں شائع کیا گیا تھا۔
آخر میں ایک بات ڈاکٹرز سے ضرور کہنا چاہوں گی اپنا کام پوری دل چسپی اور توجہ سے کریں ،مریضوں کےساتھ رویہ اچھارکھیں ،ان کےساتھ ہمدردی کا رشتہ قائم کریں ،حسن سلوک سے پیش آئیں ،اپنی زبان اچھی رکھیں، مشکلا ت سے گھبرائے نہیں بلکہ مثبت رہیں ۔ یہ بات میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ کی مثبت سوچ آپ کو زندگی کے ہر موڑ پر کام یاب کریں گی۔
وہ لمحہ ،جب مجھےاعزازی لیفٹیننٹ کرنل کارینک ملا
وہ دن کبھی فراموش نہیں کرسکتی جب مجھے خط موصول ہوا، لفافہ ہاتھ میں تھا جسم کانپ رہاتھا ،سوچ رہی تھی ،یہ کیا ہے لمحہ بھر بعد خط پڑھ کر جو خوشی ملی وہ ناقابل بیان ہے۔ مجھے اعزازی لیفٹیننٹ کرنل کا رینک دینے کی خبر تھی۔ یہ اعزاز ملنے کے بعد تو ایسا لگتا جیسے مجھے دنیا کی ہر خوشی مل گئی اور میری 33 سالوں کی محنت اور خدمات رنگ لے آئی ،سچ کہوں تو میری زندگی کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔ میں سمجھتی ہوں یہ میری خوش قسمتی ہے، جس پر پاک ِفوج کی بہت شکر گزار ہوں۔ بچپن میں فوجیوں کو دیکھ کر بہت دل چاہتا تھا کہ میں بھی فوج میں جائوں۔ یہ اعزاز میری خدمات کے آگے بہت بڑا ہے۔ اس کے ملنے بعد میرا دل چاہتا ہے کہ مزید کام کروں ،ابھی اور بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
کورونا کا عالمی اعزاز
کورونا کا ایک سال مکمل ہونے پر عالمی ادارے صحت (ڈبلیوایچ او) نے 9 گلوبل ہیروز کی فہرست جاری کی، اس فہرست میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح اسپتال کراچی کی ڈاکٹر سیمی جمالی بھی شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے کورونا وبا کی صورتحا ل میں ڈاکٹر سیمی جمالی کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق جان لیوا مرض کا شکار ہونے کے باوجود ڈاکٹر سیمی جمالی جان خود فرائض سرانجام دیتی رہیں۔ فہرست میں پاکستان، میکسکو، سرینگر، جنوبی افریقہ سمیت دیگر ممالک کے 9 ہیلتھ ورکرز شامل ہیں۔
میری کار اندھی گولی کا نشانہ بن گئی
ڈاکٹر سیمی جمالی کی رہائش گاہ ،جناح اسپتال ڈاکٹرز کالونی میں ہے۔ یہ 26 دسمبر 2021 ء کی بات ہے ،میں اُس وقت گھر پر تھی سکیورٹی گارڈ نے کار پارکنگ میں کھڑی گاڑی کا شیشہ ٹوٹنے کی اطلاع دی۔ میں فوراً دروازے کی طرف دوڑی تو دیکھا کہ پارکنگ کی چھت میں سوراخ ہوگیا تھا۔ گولی چھت پھاڑ کر ان کی گاڑی کو لگی تھی۔ میں نے فوری طور پر صدر پولیس حکام کو واقعے سے آگاہ کیا، چند منٹ بعد ہی پولیس موقع پر پہنچ گئی اور صورتحال کاجائزہ لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں آئے روز اندھی گولی سے شہریوں کو نقصان پہنچتا ہے، یہ انتہائی خطرے کی بات ہے ۔اُس ساری رات میں سوچتی رہی کہ یہ کیا ہورہا ہے کسی نے کہا آپ کی گاڑی کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔لیکن میں یہ سوچ رہی تھی کہ اگر اسپتال کے کسی وارڈ پر یہ اندھی گولیاں برس گئیں تو کیا ہوگا، میری تو گاڑی تھی وارڈ میں تو مریض ہوتے ہیں۔ خیر اللہ کا شکر ہے کہ میری گاڑی ہی نشانہ بنی۔