• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پتہ نہیں ہم کب ایک سنجیدہ قوم اور سچے باوقار مسلمان بنیں گے۔ ہر طرف جھوٹ، افواہوں، فیک نیوز اور منافقت کا بازار گرم ہے۔ ہم سیاستدانوں کو قومی رہنما کہتے ہیں۔ وہ سیاستدان قوم کی کیا رہنمائی کریں گے اور کیا وہ رہنما کہلانے کے مستحق ہیں جن کی سیاست کی بنیاد افواہیں، جھوٹی خبریں پھیلانےاور منافقت پر چل رہی ہو؟کالم نویس اور تجزیہ کاروں کی طرح سیاسی رہنما بھی قوم کی شعوری تربیت کرتے ہیں تو ایسے لوگ جو افواہیں پھیلانے، جھوٹ بولنے، جھوٹی خبریں اور منافقت کو اپنی سیاست کی کامیابی کی بنیاد اور وجہ سمجھتے ہوں وہ قوم کی شعوری تربیت کیسے کرسکتے ہیں اور کیا ایسے لوگ رہنما کہلائے جاسکتے ہیں؟

آج کل ایک جماعت کی طرف سے یہ افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں کہ اس جماعت کے قائد کے پنڈی کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیں۔ پتہ نہیں پنڈی سے ان لوگوں کی کیا مراد ہے؟ وہ اگر سچے ہیں تو سیدھا نام کیوں نہیں لیتے؟ گزشتہ دنوں ایک گفتگو کے دوران عمران خان نے ’’ ایک آدمی اور اس آدمی‘‘ کا بہت زورشور کے ساتھ ذکر کیا لیکن ایکس اور وائی کی طرح’’ اس آدمی‘‘ کا نام نہیں لیا۔ آخر عمران خان کیوں قوم اور اپنے کارکنوں کو ہمہ وقت ایک نئی الجھن میں مبتلا کرتےرہتے ہیں؟

کیا یہ منافقت کی انتہا نہیں کہ جلسوں اور ’’ مخصوص ‘‘ صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں وہ اداروں کو دھمکیاں اور بدتہذیبی پر مبنی گفتگو کرتے ہیں لیکن درونِ خانہ ان سے ہی اقتدار دلانے کے لئے ’’ کوششیں ‘‘ کرتے ہیں۔ وہ آخر کب تک اپنے کارکنوں کو بیوقوف بناتے رہیں گے؟ کیا کوئی ان حقائق سے انکار کرسکتا ہے کہ و ہ جلسوں اور بیانات میں بڑھکیں مارتے ہیں اور بعد میں معافیاں مانگ لیتے ہیں۔ یہ مناظر لوگوں نے کئی بار دیکھے ہیں اور شاید آئندہ بھی دیکھیں گے۔ لانگ مارچ کا بیانیہ اور اس حوالے سے دھمکی آمیز بیانات کیا کم ثبوت ہیں جب کہ ذرائع کے مطابق ایسا کچھ تھا نہ ہے ۔

 لیکن دوسری طرف وہی لانگ مارچ کا بیانیہ اب ان کے گلے میں پھنسی ہڈی بن گیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ لانگ مارچ ناکام ہوگا جو ان کی سیاست کی بربادی کا موجب بن سکتا ہے۔ تاہم اب اگر وہ لانگ مارچ نہیں کرتے توان کی بچی کھچی سیاست کی نیا بھی ڈوبنے کا خدشہ ہے۔

یہ بات ہر ایک کے لئے قابل غور ہے کہ اتنے عرصہ سے لانگ مارچ کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے،ہر جلسے میں آئندہ جلسے میں لانگ مارچ کی تاریخ دینے کا اعلان کیا جاتا رہا ہے لیکن ابھی تک تو وہ دن نہیں آیاکہ جس دن اس مارچ کی تاریخ کا اعلان ہو۔ الیکشن قبل از وقت کرانے اور اداروں کو ساتھ ملانے کی کوششیں، دھمکیوں اور بڑھکوں کی طرح ناکام اور ختم شد ہوگئی ہیں۔

اب شاید وہ ان معاملات سے جان چھڑانے اور اگلے الیکشن کے انتظار میں بیٹھنے کا سوچ چکے ہیں لیکن ان سے جان چھڑانا بھی آسان نہیں ہے اس کے لئے بھی کوئی فیس سیونگ اور کوئی راستہ توچاہیے ۔ ایسے لگتا ہے کہ اب اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے سپریم کورٹ سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں کہ اگر وہ لانگ مارچ پر پابندی لگادے تواس عذاب سے جان چھوٹ سکتی ہےاور یہ امید حکومت نے سپریم کورٹ جاکر ان کو دلائی ہے۔ بہرحال فیصلہ کرنا تو عدلیہ کاکام ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کسی معاملہ میں عدالت سے کیا فیصلہ آجائے۔اس لئے اس بارے میں بے پر کی نہیں اڑانی چاہیے۔

حالیہ ضمنی انتخابات میں عمران خان کی چھ سیٹوں پر جیت کو بعض لوگ تاریخی فتح سے تعبیر کرتے ہیں جو سراسر غلط اور فیک نیوز کے مترادف ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے تو ان کے لئے میدان ہی کھلا چھوڑ دیا تھا۔ تو پھر اکیلا بندہ ریس میں دوڑتے ہوئے جیتے گا ہی۔ عمران خان جب بھی کسی پر کوئی الزام لگاتے ہیں تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اس وقت خود وہی کام کررہے ہوتے ہیں۔

اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں ان کی ایک گفتگومیں جیو نیوز کے معروف اینکر اور غیر جانبدار صحافی سلیم صافی پر ان کے الزام اور اینکر پرسن غریدہ فاروقی کے بارے میں نامناسب وغیر اخلاقی الفاظ ہیں۔ سلیم صافی جیسے باکردار صحافی پر لفافہ لینے کا الزام آسمان کی طرف تھوکنے کے مترادف ہے۔ یہ وہ صحافی ہیں جن سے تقریباً ہر حکومت اورسیاستدان ناراض ونالاں ہوتے ہیں۔

انہوں نے اس الزام کو چیلنج بھی کیا ہے لیکن الزام لگانے والے کے پاس35پنکچر کی طرح کوئی ثبوت نہیں ہے ،اس لئے خاموشی میں عافیت سمجھ کر بیٹھ گئے ہیں۔ لیکن یہ عافیت نہیں بلکہ ڈھٹائی ہے کہ اس جھوٹے الزام پر نہ تو ابھی تک سلیم صافی سے معذرت کی گئی ہے اور نہ ہی خاتون صحافی غریدہ فاروقی سے معذرت کرکے اپنے الفاظ واپس لینے کا کوئی بیان جاری کیا گیا ہے۔

دراصل کسی دوست نما دشمن نے عمران خان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ اپنے ہر سیاسی مخالف یا آپ کی مرضی کے خلاف چلنے والے پر الزامات کی بوچھاڑ کردیا کریں اور زبردست قسم کی دھمکیاں دیا کریں اس طرح اگلا خوفزدہ ہوکر یا توایک طرف چپ کرکے بیٹھ جائے گا یا آپ کی خواہش کے مطابق چلنے پر مجبور ہوجائے گا۔

تاحال یہ سارے حربے نہ صرف ناکام ہوئے ہیں بلکہ لینے کے دینے پڑے ہیں۔ آخر میں ذرائع کے مطابق اداروں سے مذاکرات کی خبریں جھوٹ پر مبنی ہیں۔ ریاست نہ کسی کی خواہش پر چلتی ہے نہ کوئی ریاست کو مغلوب کرسکتا ہے۔ ہر کام آئین کے اندر رہتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ پھر بھی کوئی نہیں سمجھتا تو شوق پورا کرلے ۔ لیکن ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے نامراد ہوں گے۔

تازہ ترین