• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایک نظریاتی ریاست کے طور پر برطانوی نوآبادیاتی راج سے اُبھرا۔ اس ملک کو بھارت اور ڈیورنڈ لائن کے پشتونوں کی شکل میں حریف ہمسائے وراثت میں ملے۔ہمارے عظیم قائد ہم سے بہت جلد رُخصت ہو گئے ، تب سے قیادت کا خلا پُر نہیں ہو پایا۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات نے پاکستان کی تاریخ ، اقدار، سماجی، اقتصادی اور خارجہ پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ ہماری قیادت اور ہماری توجہ ہمارے سماجی و اقتصادی مقاصد سے ذاتی مقاصد کی طرف منتقل ہو گئی، اس روش نے ہمیں بڑے تلخ تجربات سے گزارا۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کا پہلا باب لیاقت علی خان نے لکھا۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ پاکستان غیر جانبدارانہ مؤقف برقرار نہیں رکھے گا۔یہ ایک ایسا فیصلہ تھاجس نے قوم کوہمیشہ آزمائش میں ڈالے رکھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے ماسکو کا دورہ منسوخ کرکے واشنگٹن جانے کو ترجیح دی۔پاکستان نے سوویت یونین کے کمیونزم کے خلاف مغربی دنیا کے مفادات کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ خودمختاری، اقتصادی ترقی اور صنعت کاری پر توجہ دینے کی بجائے، پاکستان نے USAID، PL480 ، SEATO اور CENTO کی رکنیت کی صورت میں امریکی فنڈنگ پر انحصار کیا،جس کے باعث پاکستان سرد جنگ کے اثرات سے بچنے میں ناکام رہا۔ U2 ہوائی جہاز پشاور سے پرواز کرنے لگے۔ دیگر ممالک سے سستی درآمدات نے صنعتی خود مختاری سے غافل کیے رکھا ۔ برآمدات کو نظر انداز کیا گیا۔ خارجہ پالیسی اور مغرب کے ساتھ اتحاد نے ترقی کے دیگر امکانات کا راستہ روک لیا۔

کیوبا کے میزائل بحران نے سرد جنگ کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ پاکستان فرنٹ لائن پرتھا، اس لیے عسکری تصادم کے واضح خدشات تھے۔ نوزائیدہ قوم کو جمہوریت، ترقی اور خودمختاری کیلئےایک واضح سمت کی ضرورت تھی لیکن اس کے برعکس ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا، جس کے بعد یہ درکھلتا بند ہوتا رہا۔ قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور گڈ گورننس کیلئے قابل قیادت اور وژن کی جگہ اقتدار کی ہوس، شخصیت پرستی اور گمراہ کن پالیسیوں نے لے لی۔ ایوب خان نے مغرب سے آنے والی رقوم کو ترقیاتی منصوبوں میں لگایا لیکن وہ مستقبل کے تقاضوں سے بے بہرہ رہے۔ وہ 11 سال تک جمہوری نظریات کو کمزور کرتے رہے۔ ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان کے درمیان سیاسی دشمنی کا دور شروع ہوا۔ بھارتی مداخلت سے 1971 میں ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ قوم اس نقصان سے ابھی پوری طرح سنبھل نہ پائی تھی کہ جنرل ضیاء نے 10 سالہ فوجی حکمرانی اور سیاسی چالبازیوں کے ایک اور سیاہ باب کا آغاز کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ۔افغانستان پر روسی قبضے کے نتیجے میں ایک بار پھر واشنگٹن سےڈالر برسنے لگے لیکن اس کے باوجود معیشت، ٹیکس سسٹم، صنعت کاری، جمہوریت اور تعلیم کے حوالے سے ترقی پس منظر میں ہی رہی۔

نائن الیون کے باعث پاکستان ایک بار پھر محاذِ جنگ بن گیا۔ اس بار دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگایا گیا۔ یوں یہ واقعات پرویز مشرف کی ایک اور فوجی حکمرانی کا جواز ثابت ہوئے جسے واشنگٹن کی حمایت حاصل تھی۔ بم دھماکے، دہشت گرد حملے، عسکریت پسندی اور خود کش بمباروں کے باعث ستر 80ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ماضی کے بوئے گئے بیج پاک فوج کے جوانوں کی قربانیوں سے ختم کرنا پڑے۔ آج معیشت تباہی کے دہانے پر ،ڈیفالٹ کے قریب ہے۔ سیلاب نےاگلے کئی سال تک معاشی بحالی کے کسی بھی امکان کو مفقود کر دیا ہے۔ برآمدات جمود کا شکار ہیں۔ قرضے حد سے تجاوز کر رہے ہیں ، قرضوں کی فراہمی کے لیے ملک کو آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں کے سامنے خودمختاری کھونا پڑ رہی ہے۔ کیاہم ایسی قسمت قبول کر سکتے ہیں؟

تاہم پاکستان اور اس کے نوجوانوں نے ابھی ہار ماننے کا سوچا تک نہیں ۔ یہ وہ قوم ہے جس نے مدینہ کے مقدس شہر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندوستان سے لاکھوں پناہ گزینوں کے لیے راستہ بنایا۔ یہ وہ ملک ہے جس نے افغانستان سے ڈیڑھ ملین سے زیادہ پناہ گزینوں کو گھر دیا اور دنیا کے سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان کاارتقا ابھی تھما نہیں۔ ناممکن کو ممکن بنانا اور تاریکیوں میں روشنی پیدا کرنا اس قوم کا خاصہ ہے۔اس قوم کو اب صرف مخلص ، وژنری اور اہل قیادت کی ضرورت ہے۔ اپنے راستے کو ری ڈائریکٹ کرنے کیلئے ایک رہنما کی طلب ہے۔ ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں، جنہوں نے ہمیں کئی سبق سکھائے۔ یہ عمل کرنے کا وقت ہے۔ جمہوریت کے اصولوں، قانون کی حکمرانی اور میرٹ پر سختی سے عمل پیرا کرنے کیلئے نوجوانوں پرہی مشتمل نئی قیادت کو راستہ دینا ہو گا۔ اس ملک کو ترقی کیلئے اچھے، با صلاحیت، ایماندار مردوزن کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس وقت ایک لیڈر اور ایک وژن کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا لیڈر جو بے لوث، بے خوف، مستقبل کے تقاضوں سے آگاہ اور پرعزم ہو۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین