• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال کسی بھی معاشرے کے لیے خوفناک نتائج کا حامل ہوتا ہے، جس سے نہ صرف مذہب کا تقدّس بری طرح پامال ہوتا ہے بلکہ سیاست بھی عوام کے حقیقی مسائل حل کرنے کا ذریعہ بننے کی بجائے فروعی مسائل یا نان ایشوز کی نذر ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہو کر انتشار ، انارکی اور بالآخر خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں۔

 آج کل پاکستان ایسی ہی ہیجانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا عمل جنرل ضیا نے شروع کیا، جس نے اپنے ہر غیر آئینی عمل کو مذہب کا جامہ پہنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پاکستان مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوگیا۔ جو آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جنرل ضیاء کے بعد گو اکثر حکمرانوں نے مذہب کے استعمال کا سلسلہ جاری رکھا لیکن اس ضمن میں عمران خان سب پر بازی لے گئے ۔

 اگرچہ مذہب انسان اور خدا کے درمیان تعلق کا ایک انتہائی ذاتی اور پاکیزہ اظہار ہے جس پر تبصرہ کرنے کا کسی تیسرے فرد کو حق حاصل نہیں ہونا چاہیے ۔

 لیکن جب کوئی شخص محض اپنے ذاتی ، گروہی یا سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو چوراہے میں لے آئے تو پھر مذہبی تقدّس کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ ایسا کرنے والے کے اپنے کردار اور مذہبی علم کا جائزہ لیا جائے کہ کیا کہنے والا جو کچھ کہہ رہا ہے ، اس میں کوئی منطق ، دلیل یا سچائی موجود ہے بھی یا نہیں ؟ شخصیت پرستی کی اسلام اور دیگر مثبت مکاتبِ فکر میں اس لیے شدّت سے ممانعت کی گئی ہے کہ شخصیت پرستی بھی بُت پرستی کی ہی ایک شکل ہوتی ہے، جس میں آپ اس شخص کو جسے آپ پسند کرتے ہیں.

 انسانی درجے سے اٹھا کر اس درجے پر لے جا تے ہیں جہاں آپ کو اس کے عیب بھی کارنامے دکھائی دیتے ہیں ۔ عمران خان کی ذاتی زندگی اور سیاسی زندگی میں گفتار اور کردار کی ایک وسیع خلیج حائل رہی ہے ۔

 ماضی کے پلے بوائے اور حال کے مبیّنہ مشکوک سرگرمیوں کے حامل (آڈیو اور ویڈیو ٹپس کے حوالے سے )عمران خان کی ساری زندگی قول و فعل کے تضادات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک ہی سانس میں ریاست ِ مدینہ ، مغرب کے جمہوری نظام ، سعودی عرب کے شاہی نظام اور چین کے ون پارٹی سسٹم کے قائل نظر آتے ہیں۔

 لیکن ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ان تمام نظاموں کا سطحی علم رکھتے ہیں بلکہ ان تمام نظاموں میں جہاں شخصی اقتدار نمایاں ہے اس نظام کے زیادہ قریب ہیں۔ اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں انہوں نے جس طرح اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا اور میڈیا میں احتجاجی آوازوں کو کچلا ، اس کی ایک مثال سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کا وہ انٹرویو ہے جو انہوں نے عمران خان کے دورِ ستم میں دیا ۔

جب انہیں اس وجہ سے وقت سے پہلےملا زمت سے فارغ کردیا گیا جب انہوں نے عمران خان کے کہنے پر ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم نہیں کیے تھے۔ جس پر انہوں نے بشیر میمن سے کہا تھا کہ سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان کی حکم عدولی کی کوئی جرأ ت نہیں کر سکتا ۔

وہ ریاست ِ مدینہ کے داعی رہے اور انصاف کے سب سے بڑے علم بردار ۔ لیکن اپنے دور میں انہوں نے ہر معاملے میں غلط بیانی کی اور اسے یو ٹرن کا نام دیکر بڑا لیڈر ہونے کا دعویٰ کیا۔تاہم جس طرح سابق خاتونِ اوّل نے اپنی قریبی دوست فرح گوگی کے ذریعے پنجاب پر عملاََ حکمرانی کی اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔

آٹا ،چینی ، گیس اور ادویات اسکینڈلز میں ملوّث اپنے ساتھیوں کو نوازا، ملک کی معیشت کو تباہ کیا۔ ہر ادارے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ، ملک کی خارجہ پالیسی پر بے سرو پا بیانات دیکر پاکستان کو دنیا میں تنہا کر دیا۔ اور جب پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ گیا تو آئینی عمل کے ذریعے اپنی حکومت کی تبدیلی کو جس طرح انہوں نے غیر آئینی طریقے سے روکنے کی کوشش کی اور جب یہ کوشش ناکام ہو گئی تو ایک معمول کے سائفر کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈے سے ’’ امریکی سازش‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ نہ انہوں نے نہ ہی ان کے حامیوںنے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ سازش بتا کر نہیں کی جاتی ۔ بعد میں سائفر کا پول بھی کھل گیا تو خان صاحب اپنے اقتدار میں لانے والوں کے در پے ہو گئے۔ ایسے فاشسٹ رویّوں سے ریاست ِ مدینہ تو نہیں البتہّ پاکستان کو نازی ہٹلر کا جرمنی بنایا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین