• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

19؍مارچ 2019ء کو ہماری زندگی کا مرکز و محور، ہماری رہنما، پیاری امّی جان اچانک ہمیں داغِ مفارقت دے گئیں۔ اُن کی وفات کے بعد شدّت سے احساس ہوا کہ ہم کتنی عظیم نعمت سے محروم ہوگئے ہیں۔ میرے والدین کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ ابّو سرکاری ملازمت سے وابستہ تھے، شادی کے بعد اُن کا تبادلہ ہوا، تووہ امّی کے ساتھ واہ کینٹ منتقل ہوگئے۔ وہیں امّی، ابّو کے گلشن میں 6؍پھول کِھلے، چار بیٹیاں اور دو بیٹے۔ میں سب سے بڑی بیٹی ہوں۔

ابّو کی سرکاری نوکری میں گھر چلانا مشکل ہوگیا، دوسری طرف ہماری تعلیمی اخراجات بھی بڑھ گئے، تو ایسے حالات میں امّی نے گھر میں کپڑا فروخت کرنا شروع کردیا اور وہ کپڑا راول پنڈی سے خود خرید کر لاتیں۔ گھر دیکھتیں، بچّوں کا بھی خیال رکھتیں، رات دن محنت و مشقت میں لگی رہتیں، مگر کبھی ہمّت نہ ہاری۔ 

بچّوں کی خوشی کی خاطر اپنا آرام و سکون سب قربان کردیا۔ پھراللہ تعالیٰ نے اس چھوٹے سے کاروبار میں اتنی برکت دی کہ چار سال بعد ابّو نے کریانے کی دکان کھول لی۔ وہ صبح آفس جاتے، واپس آنے کے بعد دکان چلے جاتے، وہاں سے رات کے دس گیارہ بجے واپس آتے اور پھر صبح کام پر چلے جاتے۔ جہاں امّی دن رات، محنت مشقّت کرتیں، وہیں ابّو کی بھی ان تھک محنت اور جدوجہد نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔

میری والدہ اعلیٰ اخلاق، خلوص و محبّت، صلۂ رحمی اور صبر و ایثار کی بہترین مثال تھیں۔ غریب بیوہ عورتیں ان کے پاس روتی ہوئی آتیں، اپنی ضرورتیں بیان کرتیں، اور واپس آسودئہ خاطر جاتیں۔ امّی ان کی ہر ممکن مددکی کوشش کرتیں۔ وہ رشتے داروں سے بھی خُوب صلہ رحمی کرتیں، اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے اپنے، پرائے سب اُن کی بہت عزت کرتے تھے۔ غریب، نادار لوگوں کی دُعائوں سے اللہ نے اتنی برکت دی کہ ابّو نےجلد ہی اپنا ذاتی مکان خرید لیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد امّی نے میری اور مجھ سے چھوٹی بہن کی شادی ایک ساتھ کردی۔ وقت گزرتا رہا، پھر پانچ سال بعد دوسری دو بہنوں اور ایک بھائی کی بھی شادی ہوگئی۔ 

چھوٹا بھائی ایف ایس سی کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے ترکی چلا گیا اور چار سال بعد وہاں سے انجینئرنگ کی ڈگری لے کر پاکستان لوٹا تو اس کے بھی سر پر سہرا سجا کر امّی اپنے تمام بچّوں کی شادی کے فرض سے سبک دوش ہوگئیں۔ یوں تو ہم سب اپنے اپنے گھروں میں خوش تھے، لیکن کبھی کوئی دکھ، تکلیف اور پریشانی کا سامنا ہوتا، تو امّی بڑے احسن طریقے سے حل کردیتیں، ہماری سب پریشانیاں اپنے دامن میں سمیٹ کر ہماری زندگیاں میں خوشیوں کے پھول کِھلادیتیں۔ 

بلاشبہ، امّی کی حیثیت ہماری زندگی میں بہار کی سی تھی، اُن کا چہرہ دیکھتے ہی ہمیں دلی سکون مل جاتا۔ ابّو کے انتقال کے بعدبھی انھوں نے بڑے حوصلے سے کام لیا اور پہلے سے بھی زیادہ ہمارا خیال رکھنے لگیں۔ مارچ 2019ء کو ایک روز اچانک طبیعت خراب ہونے پرہم انھیں اسپتال لے گئے، ہم سب پُرامید تھے کہ انھیں کوئی بڑی یا خاص بیماری نہیں، دوسرے روز بخیریت گھر آجائیں گی۔ 

مگر انسان سوچتا کچھ ہے اور تقدیرکے فیصلے کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ امّی اُسی رات اچانک انتقال فرماگئیں۔ 19؍مارچ کے سورج نے ہماری امّی کی زندگی کی شام کردی۔ وہ ہمیں روتا، تڑپتا، سسکتا چھوڑ کرسفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ اُن کے جانے کے بعد شدّت سے احساس ہوا کہ وہ تو ہماری زندگی کی بہار ہی نہیں، ہماری جنّت بھی تھیں؎ گھر سُونا کر جاتی ہیں، مائیں کیوں مرجاتی ہیں.....سبز دعائوں کی کونجیں کیوں ہجرت کر جاتی ہیں۔

ہر سال مارچ کا مہینہ آتا ہے، تو زخم تازہ ہوجاتے ہیں اور اُداسیوں کے سائے کچھ اور بھی گہرے ہونے لگتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت سے دُعا ہے کہ میری امّی جان کی قبر پہ کروڑوں رحمتوں کا نزول ہو اوروہ اپنے کرم سے اُن کے درجات بلندفرمائے۔ (شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ)