جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ شکر گزار ہوں کہ مجھے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی، لیکن اس کے باوجود میں مولانا کہلانا زیادہ پسند کروں گا۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دفاعی لحاظ سے پاکستان کی پوریشن اچھی رہی ہے، گورنر نے اپنی بات کہہ دی میں نے اپنی بات، اب کیا بات کی کھال اتاریں، دینی مدرسہ بھی ایک ادارہ ہے، ٹاپ رینکنگ پر آپ دینی علوم میں ہیں اور اس کی قدر کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہماری سوسائٹی کا حسن ہے کہ سیاسی طور پر جو نظریہ ہو ایک دوسرے کو عزت دیتے ہیں، ایک دوسرے کو عزت دینا ہماری روایات کا حصہ ہے جس کو بچانے کی ہم آج کوشش کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں آئین کی بالادستی، پارلیمان کے احترام پر جانا چاہیے، 26 ویں ترمیم اتفاقِ رائے سے منطور ہوئی ہے، اسے متنازع بنانا درست نہیں، 27 ویں ترمیم یک طرفہ ہوئی، جبر سے دو تہائی اکثریت بنائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اشرف غنی تک کبھی پاکستان دوست حکومت نہیں رہی، مہاجرین کا مسئلہ افغانستان اور پاکستان کا دو طرفہ ہے، مہاجرین کو بھیجنے کے لیے پالیسی بنانی چاہیے نہ کہ دھکیلا جائے، مہمان کو رکھنے کے بعد اگر لات مار کر نکالا جائے تو یہ مہمان نوازی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ زور کہیں اور سے آ رہا ہے اور زور کہیں اور ڈال رہے ہیں، مہاجرین کا مسئلہ افغانستان اور پاکستان کا دو طرفہ ہے، افغانوں نے 40 سال میں پاکستان میں بہت سرمایہ کاری کی ہے، جو افغان یہاں تعلیم اور ہنر سیکھ گئے اس صلاحیت کو ہم ضائع کیوں کر رہے ہیں؟