پاکستان میں انتظامیہ کے زوال کی داستان لکھتے ہوئے ایک گزشتہ تحریر میں غیر ملکی حکمرانوں کے دور کی سول انتظامیہ کا تذکرہ ہوا۔ برطانوی وزیر اعظم لائیڈ جارج کے حوالے سے لکھا کہ اُنہوں نے 1922ء کی ایک تقریر میں ’’انڈین سول سروس‘‘ کو ہندوستان کی انتظامیہ کے لئے فولادی ڈھانچے سے تعبیر کیا۔ کچھ لوگوں نے تبصرہ کیا کہ غیر ملکی حکمرانی کے دور میں ’’انڈین آرمی‘‘ بھی برطانوی حکومت کافولادی ڈھانچا تھا جو آج بھی اپنی مضبوطی اور آب و تاب کے ساتھ قائم ہے۔ اِس کا تذکرہ بھی قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گا۔
’’انڈین آرمی‘‘ کی تاریخ، حیرت انگیز اور دلچسپ ہے۔ ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘کے کار پرداز،تجارتی مراعات کے لیے مغل دربار میں تحفے تحائف پیش کرتے۔ تزکِ جہانگیری میں بارہا اُن غیر ملکی بندوقوں کا ذکر ہے جو شکار کیلئے شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں کے زیر استعمال رہیں۔ تجارتی گودام بنانے کیلئےبندرگاہوں کے قریب ’’کمپنی‘‘ نے پٹے پر زمین لی اور حفاظت کیلئےمقامی پہرے دار بھرتی کیے۔ چوکیداروں کی یہ جماعت انڈین آرمی کی ابتدائی شکل تھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا دائرہ اختیار بڑھا تو برطانیہ سے بھرتی کیے گئے فوجی، تربیت کے بعد ہندوستان لائے گئے۔ شروع میں یورپین نسل کے افسر ہی کمیشنڈ اور نان کمیشنڈ عہدوں کے حقدار تھے۔ مقامی لوگ صرف بطور سپاہی بھرتی کیے جاتے۔
کمپنی نے سب سے پہلے بنگال پریذیڈنسی، پھر مدراس پریذیڈنسی اور آخر میں بمبئی پریذیڈنسی آرمی، تشکیل دی۔ 1824ء میں اِس فوج کی تعداد دو لاکھ تھی۔ 1844ء کے اعداد و شمار کے مطابق دو لاکھ پینتیس ہزار چار سو چھیالیس مقامی سپاہی اور چودہ ہزار پانچ سو چوراسی یورپین سپاہی، ہندوستان میں تعینات ’’انڈین آرمی‘‘ کا حصہ تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی، اِسی آرمی کے ساتھ، ہندوستان کی مختلف ریاستوں پر حملہ آور ہوتی رہی۔ یہ سفر بنگال سے شروع ہوا، پھرمیسور، مراٹھا حکومت اور رنجیت سنگھ کی پسپائی نے برطانیہ کا اقتدار پورے ہندوستان پر قائم کر دیا۔ ’’انڈین آرمی‘‘ کے فرائض میں نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی دُنیا میں بھی برطانیہ کے زیر نگین علاقوں کا دفاع شامل تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر تاج برطانیہ کی عمل داری میں، ہندوستان سے باہر، برما، افغان حکومت اور چین کے خلاف پہلی اور دُوسری افیون جنگ لڑنے کے علاوہ افریقی براعظم میں ابے سینا کے خلاف بھی انڈین آرمی برسرِ پیکار رہی۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد حکمران فوج کی بھرتی بارے حساس ہو گئے۔ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی سپاہ کے ڈسپلن کا تجربہ مدنظر رکھتے ہوئے علاقائی حوالوں سے عسکری نفسیات کو پرکھا گیا۔ نئی بھرتی میں اُن قوموںکے افراد کو ترجیح دی گئی جو فوجی ڈسپلن بہآسانی قبول کرتے۔ گورکھا نسل کے لوگ سب سے پسندیدہ ٹھہرے۔ بھرتی میں علاقائی ترجیح سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ کسی خطے کے لوگ برطانوی حکومت کے حق میں تھے۔ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ برطانوی حکومت کو اِن علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے اندر بغاوت پھوٹنے کا اندیشہ نسبتاً کم نظر آیا۔ اِس کے علاوہ انگریز مختلف قومیتوں کے لوگ فوج میں بھرتی کر کے ہندوستان میں اِس طرح پھیلانا چاہتے تھے کہ سپاہیوں میں فکری وحدانیت پیدا نہ ہو۔ اِس بنا پر اُن افراد کو بھرتی میں ترجیح ملتی جو فوج میں شمولیت کی خاطر اپنا علاقہ چھوڑنے پر آسانی سے مائل ہوتے۔ کئی بنجر اور بارانی علاقوں کو عسکری ضرورت کے تحت نہری نظام سے محروم رکھا گیا۔ زراعت سے روزگار کے مواقع محدود کیے گئے اور وہاںبسنے والے جفاکش باشندوں پر ’’مارشل ریس‘‘ کا ٹھپہ لگا کر فوج میں بھرتی پر راغب کیا گیا۔ صدیق سالک کی خودنوشت ’’سیلوٹ‘‘ میں مرحوم بریگیڈیئر صاحب نے ذکر کیا ہے کہ فوج میں عہدے کا حصول، جہلم اور چکوال کے علاقے میں تاریخی طور پر، کس قدرومنزلت کا حامل تھا۔
لارڈ Kitchener، برطانوی فوج کے کمانڈر انچیف بنے تو اُنہوں نے 1903ء سے 1909ء کے دوران تینوں پریذیڈنسیوں کی افواج کو یکجا کر کے ’’انڈین آرمی‘‘ تشکیل دی۔ اِس آرمی میں مقامی اور یورپین افراد شریک تھے، مگر ہندوستانی نسل کے فوجی پوری طرح قابلِ بھروسہ نہیں سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ غیر ملکی افسروں کو مقامی سپاہ کی نگرانی میں رکھنےکیلئے،اُنہیں زیادہ تنخواہ دے کر ہندوستان میں تعیناتی پر مائل کیا جاتا۔ پہلی جنگ عظیم میں ایک لاکھ چالیس ہزار فوجیوں نے حصہ لیا جس میں نوے ہزارمختلف محاذوں پر لڑے۔ کئی دہائیوں پر مشتمل برطانوی حکمرانوں کی محنت کا نتیجہ تھا کہ فوجی ڈسپلن، سپاہیوں کی رگ و پے میں سما گیا۔ مسلمان سپاہی، ترکی میں اُسی خلافت عثمانیہ سے برسر پیکار رہے، جس کے احیا کے لیے ہندوستان میں تحریک چلی۔ اِس جنگ میں ’’انڈین آرمی‘‘ سینائی کے ریگستانوں ، فلسطین، عراق کے میدانوں اور سرزمین حجاز میں تاجِ برطانیہ کی سر بُلندی کیلئے خون بہاتی رہی۔
جنگ عظیم اوّل ختم ہوئی تو رولٹ ایکٹ اور دُوسرے بے رحم قوانین کا نفاذ ہوا۔اِن سفاک ضابطوں کے خلاف احتجاج ہوئے۔ امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں پُر امن اجتماع پر انڈین آرمی کی، -2گورکھا ، 54 سکھ اور 59 سندھ رائفلز کے جوانوں نے اپنے کمانڈر جنرل ڈائر کے حکم پر، اینفیلنڈ رائفلیں اُٹھائیں اور بے گناہ لوگوں کو بھون کر رکھ دیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، چار سو سے کم ، مگر غیر جانبدار تجزیوں کے مطابق ایک ہزار لوگ مارے گئے۔ اِس واقعے نے ’’انڈین آرمی‘‘ کے فولادی ڈھانچے کی مضبوطی، پائیداری اور قابلِ بھروسہ ہونے پر مہر ثبت کر دی۔ بھارت کے سیاست دان ششی تھرور نے برطانوی دورِ حکومت کے بارے میں’’ An Era Of Darkness‘‘ ’’ایک دورِ تاریک ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیںکہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر ہندوستان کے سالانہ بجٹ کا ساٹھ فیصد حصہ صرف فوجی اخراجات پر خرچ ہوتا تھا۔ برطانوی حکومت کو ’’انڈین آرمی‘‘ کے ادارے سے گہرا عشق تھا کیونکہ اِسی کے کارن تاج برطانیہ کی عمل داری نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی دُنیا میں مختلف کالونیوں پر بھی قائم تھی۔ جب ہندوستان کے بٹوارے کا وقت آیا تو آخری وقت تک کوشش جاری رہی کہ فوج تقسیم نہ ہو۔ ایک اکائی کی صورت برقرار رہے، مگر یہ ممکن نہ تھا اور’’انڈین آرمی‘‘ کا ایک حصہ ’’قومی فوج‘‘ کی شکل میں پاکستانی عوام کی دفاعی اُمنگوں کا ترجمان بنا۔ اِس تبدیلی کے مختلف پہلوئوں کا آئندہ تحریروں میں ذکر جاری رہے گا۔